پی ٹی آئی کے قائد نے دس لاکھ افراد پر مشتمل جم غفیر کے
ساتھ اسلام آباد پہنچ کر فرعون کو سبق سکھانے کا اعلان کر دیا ہے؛فرعون کو
سبق سکھانے کے لیے تو موسیٰ کے ساتھ صرف ان کا بھائی ہارون تھا!تو کیا ہوا
لال حویلی کا لال بیگ ……جو ہے خان صاحب کے ساتھ؟ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا
سمندر ہے ، تل دھرنے کو جگہ نہیں؛ارے !ایک ارب کے چارہ خور میڈیا بھائی آج
یوم آزادی ہے لاہوریے فرعونوں سے نہیں فرہنگیوں اور بنیوں سے آزادی کے دن
کی خوشی منانے نکلے ہیں؛نہیں جی نہیں ہم تو خان صاحب کی بات پر سو فیصد
یقین اور ہدایات پر سوا سو فیصد عمل کرتے ہیں(مجبوری ہے پیٹ بھر کر چارہ جو
ملا ہے) پاکستان کی تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے پڑا مارچ ہے، جب
راوی پل کراس کرے گا تو دنیا چین، فرانس، مصر، وغیرہ میں ہونے والے سب مارچ
اور انقلاب بھول جائے گی،اور پاکستانی عوام کو وکلاء تحریک کا جج بحالی
مارچ اونٹ کے منہ میں زیرے کے ہزارویں حصے سے بھی کم نظر آئے گا۔خان صاحب
کا فرمان ہے ،نواز شریف کو تو میں اسلام اباد میں آکر دیکھ لوں گا، الیکشن
کمیشن سے کہتا ہوں کہ میرے اسلام آباد میں داخل ہونے سے پہلے ہی دفعہ
ہوجائے،مارچیوں کا قافلہ لاہور سے رخصت ہوا چاہتا ہے……دلہن کی مانند
سجایاہوا کنٹینر ہے مرکزی قیادت فاتح بن کر واپس آنے کی امیدیں لیے سوار ہے
ایک لیڈر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، جس جم
غفیر کو وہ مارچی تصور کر رہے تھے وہ واقعی فرہنگی اور بنیے سے آزادی کا دن
منا رہے تھے، اب مارچ کے کھوکھلے ڈرم کا وہ حال تھا جو آٹے کی بو ری کا
خالی ہونے کے بعد ہوتا ہے ، نہ دس لاکھ کا مجمع تھا اور نہ دو لاکھ موٹر
سائیکل سوار،چھ گھنٹے تک لاہور کا چکر لگائے جانے کے بعد بھی لاہوریوں کی
طرف سے بے رخی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کاش کہ دھاندلی والے حلقوں کے لوگ ہی
ترس کھا جاتے جن کے حق کے لیے خان صاحب جان ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کر رہے
ہیں ، وہاں سے ان کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کاپچاسوا حصہ ہی شامل ہو جاتا
تو شاید اتنی رسوائی نہ ہوتی۔ راوی پل کراس کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اڑھائی
سو موٹر سائیکلوں کو ملا کر بھی گاڑیوں تعدا دچار ڈیجٹ سے تین درجے نیچے
تھی یعنی دس ھزار سے کم افراد پر مشتمل۔انقلابیوں کے کارواں کی عددی سبقت
نے تو رہی سہی امید پر پانی صرف پھیرا ہی نہیں بلکہ ڈبکی لگادی۔اب ایک آنکھ
کھلی کہ کرکٹ کے میدان میں اور سیاسی اکھاڑے میں فرق ہوتا ہے،کرکٹ میں بے
شک بازو اور سینہ زوری کام آتی ہے مگر سیاست میں انسان کا ٹاپ والا حصہ کام
آتا ہے، اور جس کا بد قسمتی سے اوپر ولا حصہ ہو ہی فالٹی اس کے بارے میں
کیا کہا جائے۔آپ حیران ہوں گے پوری قیادت پریشان تھی مگر خان صاحب ابھی تک
پر امید تھے ، بلکہ پوری طرح امید سے تھے وہ اس لیے کہ اب بھی ان کے آئی
پیڈ پر چار کروڑ نئے نوجوان ووٹر ان کے ساتھ تھے اور ان کو فتح کی نوید سنا
رہے تھے، بالکل اسی طرح جیسے مشرف کو فیس بک پر ساتھ لاکھ لائک کرنے والوں
کے زہم نے کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ گوجرانوالا تک خان صاحب اسی خوش فہمی
تھے، کہ وہاں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا نہیں بلکہ بحر ہوگا،جہلم جانے کی نوبت
ہی نہیں آئے گُوجرانوالہ میں ہیں امپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی، خان
صاحب کو کاندھوں پر ہی نہیں بلکہ عوام اپنے سر سے بھی دو چار فٹ بلند کر
لیں گے،پھر کیا ہوگا؟ پھر وہی ہوگا یو خان صاحب کی مرضی ہوگی؛ مثلاً؛ کل سے
ڈرون حملے بند دیکھنا چاہتا ہوں، بند ہوجائیں گے،لوڈ شیڈنگ ختم دیکھنا
چاہتا ہوں! ختم ہو جائے گی،کرپشن ختم دیکھنا چاہتا ہوں !ہو جائے گی۔سیاست
دانوں کے اثاثے بیرون ملک سے واپس دیکھنا چاہتا ہوں! آجائیں گے۔ (یہ حکم
اولاد کے بارے میں نہیں ہوگا کیوں کہ اولاد کسی کا اثاثہ نہیں ہوتی)۔کل سے
فلسطین کو آزاد دیکھنا چاہتا ہوں،( سوری یہ بات جوش میں نکل گئی، فلسطین کی
بات صرف یو این اور کو خط لکھ کر کی جائے گی،یعنی لکھ کر میڈیا کو دکھا دیا
جائے گا تاکہ کہ جماعتیوں کو یقین ہو جائے، بھیجنا ضروری نہیں)(میں نے شیخ
چلی کی کوئی کہانی بیان نہیں کی)لاہور سے رواں ہونے والی ندی کو سمندر اور
بحر بنانے اور ہجوم کو جم غفیر، درغفیر،ٖدر غفیر…… بنانے کے لیے حکم دیا
گیا کہ قافلہ چیونٹی کی چال سے چلے تاکہ آزادی حاصل کرنے بعد کہا جا سکے کہ
یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی گئی بلکہ ہفتوں کا سفر طے کر کے حاصل کی
گئی ہے۔اسی خوش فہمی میں گم خان کا قافلہ گوجراں والا پہنچ گیا، کوئی خاص
چہل پہل نہیں تھی لوگ تو تھے مگر پرچم پی ٹی آئی کے بجائے پاکستان کے
تھے۔پریشانی کو آنے سے پہلے جھٹک دیا، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، یہ پرچم نون
کے نہیں ہو سکتے، ہوسکتا ہے، گوجرانوالہ والوں کو ہماری وہ خفیہ ہدایت ٹھیک
سے نہ پہنچی ہوں ، اس لیے یہ لوگ، ہماری آزادی مارچ والے دن پاکستان کی
آزادی والا پرچم اٹھا لائیں ہیں۔اسی کشمش میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت سے
گاڑیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، چار درجن بائیک اور کچھ گاڑیاں بتائی
گئیں۔ دوسری آنکھ اس وقت کھلی جب نواز شریف زندہ باد کے نعرے کانوں سے
ٹکرائے، پھر کیا تھا کہیں سے جوتے آرہے تھے اور کہیں سے کنکریاں، انسانوں
کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور بحر تور دور کی بات ؛ لاہور سے چلنے والی چھوٹی
سی ندی بھی جوہڑ نظر آ رہی تھی، پومی بٹ کا نام سن کر تو گلو بٹ کا بھوت
نظر آنے لگا، آنا بھی چاہیے ،گلو بٹ کے نام سے آج کل مائیں بچوں کو ڈراتی
ہیں، خان صاحب بھی تو کبھی بچے تھے اس لیے بچپن کی کوئی نہ کوئی تاثیر تو
موجود رہتی ہے انسان میں، اور اگر نہ بھی ہو تب بھی ’’دل تو آخر بچہ ہے‘‘
خان صاحب کو کنٹینر سے اتار کر بلٹ پروف گاڑی میں بٹھا دیا گیا، ایک بہادر
آدمی……ہاشمی لاشمی بھی اوجھل ہوگئے اور دل ہی دل میں لاہوریوں سے شکوہ کرتے
ہوئے گنگنانے لگے
مایوس ہو کر تیری نگری سے ہم نکلے٭گاڑیاں ہیں جو ہمراہ ،بندے ان سے کم
نکلے٭بڑے ہی بے رحم ہیں یہ جٹ، بٹ اور گُجر لوگ٭ ان کے کنکر اور جوتے بھی
ہمارے لیے بم نکلے٭
قدم پہ قدم رکھ کر جانا تھامنزل تک ۔ خوف اتنا بڑھاکہ تیز قدم نکلے
(چن کتھے گزاری اے رات سے لیکر وزیر اعظم بننے تک کی داستان آئندہ کالم
میں) |