ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺتمام
جہانوں کیلئے رحمت ہیں اس کا عملی مظاہرہ آپﷺ نے اپنے حُسن اخلاق سے اسی
سرزمین پر رہ کر کیا جہاں آج سعودی عرب کا ملک واقع ہے۔اس سرزمین کے باسیوں
نے ایک مدت تک غربت اور افلاس والی زندگی بسر کی چٹانوں اور صحرہ والی
سرزمین پر پانی اور غذائی اجناس نا پید تھیں۔اﷲ نے اپنے وسیع خزانوں سے اس
سرزمین آخروزماں نبیﷺ کو اس انداز میں نوازہ کہ جیسے کایا ہی پلٹ گئی ہو
دیکھتے ہی دیکھتے قدرت نے تیل و گیس کی دولت سے مالا مال کر ڈالا۔یکدم امیر
ہوئی اس مملکت کو وسیع پیمانے پراور برق رفتارتعمیرو ترقی کیلئے پوری دنیا
سے بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے
اپنے ماضی کویکسر بُھلا کر بالخصوص غریب ممالک کیلئے تکبر سے بھر پور جامع
پالیسیاں مرتب کی گیئں تاکہ سعودی عرب میں روزی کی غرض سے آنے والا کوئی
بھی سر اُٹھا کر نہ جی سکے بلکہ اپنے آپ کو دیار غیر میں سمجھے اور غُلاموں
کا سا حال ہو۔
مجبور انسانیت پر ظلم کی ابتدا سعودیہ میں اترتے ہی اس وقت شروع ہوجاتی ہے
جب قدرے سختی سے ایک نئے تشریف لائے فرد سے اس کا بنیادی سفری ڈاکیومنٹ
پاسپورٹ اُس سے اس کا کفیل یا کمپنی کا اہلکار لے لیتا ہے گو یا کہ اب آپ
غُلام ہیں بغیر ہماری اجازت کے آپ کہیں نہیں جا سکتے چاہے آپکی ماں کا بھی
انتقال ہوگیا ہو۔اور کام بھی اسی کفیل یا اسی کمپنی کیلئے کرنا ہے چاہے مر
بھی جائیں کیونکہ بغیر پاسپورٹ اور اجازت نامہ کے کوئی دوسری کمپنی یاکفیل
اپنے ہاں کام نہیں دیتا ہے اتنا کہ اپنا شعبہ تک نہیں تبدیل کر سکتا
اگرکوئی مزدور ہے تو کبھی پروجکٹ سپروائزرنہیں بن سکتا کیونکہ نصیب کا مارا
ہے غلام ہے۔
دنیا بھر کا دستور ہے کہ کسی بھی ملک میں داخلے کیلئے یا تو وزٹ ویزہ
ہوتاہے یا ورک پرمٹ مگر پاسپورٹ دونوں صورتوں میں اپنے پاس ہوتا ہے اپنے
آنے جانے کو انسان خود شیڈول کرتا ہے اور ورک پرمٹ کی صورت میں پورا ملک
حاضر ہوتا ہے کسی بھی جگہ کام کریں اور اپنی قابلیت کو جتنا منوانا ہے
منوائیں اور اپنے لئے اور اس ملک کیلئے جتنی ترقی کر سکتے ہیں کریں راستے
کُھلے ہیں، لیکن سعودیہ میں معاملہ یکسر اور ہے انسان جس کفیل یا کمپنی کے
پاس پہلے دن سے جاتا ہے اس کا غلام ہے جب تک اُن کا اجازت نامہ(نقل
کفالہ)نہ حاصل ہو جائے اور اس کا ملنا اتنا مشکل ہے جیسے اُونٹ کو نکیل
ڈالنا۔
مندرجہ بالا حالات کا خلاصہ یہ ہے کہ سعودیہ میں روزگار تو اپنے ملک سے
قدرے بہتر مگر تکالیف اور دباؤلامحدود ملتے ہیں۔
سعودی عرب کے شہنشاہوں سے گزارش ہے کہ اپنی پالیسیوں پہ نظرثانی فرمائیں
اور رحمت دوجہاںﷺ کی سرزمین کو رحمت بنائیں کہیں حقوق العباد کی یہ سنگین
خلاف ورزیاں اﷲ کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائیں اور امیروکبیر مملکت کہیں
واپس غربت و افلاس کی دلدل میں نہ چلی جائے۔خداراانسان کو انسان سمجھا جائے
غلام نہیں کیونکہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ |