ایک کہاوت ہے کہ ایک بوڑھا شیر مرتے وقت اپنے بیٹے کو
نصیحت کر گیا، کہ بیٹا سب جانداروں سے ملنا مگر انسان سے دور ہی رہنا، شیر
تو یہ کہہ کر مر گیا مگر شیر کا بچہ ہر وقت انسان کے بارے میں سوچنے لگا کہ
آخر انسان میں ایسی کیا بات ہے کہ میں ’’شیر ‘‘جنگل کا بادشاہ ہو کر بھی
انسان سے خوفزدہ رہوں، آخر اس نے فیصلہ کر ہی لیا کہ ہو نہ ہو انسان کو
دیکھنا تو چاہیے کہ وہ ہے کیا بلا۔یہ سوچ کر وہ انسان کی تلاش میں چل پڑا۔
چلتے چلتے اس کے سامنے ایک گھوڑا آیا جو اس کی قد و قامت سے بڑا تھا شیر نے
سوچا شاید یہی انسان ہے اس نے گھوڑے سے کہا، کیا تم ہی انسان ہو ؟ گھوڑے نے
بُرا سا منہ بنا کر کہا، بھائی میرے سامنے انسان کا نام نہ لو وہ تو بہت ہی
ظالم ہوتا ہے، میرے منہ میں لگام ٹھونس کر میری پیٹھ پر سواری کرتا ہے اور
مجھے چابک مار مار کر دوڑاتا ہے میں تھک بھی جاؤں تو بھی مجھے سانس تک لینے
نہیں دیتا،لاتوں سے میرے پیٹ پر ضربیں لگاتا ہی رہتا ہے بھائی انسان کی ذات
بڑی ہی خراب ذات ہے،شیر کے بچے کا تجسس اور بھی بڑھ گیا ،تھوڑا آگے گیا تو
اونٹ کو دیکھا جو گھوڑے سے بھی بڑا تھا،اس سے بھی وہی سوال دہرایا،کیا آپ
ہی انسان ہیں ؟ اونٹ بیچارے نے بلبلاتے ہوئے کہا بھائی انسان کا ذکر نہ ہی
کرو تو اچھا ہے اس سے بڑا ظالم دنیا میں نہیں ملے گا، میری طرف دیکھومیری
ناک میں نکیل ڈال کر مجھے اپنے اشاروں پر نچاتا ہے،مجھ پر منوں بوجھ لاد
کردور دور کا سفر کراتا ہے سو سو اونٹوں کی قطار بھی اس کے آگے بے بس ہو کر
ایک دوسرے پیچھے بوجھ اٹھا کرچلنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
شیر کا بچہ حیران پریشان انسان کا بہت بڑا ہونے کا تصور لے کر آگے گیا تو
سامنے سے ایک ہاتھی کو آتے دیکھ کر سوچا ہو نہ ہو یہی انسان ہو سکتا ہے کہ
یہ تو گھوڑے اور اونٹ سے بھی جسامت میں بڑا ہے جو چار ستونوں پر جھوم جھوم
کر چلتا آ رہا ہے، قریب آنے پر اس سے بھی اپنا سوال دہرایا، کیا آپ ہی
انسان ہیں ؟ ہاتھی نے ادھر ادھر دیکھ کر ڈرتے ہوئے کہا، ارے بھائی انسان کا
نام سن کر میرے سر میں چبھتی ہوئی لوہے کی سلاخ کا سا درد ہونے لگتا ہے اس
موزی کا نام نہ لو نہیں تو وہ شیطان کی طرح حاضر ہو کر ہم دونوں کو پکڑ کر
لے جائے گا اور یاا تو چڑیا گھر میں بند کر دے گا یا سرکس میں ہمارا تماشہ
دکھائے گا۔
شیر کے بچے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انسان اتنا ہی خطرناک ہے تو وہ
جنگل میں کیوں نہیں آتا، تھوڑا آگے بڑھا تو دیکھا ایک لکڑ ہارا آرے سے ایک
موٹی سی لکڑی کاٹ رہا تھا ،اور اس نے آرے کے اوپر ایک موٹا سا کھونٹا پھسا
رکھا تھا تا کہ آرا پھنس نہ جائے، شیر کے بچے کو آتا دیکھ کر اس نے سمجھ
لیا کہ یہ آج مجھے نہیں چھوڑے گا ، شیر کو قریب دیکھ کر بھاگنا تو بے کار
تھا لہذا اپنے دماغ کی کھڑکی کھول کر اس سے بچنے کی ترکیب سوچنے لگا، شیر
کے بچے نے قریب آ کر اس سے بھی وہی سوال دہرایا، کیا آپ ہی انسان ہیں ؟ لکڑ
ہارے نے تھوڑا سا پریشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، بھائی پہلے میری کچھ
مدد کردو تو میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا،شیر نے کہا بولو بھائی میں
تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں لکڑ ہارے نے لکڑی میں پھنسے ہوئے کھونٹے کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا ،میرا یہ پھاہا لکڑی میں پھنس گیا ہے اگر تم دونوں
ہاتھوں کو لکڑی کے درمیان رکھ کر زور لگاؤ تو میں اسے نکال سکتا ہوں،شیر نے
کہا یہ کونسی بڑی بات ہے لو میں اپنے پنجوں سے زور لگاتا ہوں تم پھاہا نکال
لینا یہ کہہ کر شیر نے اپنے دونوں پنجے جب لکڑی میں ڈالے تو لکڑ ہارے نے
ہتھوڑے کی چوٹ سے پھاہا دور پھینک دیا اب شیر کے جب دونوں پنجے اس میں پھنس
گئے تو وہ بیچارہ درد سے چنگھاڑنے لگا تب لکڑ ہارے نے زہریلی مسکراہٹ کے
ساتھ کہا،
ہاں میں ہی انسان ہوں!!
یہ کہاوت بھی کبھی کبھی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے، جب کوئی انسان دیکھتا
ہے کہ وہ کسی مصیبت میں پھنس رہا ہے تو اپنے عزیز ترین دوست کو بھی قربانی
کا بکرا بنا کر اپنا پلہ بچانے کی کوشش کرتا ہے، اس وقت وہ یہ نہیں سوچتا
کہ اس کے دوست کے پیچھے بھی کوئی لاوارث رہ جائے گا یا اس کی جان بھی میری
ہی طرح کی ہے، بلکہ دیکھا تو یہ گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنی ترقی کے لیے دوسروں
کی قربانیاں دے کر ان کے لواحقین کو کچھ اپنے اکھٹے کیے ہوئے فنڈ میں سے
خیرات کی طرح دے دلا کربڑا فخر کرتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ مرنے والے کی
ماں کے ارمان کون پورے کرے گا اس کے بیوی بچے انکی دی ہوئی خیرات سے کتنے
دن تک کھا سکیں گے بس انہیں تو اپنے ارمان پورے کرنے سے غرض ہوتی ہے۔
اﷲ کریم سے دعا ہے کہ ایسے خود غرض انسانوں سے دور ہی رکھے جو اقتدار کی
خاطر سیدھے سادھے لوگوں کو اپنی جوشیلی باتوں سے جوش دلا کر قربانی کا بکرا
بنا دیتے ہیں، جس میں نہ جہاد کا کوئی پہلو ہوتا ہے اور نہ ہی شہادت کا
درجہ ملتا ہے۔ |