بات صرف ایک فرد کی نہیں۔۔۔۔!

کہتے ہیں جب ظلم انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو ختم ہوجاتا ہے ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اپنے مقرر ہ وقت کے بعد وہ چیز اپنے انجام کو پہنچنا شروع ہوجاتی ہے قدرت اُ س کے خاتمے کے لیے ایسی کُمک مہیا کر تی ہے کہ خاتمے کے اسباب خود بخود بننا شروع ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں پے درپے عوامی احتجاج اور جدو جہدِ مسلسل سے بظاہر تو ایسا لگتا کہ 68 سالوں سے جاری ظلم و جبر کا نظام اب ختم ہونے کو ہے یا پھر اس فرسودہ نظام کے خاتمے کے اسباب بننا ضرور شروع ہوگئے ہیں ۔ لہذ ا نظام کی تبدیلی تو اب یقینی ہے لیکن جیسا کہ ہم اپنے پچھلے کالم میں بھی اس بات کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ اشرفیہ بہت طاقتور ہے وہ یونہی گھٹنے نہیں ٹیکیں گے اپنی 68 سالہ نسلی اجارہ داریوں کو ایسے ہی ختم نہیں ہونے دیں گے وہ تو سر دھڑ کی بازی لگادیں گے ۔ لہذا کام اتنا آسان نہیں منزل اتنی قریب نہیں ابھی تو شروعات ہے کیو نکہ بات صرف ایک فرد کی نہیں پوری کھیپ کی ہے جن سے فیصلہ کن اور نتیجہ خیز لڑائی لڑنی ہوگی۔جس کے لیے عوام کو ہر سطح پر خود کو تیار رکھنے کی ضرورت ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام اب اُٹھنے لگے ہیں بولنے لگے ہیں سمجھنے لگے ہیں پوچھنے لگے ہیں ، عمران خان کے آزادی مارچ اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے انقلابی مارچ میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عوام اب اُن بادشاہوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جنھوں نے 68 سالوں سے اس ملک کو صرف اپنے باپ کی جاگیر ہی سمجھا ہے اور جو اپنی اولادوں کے ذہنوں میں بھی یہ ڈال رہے ہیں کہ تم یہاں کے ولی عہد ہو ہمارے بعد تم نے اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے تم نے اس ملک کی غریب عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھنا ہے یہ تمھاری رعایا ہیں اور تم انکے حکمران ہولہذا تمھارے آگے سر اٹھانے کی کسی کو جرات نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو تمھیں اختیار ہے کہ تم اس کا سر قلم کردو تم ریاستی ظلم و جبر کا بازار لگا سکتے ہو اور ہم تمھیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم اپنی اور اپنی نسل کی بقا چاہتے ہو تو اِس نظام ِ حکمرانی کو کبھی اپنے ہاتھ سے جانے مت دینا یہی نظام تمھاری بادشاہت کا ضامن ہے جان پر کھیل جانا لیکن اس نظام کو اپنے ہاتھ سے نکلنے مت دینا ہمارے بڑوں نے ہمیں یہی نصیحت کی اور اب ہم تمھیں یہ نصیحت کرتے ہیں ہم نے اپنے بڑوں کا پاس رکھا اور کامیاب رہے تمھیں ہمارا پاس رکھنا ہے ہم 68 سالوں سے یہی کرتے آرہے ہیں تمھیں بھی یہی کرنا ہے ہم تمھیں پھر یاد دلاتے ہیں کہ تم اس مردہ قوم کے ولی عہد ہو۔قارئین یہ وہ طبقاتی سوچ ہے جو حکمرانوں کے ذہنوں میں نسل در نسل پنپتی آرہی ہے۔ ہمیں اس طبقاتی سوچ کا خاتمہ کرنا ہے اُنہیں بتانا ہے کہ تم بھی ہماری طرح اس ملک کی رعایا میں شامل ہو اس ملک پر جتنا تمھارا حق ہے اُتنا ہمارا بھی ہے ۔ لہذا ہم سب کو بحیثیت قوم مل کر اپنے ملک کو سنوارنا ہے اس کے لیے کام کرنا ہے ، نہ کہ چند طبقات کی بادشاہت قائم کر کے باقی ماندہ عوام کو انکا غلام بنادیا جائے انکے حقوق کو غصب کر لیا جائے ۔لہذا اب ایسا نہیں ہونے دیا جائیگا اور اگر پھر بھی تم بضد رہے اپنی منفی سوچ کی پیروی کرنے پر تو یاد رکھونمرود سے لیکر شداد تک اور شداد سے لیکر فرعون تک اور فرعون سے لیکر ابو جھل تک سب کی یہی سوچیں تھیں لیکن ان کا انجام کیا ہوا۔؟ آج رہتی دنیا تک وہ سب نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں اس لیے نادان لوگوں خود کو عذابِ الٰہی کا مرتکب مت ٹھہراؤ یہ مت بھولو مظلوم کی آواز خدا کی آواز ہوتی ہے ، اس سے ڈرو ورنہ اسٹیٹس کو کا بھوت تمھیں لے ڈوبے گا ۔قارئین کچھ عقل سے نا بلد لوگ بھی عوامی سطح پر ایک عجیب مایوسی کی فضا بنائے ہوئے ہیں کہ کچھ ہونے نہیں جارہا سب یونہی چلتا رہے گا یہ بادشاہت بھی یونہی قائم رہے گی اور رعایا بھی یونہی غلام رہے گی ۔قارئین ایسے لوگ شکست خردہ اور سست روی کا شکار ہیں جو قوموں کو مایوسیوں کے گھپ اندھیروں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔قارئین یہی وہ سوچیں ہیں جو اس قوم کو 68 سالوں سے ظلم کے خلاف اُٹھنے نہیں دے رہیں جو اٹھا رہ کڑور عوام کو غلام ابن ِ غلام بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔ہمیں ایسی منفی سوچوں کا بھی علاج کرنا ہوگا اُن کی منفی سوچوں کو مثبت سوچوں میں تبدیل کرنا ہوگا اُن کو غلام زدہ ذہنوں سے آزاد کرانا ہوگا قوم کو آسودگیوں سے باہر نکالنا ہوگا ہر ایک کے دل میں پر امن انقلاب برپا کرنا ہوگا ۔آج ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اس نقلابی مشن کا پہلا ہیرو ہے جس نے اس ملک کی مظلوم اور غریب عوام کی حقیقی آزادی کا پہلا بیڑا اٹھایا اور ایک کرپٹ نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جس کی آواز پر سب سے پہلے پڑھی لکھی باشعور عوام نے لبیک کہا اور اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ لیکن جیسا کہ ہم اوپر کہے چکے ہیں کہ اشرفیہ بہت طاقتور ہے وہ سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے لیکن اپنی برسوں سے چلتی بادشاہت کو اتنی آسانی سے مٹنے نہیں دینگے وہ بہت طاقتور ہوچکے ہیں بہت سے حمایتی بنا چکے ہیں ہر ایک ان کی طوطی بولتا نظر آتا ہے ۔ لیکن قارئین رکنا نہیں ہے جھکنا نہیں ہے چلتے رہنا ہے بڑھتے رہنا ہے کیونکہ بات صرف ایک فرد کی نہیں پوری کھیپ کی ہے۔

علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115940 views کالم نگار/بلاگر.. View More