انقلاب ، آزادی مارچ اور الف لیلہ کی کہانی
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔خان صاحب
رفتہ رفتہ پچاس ہزار کا قالین پانچ سو روپے میں بیچنے پر تیار ہیں، پھر بھی
کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔کہاں چار سیٹوں سے کہانی شروع ہوئی اور کہاں سول
نافرمانی سے آگے بڑھ کے اڑتالیس گھنٹے کے ایک اور الٹی میٹم تک آ گئی۔خان
صاحب نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ وزیرِ اعظم کو قانونی طریقے سے ہٹانا مشکل
ہے لہٰذا الٹی میٹم کے خاتمے پر میرے کارکن جانیں اور نواز شریف جانیں۔
علامہ طاہر القادری بظاہر لاکھ جذباتی سہی لیکن انگریزی کے محاورے کے مطابق
دئیر آز اے میتھڈ ان ہز میڈ نس۔۔۔ انقلاب آیا آیا نہ آیا نہ آیا۔اور
لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔ویسے بھی ان کی سیاست کا محور یہ فلسفہ ہے
کہ ، ’’ قادری سویٹ مارٹ۔یہاں ہر قسم کا مال آرڈر کے مطابق تسلی بخش تیار
کیا جاتا ہے۔جھوٹا ثابت کرنے والے کو دس ہزار روپے نقد ’’۔۔۔بک گیا تو بک
گیا ورنہ خود کھا لیں گے مہم جوئی کے ڈیپ فریزر میں رکھ کے اور ٹورنٹو میں
تو ڈیپ فریزر کی ویسے بھی ضرورت نہیں۔
اب ایک ناول کا کردار یاد آ رہا ہے۔ یہ ناول دنیا کا پہلا ناول سمجھا جاتا
ہے ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ یعنی ایک ہزار ایک راتیں جس کی کہانی اس ناول کے دو
مرکزی کرداروں شہر یار اور شہر زاد کے گرد گھومتی ہے۔ ہوا یوں کہ شہریار
نام کا ایک اس قدر ظالم بادشاہ تھا کہ وہ اپنی رعایا میں سے ہر رات کے لیے
ایک دلہن پسند کرتا اور صبح اس کو قتل کرا دیتا۔ ملک کی ہر خوبصورت لڑکی
موت کے سائے میں زندہ تھی بالآخر وزیر کی بیٹی شہرزاد نے کہا کہ وہ بادشاہ
کو قابو کر لے گی یہ قصہ طویل اور ایک ہزار ایک کہانیوں پر پھیلا ہوا ہے۔
مختصراً یہ کہ شہر زاد ہر رات ایک نئی کہانی شروع کرتی اور پو پھٹتے ہی شہر
زاد کہانی ختم کرتی تو شہریار پوچھتا کہ پھر کیا ہوا تو شہر زاد کہتی کہ یہ
کل۔ اس طرح دنیا کے اس پہلے ناول کی کہانی جب ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل
گئی تو اس دوران بادشاہ شہریار انسان بن چکا تھا۔ ڈاکٹر طہٰ حسین نے اس
ناول کا عجیب و غریب انداز میں خلاصہ کیا ہے۔ بہر کیف ہمیں اب اپنے ناول کا
ذکر درکار ہے جس میں شہر زاد کا کوئی کردار تو نہیں ہے لیکن شہریار ایک کی
جگہ دو ہیں۔ جناب قادری صاحب اور عمران خان۔ یہ دونوں اپنی اپنی کہانی
دوسری صبح کو ختم کرتے ہوئے نئی کہانی کا وعدہ کرتے ہیں۔
آپ ان افسانوی سیاسی کرداروں کے گزشتہ دنوں کو یاد کیجیے کہ وہ ہر صبح ایک
نئی کہانی پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عمران خان نے تو ایک بار کہا کہ وہ اب
اس سے اگلا حصہ کل سنائیں گے اور یہ سلسلہ شہر زاد کی طرح چلتا رہا ہے اور
چل رہا ہے اب انھوں نے کہانی کو ایک نیا موڑ دیا ہے اسے کسی کلاسیکی قسم کی
بغاوت میں بدل دیا ہے یعنی سول نافرمانی، مطلب ہے حکومت کی حکم عدولی اور
ٹیکس وغیرہ دینے سے انکار جس کا مطلب بالآخر یہ نکلتا ہے کہ خزانہ خالی ہو
جاتا ہے اور حکومت جیب خالی ہونے پر بیٹھ جاتی ہے جس کی جگہ نئی حکومت آتی
ہے لیکن ایک بڑا ہی طویل اور جاں گداز عمل ہے جسے انقلاب کا سفر بھی کہا
جاتا ہے اور اس میں ہزاروں انقلابی جانثاروں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔
اور جہاں تک شریف برادران کا تعلق ہے تو اتنے موقع تو آسمان نے بنی
اسرائیل کو نہیں دیے جتنے شریف برادران کو مل گئے۔ لیکن ان کا تصورِ ترقی
تاج محل سے کم کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا۔او بابا پہلے غریب کی جھونپڑی میں دیا
جلاؤ پھر لال قلعہ بناؤ۔جوتیاں چٹخاتے گریجویٹ بے روزگار کو بھلے ملازمت
نہ دو مگر کم ازکم بے روزگاری میں تو میرٹ رکھو۔گلیوں کے کیچڑ کی صفائی کے
لیے خود مختار بلدیاتی ادارے تو بننے دو اس کے بعد نئے موٹر وے بھی بنا
لینا۔
پہلے پرائمری اسکولوں میں بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی ، نئے ٹاٹ ، لیٹرین
اور اساتذہ کا تو انتظام کردو اس کے بعد جو پیسہ بچے اس سے دانش اسکول کا
شوق بھی پورا کرلینا۔پہلے پولیس کو تو ایک آزاد ، قابل اعتبار ، منظم اور
انسانی ادارہ بناؤ اس کے بعد اپنے لیے سو بلٹ پروف گاڑیاں اور ایک ہزار
بارود سونگھنے والے کتے اور ایک لاکھ موبائل جیمرز بھی منگوا لینا کے مائو
انقلاب کا ذکر پڑھیں تو انسانی جدوجہد کی اس عظمت پر یقین نہیں آتا۔ مائو
کے بھائی بیٹے اس انقلاب میں ختم ہو گئے۔ بھوک سے تنگ آ کر مائو کی بہن
گائوں سے ان کے پاس آ گئی انھوں نے بڑے پیار سے استقبال کیا لیکن جو کھانا
دیا وہ گائوں کے کھانے سے بھی بدتر تھا، وہ اپنے بھائی کی بادشاہت دیکھ کر
واپس چلی گئی۔ قیام پاکستان سے سال دو سال بعد چین کی انقلابی حکومت بنی
اور چین آزاد ہوا۔ آج ہم پاکستانی چین کو دیکھ لیں اور اپنی حالت کو۔ ہم
جو وسائل کے اعتبار سے کسی چین سے کم نہیں تھے اب چین کی امداد پر فخر کرتے
ہیں۔
اگر ابتداء میں ہمارے سیاسی اور منتخب حکمران عمران خان کے مطالبے اور ماڈل
ٹائون لاہور کے خونریز سانحے کی طرف مطلوبہ توجہ مبذول کرتے تو عین ممکن
تھا کہ آج اسلام آباد دونوں جماعتوں کے مظاہروں سے محفوظ رہتا۔ اب ان کے
مطالبات میں اضافہ بھی ہوا ہے اور ان میں سختی بھی در آئی ہے۔
اگر آغاز میں چار انتخابی حلقوں کی ازسرِ نو چھان پھٹک کا مطالبہ بروقت
مان لیا جاتا اور ماڈل ٹائون لاہور میں مقتولین کے وارثوں کے گھروں میں جا
کر صوبائی حکومت کے اعلیٰ ذمے داران اشک شوئی کا مظاہرہ کرتے تو آج وفاقی
دارالحکومت میں عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کے مطالبات کے سامنے
حکومتِ وقت پشیماں نظر نہ آتی مگر سرکار نے اسے دانستہ نظرانداز(Ignore)
بھی کیا اور اس کے رویے میں تجاہل و تکبر (Arrogance) کا عنصر بھی نمایاں
رہا اور جب عدم توجہی اور تجاہل و تساہل (Ignorance and Arrogance) یکجا
ہوگئیں تو وہی نتیجہ برآمد ہوا جو ایک ٹھوس حقیقت بن کر آجکل اسلام آباد
میں نظر آرہا ہے۔
اب بعض خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگانے اور تہمتیں عائد کرنے سے بات بھی نہیں
بن رہی۔ ان الزام تراشیوں سے حالات میں مزید سنگینی اور ترشی آسکتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک انگریزی جریدے کے اخبار نویس نے اپنے تجزیے میں صاف
الفاظ میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر یہ الزام دھرا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر
طاہر القادری نے لاہور تا اسلام آباد جو ’’تماشہ‘‘ لگایا ہے، اس کے عقب
میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد بروئے کار ہے۔
مذکورہ اخبارنویس نے اپنے انگریزی جریدے کے اداریے میں عمران خان اور ڈاکٹر
طاہر القادری کے جلسوں، مطالبوں اور دھرنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نہایت یقین
کے ساتھ لکھا ہے: ’’عمران خان اور طاہرالقادری، دونوں کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ
کے ساتھ روابط مشرف اور پاشا دور ہی سے ثابت شدہ ہیں۔
حضور اب تو ایک ہفتہ ہو چلا۔اسلام آباد کے بچوں کو اسکول کی ضرورت ہے،
پشاور کے بارش زدگان کو دستِ شفقتِ سرکار کی ضرورت ہے۔درآمدیوں اور
برآمدیوں کو ٹرالرز کی ضرورت ہے۔آپ نے ایک سو چوالیس گھنٹے انقلاب کی
سائیکل چلا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے، اب حزبِ اختلاف کے ہاتھوں
شربت پی کر سائیکل سے اتر آئیے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے انقلاب زندہ
باد ، آزادی پایندہ باد کا نعرہ لگاتے لگاتے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر
نواز شریف کے موٹر وے کے بجائے شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ سے عازمِ لاہور
ہوئیے۔
راستے بھر رک رک کے یہ بھی ضرور کہتے جائیے گا کہ فی الحال تو میں سراج
الحق ، خورشید شاہ اور الطاف حسین کی بات رکھ رہا ہوں مگر جلد ہی کفن بردوش
پھر سے آؤں گا اور اگلی بار خدا کی قسم حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائے بغیر
نہیں لوٹوں گا۔جلدی کیجیے، کہیں یہ نہ ہوجائے کہ آپ اسی طرح کوہِ کنٹینر
پر چڑھے رہیں اور کوئی ترازو والا بندر آئے اور دونوں پلڑوں میں روٹی
برابر برابر تولنے کے چکر میں سب سیاسی روٹی کھا جائے۔
آزادی کبھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی جاتی اِس کے لیے بڑی جدوجہد اور
قربانی دینا پڑتی ہے
حقیقت یہ ہے کہ تینوں فریقوں (حکومت، پاکستانی عوامی تحریک اور پاکستان
تحریک انصاف) کو سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ آزمائش ہی میں لیڈر شپ اور
قیادت کے بھید کھلتے ہیں۔ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس کشاکش میں ملک اور
قومی اداروں کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔ |
|