سول نافرمانی کا اعلان....سیاسی خودکشی یا خودکش حملہ؟

 ملک میں یوم آزادی سے عمران خان اور طاہر القادری کی قیادت میں شروع ہونے والے ہزاروں افراد پر مشتمل ”انقلابی مارچ“ دھرنوں میں تبدیل ہوکر بار بار حکومت کے خاتمے کی ڈیڈ لائنز دے رہے ہیں۔ طاہر القادری کی جانب سے وزیر اعظم اور پوری حکومت کو استعفے کے لیے دی گئی ڈیڈلائن تادم تحریر ختم ہوئی چاہتی ہے، جبکہ عمران خان کی ایک ڈیڈ لائن ختم ہوکر دوسری دو روزہ ڈیڈ لائن جاری ہے۔ طاہر القادری کہتے ہیں کہ حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے، حکمرانوں کو گرفتاری دینا ہوگی۔ انقلاب کا وقت آن پہنچا ہے، جبکہ عمران خان مسلسل حکومت کو دھمکیاں دےتے ہوئے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں، بصورت دیگر ریڈ زون میں گھس جانے کا انتباہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ذرائع کے مطابق ریڈزون کی حفاظت پر معمور سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد شاید عمران خان کے کارکنوں سے زیادہ ہے، یا یوں کہیے کہ مارچ میں شریک پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تعداد سیکورٹی اہلکاروں سے بھی کم ہے۔ میڈیا کے مطابق عمران خان سے تو قادری صاحب ہی زیادہ بندے لے آئے ہیں، پی ٹی آئی کا جنون کیا ہوا؟ لیکن ناکامی کی خفت سے بچنے کے لیے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی ہے۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم سول نافرمانی کی مہم شروع کریں اور جب تک نوازشریف استعفیٰ نہیں دیتے ہم ٹیکس نہیں دیں گے، آج سے میں نہ ٹیکس دوں گا، نہ بجلی اور گیس کے بل دوں گا۔ عمران خان کی تقریر کے دوران مجمع میں موجود کارکنان نے سول نافرمانی کی تحریک پر اکتفا کرنے کی حمایت نہیں کی تو عمران خان نے پہلے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے لیے سات دن اور پھر کم کر کے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو دو دن کی مہلت دیتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دے دیں، ورنہ کارکنان میرے بس میں نہیں رہیں گے اور نوازشریف اقتدار چھوڑیں، ورنہ انھیں عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو عوام ان کے ساتھ بہت برا سلوک کرے گی۔ دوران تقریر عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد کارکنان مایوس ہوگئے اور ان کے جھنڈ کے جھنڈ چیئرمین تحریک انصاف کی تقریر ختم ہونے سے قبل ہی جانا شروع ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے بعض کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ دور دراز علاقوں سے اہل خانہ کے ہمراہ اس اعلان کے لیے یہاں نہیں آئے تھے، بلکہ ان کا خیال تھا کہ عمران خان ایسا اعلان کریں گے، جس سے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور دیگر مسائل سے نجات ملے گی، تاہم وہ حقیقت پسند شخص نہیں ہیں۔ عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کے اعلان کے بعد ہر حلقے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ سول نافرمانی کا اعلان سراسر ملک کے نقصان میں ہے۔ ایک برطانوی میڈیا گروپ نے جب عمران خان کے سول نافرمانی کے اعلان کے حوالے سے تاثرات جاننا چاہے تو فیض امین سبحانی نے جواب دیا ”پاگل پن“ ہے، جبکہ عزیزالدین کا کہنا تھا کہ ”سیاسی خودکشی“ شاہد رفیق نے کہا کہ ”ہمیں یقیناً قانون کی پیروی کرنی چاہیے اور قانون پسند شہری ہونا چاہیے۔ محمد علی جناح نے آئین کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی۔“ معروف اینکر اور تجزیہ کا طلعت حسین نے ٹویٹ کی کہ ’ناقابلِ یقین۔ مجھے یقین نہیں آ رہا میں جو سن رہا ہوں عمران سے۔ سول نافرمانی؟ یہ کیا سوچ رہا ہے؟ ایک عقیدے کے رہنما کی طرح حرکتیں کرنے والا شخص، جسے اب پاکیزگی، انصاف، مساویانہ حقوق، سچائی کی علامت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جو ریڈ زون کے ذریعے پارلیمان پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔“ صلاح الدین کہتے ہیں”پولیٹکل اکانومی اور اسٹیٹ سٹرکچر سے نابلد شخص کی ہوائی باتیں ہیں۔“ جبکہ ضیغم مرزا نے ٹویٹ کی کہ ”سول نافرمانی کی تحریک سے سرکاری خزانہ خالی ہو جائے گا اور حکومت کو پھر سے امریکا سے بھیک مانگنی پڑے گی۔ قرضے، قرضے، قرضے۔“ عبیداللہ کا کہنا تھا کہ ”عمران خان نے آج اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے کہ بشمول ان کے، ان کی جماعت میں سیاسی بصیرت کا فقدان ہے۔“ پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں نے بھی ردِ عمل دیا۔ واجد علی نے ٹویٹ کی کہ ’سخت مایوسی ہوئی ہے۔“ فیاض معظم نے لکھا کہ ”یہ بالکل اچھا خیال نہیں ہے“، جبکہ ابصار شیرازی نے ٹویٹ کی کہ ”ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ صوبے کی حکومت سے دستبرداری کے بغیر نظام سے بغاوت کا کیا مطلب؟“ رضوان سلیم نے ٹویٹ کی کہ ”سول نافرمانی لانگ مارچ سے پہلے ہوتی ہے، الٹی گنگا کا بہنا نا ممکن ہے، صرف لانگ مارچ سے با عزت واپسی کا اقدام ہے۔“

مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ نے عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کو ریاست کے خلاف ”بغاوت“ پر اکسانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی تحریک چلانے سے ملک میں انتشار پھیلے گا۔ عمران خان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ سیاسی خودکشی ہے۔ عمران خان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کیا بات کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں شروع کیا گیا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی قیادت میں مخلوط حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں اور جلد ہی اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دس لاکھ افراد کے دعوے کی بجائے پی ٹی آئی صرف دس ہزار لوگوں کو اسلام آباد میں اکھٹا کر سکی ہے۔ غیرجمہوری حکومت کے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جمہوریت کو پٹری سے ا ±تارنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے ملاقات کے دوران جمہوریت کے تحفظ پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جذبات کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا چاہیے، قوم صورتحال پر پریشان ہے۔ دوسری جانب آل پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زکریا عثمان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر برادری ٹیکس نہ دینے کی اپیل مسترد کرتی ہے۔ چند روز میں اس ہنگامے میں تقریباً 12 ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں برآمدات کیسے کی جائیں گی۔ اگر بجلی کے بل نہ دیے اور بجلی کٹ گئی تو ملازمین کا کیا ہوگا، جو افراد یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، وہ بے چارے کہاں جائیں گے۔ عمران خان کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور مفاہمت کی جانب قدم بڑھانے چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے سول نافرمانی ایک طویل المدت اقدام ہے، اگرچہ فوری طور پر اس کا کوئی اثر نہیںہوگا، لیکن عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر کے خودکش حملہ کیا ہے، عمران خان سول نافرمانی کے الفاظ کی سنگینی کو نہیں سمجھتے، جو لوگ اسمبلی کی سیٹیں اور صوبائی حکومت نہیں چھوڑ سکتے، وہ قوم سے اتنی بڑی قربانی مانگ رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کرنے کے لیے آئینی طریقہ کار موجود ہے، اگر ایک دفعہ بھی ان جتھوں یا مجمع کے ذریعے سیاسی مطالبات کو مان لیا گیا تو بہت سے لوگ اسلام آباد آئیں گے، اس طرح ریاست پاکستان کی جو انتظامی رِٹ رہ گئی ہے، وہ بھی ختم ہوجائے گی، اس کے اثرات ریاست پاکستان پر ہوں گے۔ اگر صرف پنڈی اور آس پاس کے مدارس کے لاکھوں طلباءشریعت کے نفاذ کے لیے اسلام آباد پر چڑھ دوڑےں تو کیا انہیں کوئی قابو کر پائے گا؟ عمران خان مایوس ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ ادھر جائے، جہاں حکومت کسی اہم چیز پر بات کرے، سول نافرمانی کا اعلان احمقانہ بات ہے، اگر عمران خان جیت گئے تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی، کیونکہ پھر ہر چھ مہینے بعد لانگ مارچ ہوگا اور اگر وہ بالکل ہار گئے تو یہ دوسری بڑی بدقسمتی ہوگی کہ پھر حکمران مکمل بادشاہ بن جائیں گے۔ عمران خان اس وقت جذباتی کیفیت میں ہیں، اس لیے سوچے سمجھے بغیر باتیں کر رہے ہیں، ان کے گرد جو سیاسی بونے ہیں، وہ ان سے غلطیاں کروا رہے ہیں۔ عمران خان کا اندازہ غلط ثابت ہو ا کہ وہ دس لاکھ افراد جمع کر سکیں گے، سول نافرمانی کی کال سے ان پر تنقید کا آغاز ہو گیا ہے۔ عمران خان نے اپنے لیے پیچھے جانے کا راستہ باقی نہیں چھوڑا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان ان کی جمہوریت سے مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا کی صد سالہ تاریخ میں ایسا اقدام دوسری مرتبہ ہوا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ صدی کے اوائل میں غیرمنقسم ہندوستان پر برطانوی سامراج کے قبضے سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسی تحریک شروع کی گئی تھی، جس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی، اس تحریک کا مقصد سات سمندر پار سے آئے غاصبوں کو ملک سے نکالنا تھا، لیکن عمران خان نے منتخب حکومت کے خلاف سول نافرمانی کا اعلان کر کے ان خدشات کو مضبوط کیا ہے کہ ملک عزیز میں جاری ایجی ٹیشن کسی ایسی غیر ملکی طاقت کا ایجنڈا ہے، جو پاکستان کے استحکام کو مکمل طور پر نابود کر دینے کے درپے ہے، اس کے ذریعے نہ صرف ناتواں معیشت زمین بوس ہوسکتی ہے، بلکہ پاکستان کا دفاع بھی برباد ہوسکتا ہے۔ عوام جب سرکاری محصولات دینے سے انکار کردیں گے تو اس سے ملک میں ہر قسم کی ترقی کا پہیہ رک جائے گا، ملک کے دفاع پر اٹھنے والے اخراجات عدم دستیاب ہوجائیںگے، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں رک جائیں گی، تعلیمی ادارے اور ہسپتال بند ہوجائیں گے۔ اس لیے ایسی کسی بھی کوشش سے ملک کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا عمران خان کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.