کرامات اولیا
(سید قمر احمد سبزواری, Lahore)
حضرت خواجہ فضیل بن عیاض رحمة
اللہ تعالیٰ علیہ اولیاءکرام کے اکابر متقدمین میں سے ہیں ۔ آپ ؒ کی
ابتدائی زندگی کے حالات میں مذکور ہے کہ آپ ؒ ابتداءعمر میں چوروں ڈاکوﺅں
کے سرغنہ تھے ۔ جنگل میں ڈیرے ڈالے پڑے رہتے تھے اور جب کوئی قافلہ ادھر سے
گزرتا تھا تو اسے لوٹ لیا کرتے تھے ، آپؒ کے گروہ کے آدمی جب غارت گری کا
مال آ پ ؒ کے سامنے پیش کرتے تھے تو آپ ؒ حسب پسند کوئی چیز اپنے لیے رکھ
کر باقی اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن اس سرقہ بالجبر اور ڈکیتی
کے باوجود آپ ؒ اور آپ ؒ کے گروہ کے لوگ بڑے پکے نمازی تھے ۔ وقت پر سب لوگ
نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے ۔ اور جو شخص نماز نہ پڑھتا اسے اپنے گروہ سے
خارج کردیتے تھے ۔
ایک روز ڈکیتی کے ارادہ سے آپ ؒ اور آپ ؒ کے ساتھی کسی مسافر قافلہ کی
جستجو میں گئے ہوئے تھے کہ آپ ؒ کے قریب سے ایک قافلہ گزرا جس میں ایک شخص
کلام پاک تلاوت کر رہا تھا جس وقت وہ آپ ؒ کے سامنے گزرا تو اس کی زبان پر
یہ آیت تھی ....
الم یا ن للذین امنو ا ان یخشع قلوبھم لذکراللہ
مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر کے
سامنے جھک جائیں ۔
یہ آیت سنتے ہی آپ ؒ کے دل پر سخت چوٹ لگی جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور
کہنے لگے ”فصیل ! کب تک راہزنی کرتا رہے گا ؟ اب توبہ کا وقت آگیا ہے “۔ آپ
ؒ نے اسی وقت سچے دل سے توبہ کی ۔ اور مکہ معظمہ ہجرت فرمائی ۔ اور اولیا
ءکبار سے فیض حاصل کر کے مسند رشد و ہدایت پر فائز ہوئے اور مرجع خواص و
عام بنے ۔
-----------------------
دلی میں ایک بار سخت قحط پڑا تین روز تک نماز استقار پڑھی گئی مگر اس کا
اثر ظاہر نہ ہوا ۔ بادشاہ نے حکم دیا”کسی فقیر کو میرے پاس لاﺅ “لوگوں نے
ایک مجذوب کو پیش کر دیا ۔ بادشاہ نے ان سے دعا کی التجاءکی ، مجذوب نے اسی
وقت لنگوٹاکھول کر دے دیا ۔ اور کہا اس کو دھولاﺅ اور سوکھنے کو ڈال دو ۔
”لوگوں نے ایساہی کیا ۔ اسی وقت بڑے زور سے بارش ہونے لگی ۔ بادشاہ نے کہا
” یہ کیا بات ہے ؟“
مجذوب نے کہا ۔ ” آج کل اللہ میاں سے ہمار ا بگاڑ ہو رہا ہے جو بات ہم
چاہتے ہیں وہ اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ وہ اب ہمارا لنگوٹا نہ سوکھنے دیں گے
“۔ جب خو ب مینہ برس لیا تو مجذوب نے لنگوٹے کوآگ کے اوپر سکھا دیا تو اسی
وقت بارش تھم گئی ۔
-----------------------
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ایک روز مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے
کسی شخص نے آکر عرض کیا ۔ ”آپ کا وعظ شہر میں ہی کام کرتا ہے یا جنگل میں
بھی کوئی اثر دکھاتا ہے ؟ “آپ ؒ نے فرمایا ” کیابات ہے ؟ بتلاﺅ ۔“ اس شخص
نے عرض کیا ۔ چند اشخاص فلاں مقام پر جنگل میں راگ رنگ میں مصروف ہیں شراب
کا دور چل رہا ہے ۔ یہ سن کر آپ ؒ اسی وقت منہ پر کپڑا لپیٹ کر جنگل کی طرف
چل دیئے ۔ جب قریب پہنچے تو لوگ بھاگنے لگے ۔ آپ ؒ نے فرمایا ” بھاگو مت
میں بھی تمہارا ہم مشرب ہوں اور اسی واسطے آیاہوں شہر میں تو ہم پی نہیں
سکتے ۔ لاﺅ کچھ ہو تو ہمیں بھی پلاﺅ ۔“
ان لوگوں نے عرض کیا ۔ ” حضرت ! ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ ؒ بھی پیا کرتے ہیں
تو ہم آپ ؒ کو ہمیشہ پلایا کرتے ۔افسوس اس وقت شراب بالکل نہیں بچی ۔
فرمائیںتو شہر سے منگا دی جائے ۔ آپؒ نے فرمایا ۔” اس کی ضرورت نہیں تمہیں
کوئی ایسی بات معلوم نہیں کہ شراب خود بخود آجایا کرے ۔“
وہ بولے ۔” یہ کمال تو ہم میں نہیں ہے ۔“ آپ ؒ نے فرمایا ۔” آﺅ میں تم کو
اس کی ترکیب بتادوں اﺅل تو تم لوگ نہاﺅ پھر کپڑے بدل کر میرے پاس آﺅ ۔“ آپ
ؒکی ہدایت کے مطابق سب نے غسل کیا کپڑے دھوئے اور پاک و صاف ہوکر آپ ؒ کی
خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپؒ نے فرمایا ۔” اب تم سب دو رکعت نماز پڑھو۔“
یہ سب لوگ جب نماز میں مشغول ہو گئے تو آپ ؒ نے خدا سے دعا کی ۔ اے اللہ !
میرا اتنا ہی اختیار تھا کہ آپ کے حضور میں ان کو کھڑا کر دیا ۔ اب آپ کو
اختیار ہے ، ان سے جیسا چاہے سلوک کیجئے ۔
حق تبارک و تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اسی وقت وہ سب لوگ پکے اور سچے
مسلمان بن گئے ۔ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ابتدائی
حالات سے مرقوم ہے کہ آپ ؒ جواہرات کی تجارت کیا کرتے تھے تجارت کے سلسلہ
مےں ایک مرتبہ آپ ؒ روم تشریف لے گئے ۔ رومی وزیر سے ملاقات ہوئی جس نے آپ
ؒ سے کہا ۔ آج ہم ایک جگہ جار ہے ہیں ۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلو ۔ “آپ ؒ نے
فرمایا ۔ ” بہت اچھا ۔“ اور آپ ؒ وزیر کے ہمراہ جنگل میں تشریف لے گئے ۔
جنگل میں اطلس کا ایک پیش قیمت خیمہ ایستادہ تھا ۔ وزیر کے پہنچتے ہی سب سے
پہلے ایک لشکر جرار نے ایک خیمہ کے گرد چکر لگایا پھر اطباءاور فلا سفر نے
اس خیمہ کا چکر کاٹا ۔ اس کے بعد دو سو خوبصورت پری جمال عورتیں ، رزق برق
لباس میں زرو جواہرات کے بھرے ہوئے تھال لے کر اس خیمہ کا چکر کاٹ کے لوٹ
آئیں ۔ اس کے بعد خود بادشاہ اور وزیر خیمہ کے اندر گئے ۔ اور باہر آگئے ۔
یہ نظارہ دیکھ کر آ پ بہت دیر تک سوچتے رہے اور سمجھ میں نہ آیا تو وزیر سے
ہی اس واقعہ کے متعلق دریافت کیا ۔ وزیر نے جواب دیا ۔ ” بادشاہ کے ایک
حسین و جمیل بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے اور اس خیمہ میں اس کی قبر ہے ۔ ہم
لوگ سال بھر میں ایک مرتبہ اسی ترتیب و اہتمام سے قبر کی زیارت کے لیے آتے
ہیں ۔ اور یہ مظاہرے کرتے ہیں صاحب قبر کو بتلانا چاہتے ہیں کہ اگر تمہاری
موجودہ حالت بدلنے کی ہم میں ذرّہ برابر بھی طاقت ہوتی تو ہم طاقت ، حکمت ،
فلسفہ ، حسن و جمال اور دولت سے تمہاری موجودہ حالت بدل ڈالتے ۔ مگر تمہارا
معاملہ تو ایسی ذات کے ساتھ ہے کہ ساری کائنات بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ و
عاجز ہے ۔ یہ بات سن کر حضرت خواجہ حسن بصری ؒ کے دل پر خاص اثر ہوا اور
ایک کیفیت پیداہوئی ۔ اور آپ ؒ اپنا مال تجارت چھوڑ کربصرہ واپس آگئے ۔ اور
ترک دنیا کی قسم کھا کر گوشہ نشین ہوگئے ۔ پھر ستر سال آپ ؒ نے عبادت و
ریاضت کی ۔ یہاں تک کہ عبادت و ریاضت میں اپنے زمانہ کے تمام بزرگوں پر
سبقت لے گئے ۔ اور اپنی ذات کو اس ذات سے وابستہ کر دیا جو تمام دنیا کی
خالق و مالک ہے ۔
-------------------------------
حضرت شیخ شاہ کلیم اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک طالب علم حاضر
ہوا کرتا تھا اور اس کے طالب دین ہونے کی وجہ سے حضرت شیخ ؒ اس پر شفقت بھی
فرمایا کرتے تھے ۔ ایک دن اس نے حضرت سے کہا ۔ نماز کی ہرنےت کے وقت میں
کہتا ہوں کہ میرا منہ کعبہ کی طرف ۔ لیکن آج تک تو کعبہ مجھے نظر نہیں آیا
۔ حضرت شیخ ؒ اس کی اس طالب علمانہ شرارت پر مسکرائے اور ازردہ کرم فرمایا
۔ اچھا آنکھیں بند کرو آنکھیںبندکیں تو حضرت شیخ ؒ نے فرمایا ۔ ” بتلاﺅ کیا
نظرآ رہا ہے ؟ ‘
طالب علم نے عرض کیا ” بیت اللہ شریف سامنے ہے ۔ حضرت شیخ ؒ نے فرمایا
تقویٰ اختیار کرو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو ۔ ہر وقت ایسا ہی ہو سکتا ہے ۔
-------------------------------
حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کسی ضرورت کی بناءپر مسجد سے دجلہ
تک تشریف لے گئے ۔ آپ ؒ کا قرآن مجید اور مصلیٰ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں
رکھا ہوا تھا ۔ مسجد میں ایک بوڑھیا داخل ہوئی اوراس نے دیکھا کہ مسجد میں
کوئی آدمی نہیں تو دونوں چیزیں اٹھالیں ۔ اور اپنی چادر میں اس طرح چھپالیا
تو شبہ بھی نہ ہونے پائے ۔ حضرت واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں آپ ؒ
نے اس بوڑھیا کو دیکھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کر م سے آپ ؒ پر یہ
منکشف کر دیا کہ اس نے آپ ؒ کا قرآن مجید اور مصلیٰ چوری کیا ہے ۔ آپ ؒ نے
اپنی آنکھیں نیچی کر لیں تاکہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکیں ۔ اور اس بوڑھیا سے
فرمایا ۔ ” کیا تمہارا بیٹا قرآن پڑھتا ہے ؟ ۔ بوڑھیا نے انکار کیا تو آپ ؒ
نے فرمایا ” اگر یہ بات ہے تو جو قرآن شریف تم اٹھالائی ہو ، وہ مجھے دے
دو۔ قرآن شریف کی تو تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ مصلیٰ تمہارے کام
آسکتا ہے اس لیے وہ تمہیں دیتا ہوں ۔ وہ عورت گھبراگئی اور فوراً دونوں
چیزیں آپ کو واپس کردیں ۔ آپ ؒ نے چاہا بھی کہ وہ مصلیٰ اسے واپس کردیں وہ
اتنی گھبراچکی تھی کہ ایک لمحہ بھی نہ ٹھہر سکی اور تیز ی سے کہیں غائب ہو
گئی۔ |
|