لوگ کہتے ہیں کہ مولاناطاہرالقادری اورمحترم عمران خاں کی
آگ اُگلتی تقریروں کی بناپر قوم کو300ارب کاٹیکہ لگ چکا،سٹاک مارکیٹ کریش
کرگئی،روپیہ ایک دفعہ پھرڈالرکے مقابلے میں تیزی سے نیچے گرنے
لگااورغیرملکی سرمایہ کاروں کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے لیکن حکومت گومگومیں
رہی۔میری عزیز دوست شاعرہ مہرین چودھری کہتی ہیں کہ اگریہی لانگ مارچ
مہنگائی،بَدامنی اورلوڈشیڈنگ کے خلاف نکالے جاتے توپوری قوم ساتھ دیتی لیکن
یہاں توکسی کوآپریشن ضربِ عضب کابھی خیال نہیں۔میں نے کہاکہحالتِ جنگ میں
توہم بھی ہیں لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ ہم کرسی کے حصول کی جنگ کررہے ہیں
جبکہ جَری جوان سرحدوں کی حفاظت کی جنگ۔اﷲ کے سپاہی توانشاء اﷲ سُرخ
روہونگے ہی لیکن یہ طے ہوناابھی باقی ہے کہ آزادی اورانقلاب مارچ
کاکیانتیجہ نکلتاہے۔تجزیہ نگارکہتے ہیں کہ اگردھرناطوالت پکڑگیاتوسونامیوں
اورانقلابیوں کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ آن گرے گالیکن ایساہوتانظرنہیں
آتاکیونکہ مولاناقادری کے عقیدت مندتوپھربھی دوچارروزبیٹھ رہیں گے لیکن
ہمارے نرم ونازک’’سونامیے‘‘توایک دِن میں ہی مرجھاجائیں گے۔اب دیکھنایہ ہے
کہ کس کا’’سٹیمنا‘‘زیادہ ہے،سونامیوں اورانقلابیوں کایاحکومت کا؟۔
محترم خاں صاحب نے فرمایاتھاکہ اُن کے آزادی مارچ کے ساتھ ایک لاکھ
موٹرسائیکل ہونگے اورایک لاکھ سات ہزارموٹرسائیکل توتحریکِ انصاف کے پاس
رجسٹربھی ہوچکے تھے لیکن ہماری’’مخولیہ‘‘حکومت کہتی ہے کہ گوجرانوالہ ٹول
پلازہ پرجب گنتی کہ گئی توخاں صاحب کے سونامی مارچ کے ساتھ
صرف237موٹرسائیکل تھے۔ حسّاس اداروں کی رپورٹ کے مطابق تحریکِ انصاف کے
لانگ مارچ میں75لینڈکروزرز،22ٹرک،21بسیں اور230کاریں شامل تھیں جِن میں
زیادہ سے زیادہ5400 افرادہی سوارہوسکتے ہیں جبکہ دوسری طرف انقلاب مارچ
میں964کاریں،162بسیں،90کوسٹرز،92مِنی بسیں اور26ٹرک شامل تھے جن میں زیادہ
سے زیادہ 16000 افرادسوارہوسکتے ہیں۔یہ حسّاس ادارے بھی بَس’’ایویں
ای‘‘ہیں۔کوئی اُن سے پوچھے کہ کیایہ کسی یونین کونسل کے کونسلرکاجلوس
تھا؟۔کچھ توخُداکاخوف کریں،ماناکہ ہم دَس لاکھ لوگ اکٹھے نہیں کرسکے لیکن
یہ تعداددَس ہزارسے بہرحال زیادہ تھی۔لوگ کہتے ہیں کہ اگراتنے لوگ ہی اسلام
آباد جانے تھے توپھرحکومت’’وَخت‘‘میں کیوں پڑی ہوئی تھی؟۔اُدھرحکومتی حلقے
بیچارے توخودپریشان وپشیمان ہیں کہ اگرتعداداتنی ہی’’شرمناک‘‘ہونی تھی
توپھراُس نے’’ایویں خوامخواہ‘‘گُلوبٹوں اورپومی بٹوں کو’’وَخت‘‘میں ڈالے
رکھا۔حسّاس اداروں کی رپورٹ پرطیش میں آکرمولاناصاحب نے یہ رازبھی افشاء
کردیاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں14نہیں بلکہ50 افرادقتل ہوئے۔چودہ کے جنازے
پڑھادیئے گئے جبکہ باقی حکومت کے’’گلوبٹوں‘‘نے غائب کردیئے۔دروغ بَرگردن
راوی جب رپورٹرنے مولاناسے یہ سوال کیاکہ اِن چھتیس افرادکے لواحقین کہاں
ہیں اوراُنہوں نے احتجاج کیوں نہیں کیاتومولاناطیش میں آگئے اوررپورٹرکے
چہرے پرہوائیاں اُڑنے لگیں۔مولانانے یہ بھی فرمایاکہ اُن کاانقلاب مارچ
32کلومیٹرلمباتھا۔مولاناصاحب چونکہ شیخ الاسلام بھی ہیں اِس لیے وہ توجھوٹ
بول نہیں سکتے اِس لیے یہ مانناہی پڑے گاکہ حکومت جھوٹ بولتی ہے۔ویسے بھی
ہمارے ہاں’’جھوٹ‘‘ہی جمہوریت کاحسن ہے۔مُرشدنے یہ بھی کہا کہ اُن کاقافلہ
پانچ،چھ لاکھ افرادپرمشتمل ہے جواسلام آبادپہنچتے پہنچتے دَس لاکھ ہوجائے
گا۔جب کسی’’شریر‘‘صحافی نے مولاناسے سوال کیاکہ انہوں نے توایک
کروڑ’’نمازیوں‘‘کے ساتھ انقلاب مارچ کرناتھاتوپھردَس لاکھ کیوں؟۔تَب
مولانانے مُسکراکرکہا(ویسے مولاناکم کم ہی مسکراتے ہیں)کہ مروت بھی کوئی
شٔے ہوتی ہے۔اُن کی کپتان صاحب کے ساتھ نئی نئی دوستی ہوئی ہے اورچونکہ خاں
صاحب نے دَس لاکھ کے مارچ کااعلان کیاتھااِس لیے اُنہوں نے بھی یہی مناسب
جاناکہ دَس لاکھ عقیدت مندوں کے ساتھ ہی انقلاب مارچ کیاجائے۔ویسے ہم
پریشان تھے کہ اسلام آبادکی توکل آبادی پندرہ لاکھ ہے پھریہ بیس لاکھ
سمائیں گے کہاں؟۔ لیکن ہم یہ بھول گئے کہ یہاں بھی مُرشدکی’’کرامت‘‘رنگ
دکھائے گی ۔اب دیکھ لیجئے کہ بیس لاکھ افرادصرف ایک ہی سَڑک پرسماگئے۔
گیارہ بج چکے لیکن دھرناابھی تک شروع ہوا،نہ مُرشدکا خطاب۔عقیدت منداڑھائی
تین گھنٹے تک تومُرشدکوتلاش ہی کرتے رہے۔بعدمیں پتہ جلاکہ اُن کی طبیعت
خراب ہوگئی تھی اِس لیے اُن کے’’قریبی عقیدت مند‘‘چپکے سے اُنہیں ایمبولینس
میں لٹاآئے تاکہ وہ آرام کرلیں۔اُدھرخاں صاحب نے بھی فرمایاچونکہ وہ چالیس
گھنٹے سے سونہیں سکے اِس لیے قوم کے بہترین مفادمیں دھرنادوپہرتین بجے تک
ملتوی کیاجاتاہے۔آخری خبریں آنے تک خاں صاحب بنی گالہ میں استراحت فرمارہے
ہیں اورمُرشدایمبولینس میں۔رہی انقلاب اورآزادی مارچ کے’’خواتین و
حضرات‘‘کی بات تووہ اسلام آبادکی سڑکوں پربارش سے لطف اندوزہورہے ہیں۔حیرت
ہے کہ ’’سونامیے‘‘اور’’انقلابیے‘‘توبھیگے ہوئے موسم کامزہ لے رہے ہیں جبکہ
حامدمیرکہتے ہیں’’ دھرنے کازورٹوٹ گیاہے اورسفینۂ غمِ دھاندلی بارش کے پانی
میں ہچکولے کھارہا ہے‘‘۔مشاہداﷲ خاں کہتے ہیں کہ عمران خاں دھرنادرمیان میں
چھوڑکربنی گالہ چلے گئے اوراب لوگ سڑکوں پر’’رُل‘‘رہے ہیں۔ہماری اطلاع کے
مطابق توایساکچھ بھی نہیں ہواالبتہ ہمارے کچھ پٹھان بھائی بیمارضرورہوگئے
جس کی وجہ یہ تھی کہ پٹھان بھائی’’نسوار‘‘کے بغیررہ نہیں سکتے۔ہم نے ایک
نیوزچینل پرلانگ مارچ میں شریک ایک پٹھان بھائی کوکہتے ہوئے سُناکہ’’
نسوارہمارے لیےCNGکاکام کرتی ہے اوراِسے مُنہ میں رکھتے ہی ہماراگاڑی سٹارٹ
ہوجاتی ہے‘‘۔اب ایک تو اُن کانسوارکاکوٹہ ختم ہوچکاہے دوسرے طوفانی بارش
جِس کی بناپر خیبرپختونخواسے آئے ہوئے کُل سات سو’’سونامیوں‘‘میں سے پونے
پانچ سوبیمارپڑچکے ہیں لیکن اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتاکیونکہ شنیدہے کہ
KPKسے نسوارکاتازہ کوٹہ لایاجارہاہے جِس کے پہنچتے ہی پٹھان بھائی تازہ دم
ہوکرپھرڈھول کی تھاپ پررقص کرنے لگیں گے۔ |