آزادی اورغلامی میںفرق صرف
اتناہے کہ اگرکوئی شخص غلامی کی زندگی شہزادے کی طرح بھی جیے تواسے نہ
توجسمانی سکون میسرہوتاہے اورنہ ہی ذہنی ۔غلامی سے مُرادکسی شخص کواس کی
مرضی کے مطابق کام کرنے ،آنے جانے ،زندگی میں آگے بڑھنے پرپابندی
لگاناہے۔غلامی کی زندگی کسی بھی جاندارکےلئے اذیت بن جاتی ہے ۔کسی شخص
کوجتنی بھی سہولیات غلامی کی زندگی میں فراہم کی جائیں پھربھی اس کےلئے
غلامی کی زندگی ذلت آمیزہوتی ہے۔اس کے برعکس اگرکوئی شخص اپنی جھونپڑی میں
غربت کی زندگی بھی گذاررہاہو،مگراس پرکسی قسم کی پابندی نہ ہو۔آزادانہ
طورپر وہ کوئی بھی کام کرسکتاہو،اس کی خواہشات پرکسی کاپہرہ نہ ہوتووہ اپنی
آزادی کی زندگی کواپنے لیے قابل رشک سمجھتا ہے۔آزادی کی زندگی
انسانوں،جانوروں،پرندوں سب کوپسندہے۔کوئی پرندہ اگرپنجرے میں قیدکرلیاجائے
تواس پرندے کےلئے زندگی عذاب بن جاتی ہے ۔بیشک جتنی بھی سہولیات بندپنجرے
میں پرندے کومہیاکرائی جائیں مگراس سے وہ خوش نہیں ہوتا۔وہ آزادفضاﺅں میں
اُڑنے کےلئے ہرپل خواہاں رہتاہے ۔وہ سوچتاہے کہ میں کب اس غلامی سے نجات
پاکرآزادہواﺅں میں اُڑوں۔کل ملاکرکہاجاسکتاہے کہ غلامی کی زندگی سے آزادی
کی زندگی ہزاردرجہ بہترہے ۔ہندوستان میں 190 سال سے زائدعرصہ تک انگریزوں
نے ہندوسنانیوں کوغلام بناکررکھااوران پرحکومت کی ۔ابتدامیں انگریزتجارت کی
غرض سے ہندوستان آئے لیکن سونے کی چڑیاکہلانے والے ملک ہندوستان کے وسائل
کودیکھ کران کی نیت میں لالچ آگیا اورانہوں نے آہستہ آہستہ ہندوستان کے بہت
سے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔مہمان بن کرہندوستان میں آئے انگریزوں نے
ہندوستانیوں کواپناغلام سمجھناشروع کردیااورسیدھے سادھے ہندوستانیوں
پرمظالم ڈھاناشروع کردیئے،انگریزاپنے آپ کوبہت ہی اعلیٰ سمجھتے تھے لیکن
ہندوستانیوں کوگھٹیااورنیچ سمجھتے تھے ۔انگریزہندوستانیوں سے کس قدرنفرت
کرتے تھے کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انگریزاپنی گاڑی میں کتے
کوبٹھالیتے تھے لیکن کسی ہندوستانی کوگاڑی میں بٹھاناگوارہ نہ سمجھتے
تھے۔کوئی بھی ہندوستانی انگریزوں کے سامنے بلندآوازمیں بات کرنے کی کوشش
کرتاتواسے کوڑوں سے پیٹاجاتاتھا،جیلوں میں بندکردیاجاتاتھا۔ہندوستانیوں سے
دِن بھرمزدوری کرواکے انہیں مزدوری سے محروم رکھناانگریزوں کاوطیرہ بن
گیاتھا،انگریز پھوٹ ڈالو۔تقسیم کروکی پالیسی پرعمل کرتے تھے اورہندوستانیوں
کوآپس میں لڑانے کےلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے تھے مگرآہستہ آہستہ
ہندوستانی لوگوں نے انگریزوں کی اس چال کوسمجھ لیا اور متحد ہو کر انگریزوں
کے خلاف آوازبلندکرنے کامصمم ارادہ کرکے انگریزوں کے مظالم کاجواں مردی سے
سامنا کیا۔ انگریزوں کے ظلم وجبرکیخلاف سب سے پہلے ہندوستانیوں کی طرف سے
بغاوت 1857 میں شروع ہوئی مگرکچھ وجوہات کی وجہ سے 1857 کی جدوجہدآزادی میں
ہندوستانی کامیاب نہ ہوسکے۔انگریزاپنے خلاف اُٹھنے والی ہرآوازکوطاقت کے
ذریعے دبانے کےلئے نہتے ہندوستانیوں پرمظالم ڈھاتے تھے۔انگریزوں کے
ہندوستانیوں پرمظالم کی سب سے بڑی مثال جلیانوالہ باغ کے سانحہ سے دی
جاسکتی ہے۔13اپریل 1919کوجلیانوالہ باغ امرتسر میں ایک جلسہ منعقدہواجس میں
ہندو،مسلمان ،سکھ عیسائی تمام طبقوں سے وابستہ ہندوستانی شامل تھے۔اسی وقت
ایک انگریزی آفیسرجنرل ڈائرجلیانوالہ باغ کے جلسہ میں پہنچا،اس نے
ہندوستانیوں کے اتفاق واتحادکوبرداشت نہ کیااور انگریزی فوج کوفائرنگ کاحکم
دے دیا،سینکڑوں نہتے ہندوستانی جنرل ڈائرکی بربریت کاشکارہوکرموت کی گہری
نیندسوگئے۔انگریزوں کے اس وحشیانہ اورانسانیت سوز سلوک سے ہندوستانی عوام
کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا۔اس غلامی کے دور میں جو جو مظالم ہندوستانیوں
پرانگریزوں نے ڈھائے ان کوبیان کیاجائے تو ہر دل پاش پاش اور ہر آ نکھ ا
شکبار ہو جائے گی ۔پھرانگریزوں کے ظلم سے تنگ آچکی ہندوستانی عوام نے اپنے
سامنے ایک ہی نشانہ طے کیاکہ انگریزوں کی حکمرانی اورظلم وبربریت سے سرزمین
ِ ہندوستان کوآزادکرایاجائے ۔انگریزوں کے مظالم بڑھنے کی وجہ سے تحریک
آزادی نے بھی طول پکڑااورگاندھی جی اوردیگرعظیم رہنماﺅں کی قیادت میں
بالآخر15اگست 1947 کوہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزادہوگیا۔ملک
کوانگریزوں کے چنگل سے آزادکرانے کےلئے ہرمذہب اورہرطبقہ کے لوگوں نے کندھے
سے کندھاملاکرتحریک آزادی میں حصہ لیا،آزادی کے متوالوں کی قربانیوں
اورتمام مذاہب کے لوگوں کے اتحادکاانعام 1947میں ہندوستانی عوام کوانگریزوں
کی غلامی سے آزادی کی صورت میں حاصل ہوا۔
آج اگر ہم اپنی پسندکی حکومت بنانے، اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے ،،اپنے من پسند
نمائندے کوچننے ،ملک وریاست کی تعمیروترقی میں سرعت لانے کے بارے میں سوچنے
کے اہل ہوئے ہیں تویہ اُن عظیم شہیدوں کی قربانیوں کانتیجہ ہے جنھوں نے ملک
کوانگریزوں سے آزادی دلانے کی خاطر اپنی بیش قیمتی جانوں کانذرانہ پیش کیا
،ان ہی شہداکی وجہ سے ہم آج آزادی کی کھلی ہوامیں سانس لے رہے ہیں۔آج ہم
اپنی آزادی کی 68ویں سالگرہ جوش وجذبے سے منارہے ہیں ۔26 جنوری 1950
کوہندوستان ایک جمہوری ملک بنا۔اس ملک کے شہریوں کوایک آئین کے تحت مساوی
حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ایک شہری کے ملک کے تئیں اُس کی فرائض کی نشاندہی
بھی کی گئی۔آج یعنی 15اگست کا دن وہ دن ہے جس دن ہندوستانیوں کو انگریزوں
کی غلامی سے آ زادی نصیب ہوئی تھی ۔ہرسال کی طرح اس سال بھی 15اگست
ہندوستانیوں کےلئے ان رہبران قوم شہیدبھگت سنگھ ،سکھ دیو،راج
گرو،چندرشیکھرآزاد،مولاناابوالکلام آزاد،گاندھی جی ،اشفاق اللہ وایسے کئی
دیگرجوان مردوں اورباہمت انسانوں کی یادوں کی سوغات لیکرآیاہے جنھوں نے اس
سرزمین کوفرنگیوں کے مظالم سے نجات دلاکراس ملک کے باشندوںکو کھلی فضاﺅں
میںسانس لینے کی آزادی دلائی اوراس امرعظیم کے لئے انہوں نے کون کون سی
تکالیف،اذیتیں ،اورذلتیں خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیں کوئی بھی تاریخ
شناس انسان آزادی کے حصول میں ان کے کردارکوفراموش نہیں کرسکتاہے۔کون بھول
سکتاہے آزادی کے متوالوں کوجنھوں نے اپنی جانوں کاملک کی سرزمین کی
بقاءکےلئے قربان کیا جس کی وجہ سے آج ہرہندوستانی خودکوہندوستان کاباشندہ
کہلانے کاحقدار ہواہے ۔ شہیدبھگت سنگھ، راج گرواورسکھ دیوجیسے جاںبازوں اور
ماں با پ کے لخت جگروں نے اس ملک کو اپنا خو ن دے کر سیراب کیا تب جا کر
ہندوستان کوآزادی ملی ہے جہاں آ ج ہم آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں ۔آ ج
15اگست کے دن کو ہمیں ”یومِ آزادی “ کے نام پر صرف ”چھٹی گزارنے“اور آوارہ
گردی کرنے ، موٹرسائیکلوں اور دوسری گاڑیوں پر غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر
نہیں گزارناچاہیئے اور اپنے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے والوں
کی قربانیوں کو نہیں بھولناچاہیئے ۔بلکہ اس دن کوہمیں تو ”یوم احتساب “ کاد
ن سمجھناچاہیئے اور سوچناچاہیئے کہ آ ج سے 67برس قبل قربانیوں کانذرانہ دے
کرفرنگیوں کی غلامی سے آزادکرائے گئے ملک ہندوستان کی ترقی اورخوش حالی میں
اپنا کیا کردار ادا کیا ہے؟ اور اس کے نام کو روشن کر نے کے لئے کیا
کارنامہ سر انجام دیا ہے؟اور کون سا اچھا کام اس کے لئے کیا ہے جواس کا
بیرونی دنیا میں نام روشن کر نے میں کام آ یا ہو؟ ہم آج کے دِن
جھنڈاچڑھاکر،اسے سلامی دے کر،چندمیٹھے بول بول کراپنے آ پ کوملک کے تئیں
عائدذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔آج ہم گاندھی جی کے اصولوں کوبھول
چکے ہیں۔وہ عدل وانصاف کے پیکرتھے ۔آج ملک بھرمیں فرقہ پرست عناصرکھلے عام
فرقہ پرستی کوہوادینے میں سرگرم ہے اورمسلمانوں کوتعصب کی نظرسے صرف
دیکھاہی نہیں جارہاہے بلکہ مسلمانوں کی شناخت ،ثقافت اورکلچرکومٹانے کے
منظم منصوبے بھی تشکیل دیئے جارہے ہیں جوکہ ملک کی سا لمیت کےلئے بہت
بڑاخطرہ ہیں۔مسلمانوں نے جنگ آزادی میں جوسرگرم رول اداکیاہے اُسے فراموش
نہیں کیاجاسکتاہے۔آج اگرکوئی مذہب،ذات برادری ،رنگ ونسل کی بنیادپرتعصب
پھیلانے کی کوشش کرتاہے وہ ملک کے رہبران کے اصولوں کی نفی کررہاہے ۔یومِ
آزادی محض رسمی تقریریں کرنے کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ اس موقعہ پرنہ صرف
ہمارے سیاسی لیڈروں کو بلکہ ہرشہری کواپنامحاسبہ کرناچاہیئے کہ وہ اپنے ملک
کی ترقی اورخوشحالی کےلئے کیاکررہاہے ۔ہم سب کافرض بنتاہے کہ ہم آپسی بھائی
چارے، مذہبی رواداری کوپروان چڑھائیں ،ملک دشمن عناصرکے منصوبوں کوناکام
بنائیںاورملک کی تعمیروترقی میںاپناکردارنبھائیں تاکہ مختلف رنگ ونسل ،مذاہب
اوربولیوں کے بسنے والے لوگوں کاایک گلدستہ نماملک ”ہندوستان “خوشحال ہو
اوریہاں کے لوگ سکون کی زندگی جی سکیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے
وقارکوبلندکرنے اور سا لمیت کومستحکم بنانے کےلئے تمام ترتحفظات اورتعصبات
سے اوپراُٹھ کراتحادکے ساتھ جانب منزل رواں دواں رہیں۔تاکہ ان شہیدوں کی
روح کواطمینان ملے جن کی شہادت کی بدولت ہمیں یہ آزادی ملی تھی اور دُنیا
کے نقشے پرہماراملک ہندوستان سب سے بڑا جمہوری ملک وجودمیں آیاتھا۔یومِ
آزادی ملک کے تمام شہریوں کے اندرایکتاکااحساس پیداکرتاہے اورملک کے تئیں
عائدذمہ داریوں کونبھانے کی یاددہانی کراتاہے ۔لہذاآئیے ہم سب اپنے پیارے
ہندوستان کی سا لمیت ،ترقی اورخوشحالی کےلئے اپناکردارنبھانے کاتہیہ کریں۔ |