سِول نافرمانی کے بعد عمران خان قوم کو
کیسانیاپاکستان دیں گے... ؟؟
آج پاکستان کی موجودہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی سیاسی ہلچل بازی پر نہ صرف
مُلکی بلکہ عالمی اداروں اور اپنے پرائے سب ہی ممالک کی نظریں جمعی ہوئی
ہیں، دارالحکومت میں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے
کارکنان کے ساتھ دھرنادیئے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے
علامہ طاہرالقادری اپنے مریدین کے ہمراہ انقلاب آنے تک ڈیراجمائے ہوئے ہیں
جہاں علامہ طاہرالقادری کی ڈیڈلائین کی مدت 18اگست کو ختم ہوگئی ہے تو
اُدھرہی عمران خان کی وزیراعظم کو دی گئی48گھنٹوں کی مہلت ختم ہونے میں کچھ
گھنٹے باقی ہیں،اِس سیاسی صورتِ حال میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیاکے
بیشترممالک کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے ہیں
کہ عمران و قادری کے ایجنڈوں کے پسِ پردہ کو ن سے ہاتھ ہیں...؟ اور وہ کون
ہیں جو اِن کی پست پناہی کررہے ہیں...؟
اگرچہ آج اِن دونوں کے مطالبات سے کچھ کچھ یہ اندازہ ضرورہوچلاہے کہ عمران
و قادری کی پیٹھ پر وہی عناصر اور ہاتھ کارفرماہیں جنہوں نے چارمرتبہ
جمہوری حکومتوں پر شب خون مارااور جمہوریت کا دھرن تختہ کرکے خودہی قابض
ہوئے اِس مرتبہ اِن کی یقیناحکمتِ عملی کچھ یوں ہوئی ہے کہ اُنہوں نے ایک
طرف سیاسی پارٹی کو حکومت کا مخالف بناکر پیش کیاہے تو دوسری طرف عوام میں
سے ہی ایک گروپ کو پیش کردیاہے یعنی یہ کہ دوتیرسے ایک شکار جو بھی نشانے
پہ بیٹھ جائے ،مقصدشکار کرناہے،اَب ایسے میں دیکھنایہ ہے کہ حکمران جماعت
کی سیاسی یا اخلاقی جیت ہوتی ہے یا اِن دونوں کی جو کسی کے اسکرپٹ پہ اپنی
اپنی اداکاری کے جوہر دکھارہے ہیں اَب یہ آپ بھی سوچیں اور میں بھی
سوچتاہوں کہ اگلے دِنوں میں کیا ہونے والاہے..؟؟
بہرکیف ..!آج آزادی مارچ لے کر اسلام آباد میں پڑاؤڈال کر نئے پاکستان کی
تلاش میں نکلنے والے عمران خان نے سِول نافرمانی کا اعلان کردیاہے اَب اِس
کے بعد مُلک کا کیا بنے گا..؟؟قوم کا کیا ہوگا..؟؟معیشت کدھرجائے
گی..؟؟کیاتعمیروترقی رک جائے گی..؟؟یا یہ سب کچھ خدشات و توقعات کے برخلاف
پہلے سے بہتر ہوجائیں ..؟؟یامزیدتنزلی کا شکارہوکرپستی میں چلے جائیں گے
..؟آج یہ وہ سوالات ہیں جو ہر محبِ وطن پاکستانی کے دماغ میں جنم لے رہے
ہیں اَب جن کے جوابات ہر پاکستانی شدت سے چاہتاہے اور ضروری ہے کہ قوم کے
دماغ میں پیداہونے والے مختلف اقسام کے سوالا ت کے جوابا ت عمران خان تسلی
بخش دیں تاکہ قوم کو اِن کے سیاسی و ذاتی مفادات و عزائم اور مستقبل کے نئے
پاکستان پراعتمادبحال رہے ورنہ قوم کو یہ سب کچھ فضول ہی لگے گاجس کے لئے
یہ سب کچھ کیاجارہاہے اوراگرعمران خان اپنے آزادی مارچ اور دھرنے سے کچھ
بھی حاصل نہ کرسکے توپھرآئندہ نہ صرف قوم کابلکہ عمران خان کے اپنے کارکنان
کا بھی اپنے قائد پر سے بھروسہ اُٹھ جائے گا۔
اتوار سترہ اگست کی شام قوم نے سُنا،دیکھااور اگلے روز اخبارات میں بھی
پڑھاکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی زندگی کی سب اہم
تقریرکرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ سے وزیراعظم بننے والے مسٹر نوازشریف کو کس
انداز سے مخاطب کیا اور اِن کے لئے جو الفاظ استعمال کئے وہ بھی سب کو
معلوم ہے اور عمران خان نے اپنے جذباتی انداز سے کس طرح وزیراعظم مسٹرجنابِ
مسٹرنوازشریف کو مستعفی ہونے کے لئے 48گھنٹے کی مہلت دی اور ایسانہ کرنے پر
عمران خان نے مُلک میں کھلم کھلاسِول نافرمانی کی تحریک کااعلان کرتے ہوئے
واضح کیا ہے عوام بجلی، گیس کے بل اور ٹیکس نہ دیں،تاکر جی ایس ٹی نہ دیں
اُنہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے دونمبری سے پیسہ بنایا، میرادل چاہتاہے کہ
وزیراعظم کو گریبان سے پکڑکرگھسیٹوں اورپھینک دوں،دونمبری آدمی کا احتساب
کریں پارلیمنٹ بھی جعلی ہے،نوازشریف نے الیکشن کمشن ، چیف جسٹس کو
خریدا،جمہوریت پسند ہوں نہیں چاہتاانتشار کی وجہ سے فوج آجائے ،مُلکی
عدالتیں، سِول بیوروکریسی اور سرکاری ملازمیں نوازشریف کی ملازمت سے خودکو
آزادکریں،میں دھاندلی سے آئے وزیراعظم کو دودن کی مہلت دیتاہوں،وزیراعظم
مستعفی نہ ہوئے توکارکن کنٹرول میں نہیں رہیں گے،اوراِن کے اپنی اِس تاریخی
تقریرمیں عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کا کئی مرتبہ تذکرہ کرتے ہوئے
اِس نوازشریف کا حواری اورموجودہ دونمبری وزیراعظم نوازشریف کے تیسری مرتبہ
وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے تک کے عمل پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا‘‘ ۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک اِنصاف کے چئیرمین عمران خان
دھرنے کی جس تقریر کو اپنے تئیں تاریخی تقریرقراردے رہے ہیں ممکن ہے کہ یہ
تقریر اِن کے لئے تاریخی اہمیت کی حامل ہومگر دراصل اِن کی اِس تقریر میں
کوئی بھی ایک نقطہ سوائے سول نافرمانی کے اعلان اور نوازشریف کو48گھنٹے کی
مہلت کے کچھ بھی نیانہیں تھاسب کچھ وہی پرانے الفاظ اور جملے تھے جن کا
تذکرہ عمران خان کئی مرتبہ کرچکے ہیں بہرحال..!اِس میں کوئی شک نہیں کہ
عمران خان نے اپنے خطاب میں نوازشریف سے متعلق جو کچھ وہ سب کا سب کسی حدتک
ضرور سچ پرمبنی ہوسکتاہے اِس لئے کہ اگر آج ہم وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر
فائزوزیراعظم مسٹر نوازشریف کے ٹیکس ادائیگیوں کے گوشوارے دیکھیں تو معلوم
ہوگاکہ مسٹرنوازشریف نے 1994 ،1995،1996اور1997میں صرف 477روپے ٹیکس جمع
کروائے ہیں،اَب اگرایک ایساشخص جو خود ٹیکس کی ادائیگی میں ڈنڈی مارے اور
مُلک کو پوراٹیکس ادانہ کرے اور پھر بھی مُلک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز
رہے ، اور خود اپنے ہی منہ سے امیرالمومین کہلائے اور قوم کو کہے کہ وہ
بجلی و گیس سے محروم رہ کر بھی بجلی کے اضافی بل باقاعدگی سے اداکرے، اور
ٹیکس پوراجمع کرائے ،تو ایسے میں ذراسوچیں کہ کیا یہ قوم کے ساتھ ذیاتی
نہیں ہوگی..؟کہ قوم کا وزیراعظم تو اپنا ٹیکس بچائے اور قوم کو کڑوی گولی
نگلنے کا مشورہ دے اور کہے کہ قوم ٹیکس پوراجمع کرائے،تو یہ کیسے ممکن
ہوسکتاہے...؟
جبکہ یہاں یہ امر یقیناباعث تشویش ہے کہ عمران خان نے جس انداز سے اپنی
تاریخی تقریر میں نوازشریف پر الزام تراشیوں کی بھوچھاڑ کی ہے وہ موقع محل
کے لحاظ سے کچھ درست نہیں ہے، عمران خان کی تقریر سیاست سے زیادہ ذاتی
لڑائی کے رنگ میں رنگی محسوس ہوئی آج اگر مسٹرسونامی عمران خان کونئے
پاکستان کی تلاش کے لئے سول نافرمانی کی ہے تحریک چلانے کا اعلان
کرنامقصودتھاتو عمران خان جو اپنے ایک تقریرمیں دانستہ یا غیردانستہ طور
پر’’ میں وزیراعظم پاکستان‘‘ بھی کہہ چکے ہیں اِنہیں چاہئے تھاکہ وہ کم
ازکم اپنی اِس تاریخی تقریر میں سول نافرمانی کا اعلان تو نہ کرتے اور
ایساکچھ منہ سے نہ نکالتے ...آج جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے کی ساری محنت پر پانی پھرجاتااور
اِن کی ذات اور اگلے وقتوں میں بنے والے کسی نئے پاکستان کے نظام اور سسٹم
کی کارکردگی پر بھی ابھی سے لگانے والے سوالیہ نشان لگادیتے،آج اِس میں
کوئی دورائے اور ابہام باقی نہیں ہے کہ عمران خان جس مقصدکے لئے لانگ مارچ
اور دھرنے کاپروگرام لے کر نکلے تھے وہ اِس میں اِنہیں اتنی کامیابی نہیں
مل پائی ہے جس کا یہ تصورکرکے چلے تھے،اُدھرحکومت نے بھی تہیہ کررکھاہے کہ
سارے سیاسی بحران کا حل مذاکرات اور آئین میں رہتے ہوئے نکالاجائے گا،جس کے
لئے کوشش جاری ہیں دیکھیں کیا رزلٹ آتاہے..؟؟ |