صدر پر اعتماد اور عوامی مسائل
پر عدم توجہ کیوں....؟
کیا صدر پر اعتماد کرنے والوں نے قوم کو مہنگائی کے ہاتھوں رگڑ دیا ہے...؟
یہ ٹھیک ہے کہ عوامی درد کو محسوس کرنے والی خالصتاً عوامی جماعت پاکستان
پیپلز پارٹی بھی آج عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح سے ناکام نظر آتی ہے
اور یہ حکومت جس کا نعرہ ہی روٹی کپڑا اور مکان ہے اِس حکومت میں بھی عوامی
مسائل جوں کے توں ہیں اور اِس میں بھی کوئی عوام کا پرسانِ حال نہیں ہے۔
جبکہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عوام کی اِس حکومت سے لگیں وہ تمام اچھی
آس اور امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں جو ملک کی سترہ کروڑ عوام نے ملک کے سابق
بھگوڑے صدر آمر جنرل (ر) مشرف کے ظالمانہ دور کے اختتام کے بعد ملک میں
ہونے والے انتخابات میں اِس حکومت کو اپنا مسیحا جان کر ووٹ دیا اور اِسے
اقتدار کے مسند تک پہنچایا۔
مگر اَب یہ حکومت بھی عوام کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکی ہے اور اَب تو
عوام اِس حکومت کے اقتدار میں آتے ہی روز آفزوں مہنگائی کے ہاتھوں بھوک و
افلاس اور تنگدستی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور اِس حکومت کی ایک
الگ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اِس کے اقتدار پر قدم رنجا فرمانے سے لے کر اَب
تک عوام آٹا، چینی، گھی اور دال جیسی روز مرہ کی اشیائے ضروریہ بھی محروم
ہے۔
اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے جیسا کہ میں اِس سے قبل بھی اپنی بہت سی تحریروں
میں اِس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ ملک میں اقتدار میں آنے والی سیاسی
جماعتوں کی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو تاریخ اِس کی گواہی ضرور
دیتی ہوئی نظر آئے گی کہ جب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار
آئی تو اِس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مدت کبھی بھی پوری نہیں کرنے دی
اور اَب یہ بات پوری طرح سے بھی حقیقت کا رنگ بھر چکی ہے کہ اِس دفعہ بھی
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی بعض قوتیں پوری طرح سے
حرکت میں آچکی ہیں اور اِن کی بس ایک یہ ہی کوشش ہے کہ اِس حکومت کو جس قدر
جلد ممکن ہوسکے غیرمستحکم کیا جائے اور ملک میں ایسے حالات پیدا کردئے
جائیں کہ عوام اِس حکومت کے خلاف خود سڑکوں پر نکل آئے۔ اور یہ حکومت سیاسی
بحران کا شکار ہوکر اپنا اقتدار خود چھوڑ دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں
موجود بعض قوتوں نے شروع دن سے ہی یہ نہیں چاہا کہ یہ حکومت عوامی معیار پر
پورا اترے اور عوامی مسائل حل کر کے عوام کے لئے مسیحا ثابت ہو۔ یوں اِن
خفیہ قوتوں نے اِس حکومت کے لئے آج حالات اتنے مشکل اور کٹھن کردیئے ہیں کہ
ایسا لگنے لگا ہے کہ اگر آج بھی موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں نے ہوش کے
ناخن نہ لئے تو کوئی شک نہیں کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی اور
اِس طرح ملک عنقریب مڈٹرم الیکشن کا بھی متحمل ہوسکتا ہے۔ اور اَب میری اِس
بات کا اظہار موجودہ حکمران بھی کرنے لگے ہیں کہ اِن کی اچھی بھلی حکومت کو
اسٹیبلشمنٹ میں موجود بعض قوتیں کام کرنے نہیں دے رہی ہیں اور یہ قوتیں
ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ اور اَب ضرورت اِس امر
کی ہے کہ اِن کی حکومت کے خلاف اندورنی طور پر ہونے والی سازش کو ناکام
بنانے کے لئے حکمرانوں کو باہم متحد اور منظم ہو کر ایک دوسرے (بشمول اپنی
حلیف جماعتوں) پر مکمل اعتماد کرنا ہوگا۔ یوں میرے نزدیک اِس کے بغیر یہ
حکومت اپنی مدت قطعاََ پوری نہیں کرسکے گی۔
ہاں البتہ! میرے خیال سے یہ بہت اچھا ہوا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب صدر
مملکت آصف علی زرداری کی شخصیت کو ملک کے اندر ہی سے نہیں بلکہ باہر سے بھی
اِن کی ذات کو ہر زاویوں سے ہدف تنقید بنایا جارہا ہے تو ایسے میں گزشتہ
دنوں ایوان صدر میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو
کمیٹی کا ایک اہم ترین اجلاس جو صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت میں
محض اِس لئے منعقد کیا گیا کہ اِس اجلاس میں ترجیحی بنیادوں پر صدر آصف علی
زرداری پر اعتماد کا اظہار کیا جائے اور بس اِس اجلاس کا اور کوئی ایسا خاص
ایجنڈا اور مقصد بھی نہیں تھا کہ یہ اجلاس رات کو منعقد کیا جانا بہت ضروری
ہوگیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر کہا کہ
جمہوریت اور جمہوری نظام کا تحفظ ہر حال میں کیا جائے گا۔ جبکہ اُن کا اِس
موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں ملک میں قومی ادارے انتہائی
خوش اسلوبی کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اِس عزم کو بھی
دہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ حکومت کوئی خیرات میں نہیں ملی ہے اِس کے لئے
ہم نے اپنی قربانیاں دی ہیں اور اِب بھی ملک کو ہماری قربانی کی ضرورت پڑی
تو ہم دیں گے اور انہوں نے اُن لوگوں کو بھی جو روزانہ اِ ن کا نوحہ پڑھتے
اور لکھتے نہیں تھکتے ہیں واضح طور پر متنبہ کرتے ہوئے اِن کے بارے میں کہا
کہ انہیں ہر حال میں مایوسی ہوگی اور مایوسی کا ایک بدنما داغ اِن کے ماتھے
پر چمکے گا جو ملک کی ساڑھے 17کروڑ عوام بھی دیکھے گی اور اِن کے ہمارے
بارے میں پڑھے اور لکھے گئے نوحہ پر اِنہیں ہی تھو تھو کرے گی اور صدر نے
اپنے اِس ولولہ انگیز خطاب میں یہ بھی کہہ کر نہ صرف اِس اجلاس میں موجود
شخصیات کو بلکہ پوری پاکستانی قوم کو بھی حیران کردیا کہ مجھے اور میری
حکومت کو اِس کی فکر ہرگز نہیں ہونی چاہئے کہ مخالفین ہمارے خلاف کیا کچھ
کرتے پھر رہے ہیں ہمیں تو بس اپنا کام کرتے رہنا چاہئے کیوں کہ پاکستان
پیپلزپارٹی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ ہاں البتہ! انہوں نے
اِس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بھی بہت اچھا کیا کہ اپنی پارٹی
کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو پوری طرح متحرک رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ
جو چند مایوس لوگ میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر ہمارے خلاف کھلم کھلا منفی
اور بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہے ہیں اِن کا ہر صورت میں جمہوری طریقے سے
مقابلہ کیا جائے یوں ہمارے خالصتاً جمہوری عمل سے اِن لوگوں کی ناکامی ہوگی
جو ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈوں سے علمِ بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدر نے اپنی کمیٹی کے اراکین کو اُن عناصر کا ڈٹ کر
مقابلہ کرنے کا ایک ایسا جمہوری طریقہ اور راستہ بتا دیا ہے جس پر چل کر
یقیناً اِن کی کمیٹی کو کامیابی حاصل ہوگی اور اِس طرح چند مٹھی بھر لوگ
میڈیا پر آکر اپنے منفی اور گمراہ کن پروپیگنڈوں کے ذریعے نہ تو صدر زرداری
کو اور نہ ہی اِن کی حکومت کو کمزور کر سکیں گے۔ اور اِس طرح نہ تو اِن کی
چال ہی چل سکے گی اور نہ ہی اِن کی دال ہی گل سکے گی۔
کیوں کہ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ صدر زرداری کی حکومت 18فروری کے
انتخابات میں بھرپور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی ہے اِن کی
حکومت کی چولیں کوئی بھی یوں اتنی آسانی سے نہیں ہلا سکتا جتنی آسانی سے
کچھ لوگ میڈیا پر آکر صدر مملکت آصف علی زرداری اور اِن کی حکومت کے خلاف
ہرزہ سرائی کرتے ہوئے عوام کو ایک ایسے مخمصے میں مبتلا کرنے کے بعد تنگ
اور تاریک بند گلی میں دھکیل کر اپنے ہی کلیجے خود ہی ٹھنڈے کر کے چلے جاتے
ہیں جس کی وجہ سے عوام یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ حکومت درست ہے یا یہ لوگ جو
اپنے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ حکومت اور صدر زرداری کے خلاف بول رہے
ہیں۔
اور آج اِن حالات میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور اِن کی پارٹی کے لئے
ایک کڑا امتحان آن پڑا ہے کہ یہ ایک دوسرے پر پورا اعتماد کرتے ہوئے آگے
بڑھیں اور خود کو میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کے اِس قول
میں ڈھال لیں کہ:” جنگ میں بندوق نہیں لڑتی اِسے تھامنے والے فوجی کا دل
لڑتا ہے اور دل بھی نہیں اِس دل میں موجود اِس کا اعتماد لڑتا ہے“آج دنیا
کی تاریخ کی کتاب کے ہر باب کے اوراق اُن لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جن سے
متعلق کہا جاتا ہے کہ اِن لوگوں نے اپنے آپ پر غضب کی خود اعتمادی کی اور
یہ ہی خود اعتمادی والے شخص تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئے ہیں۔
اور اِسی طرح خود اعتمادی سے ہی متعلق بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح
کا ایک قول ہے کہ”ایک دوسرے پر اعتماد ہی ایک دوسرے سے تعاون بڑھاتا
ہے“جبکہ جان ملٹن کا بھی اعتماد کے بارے میں کہنا ہے کہ ”جہاں اعتماد کے
بیج کی آبیاری ہو وہیں مسرتیں پروان چڑھتی ہیں“اور اَب اِن ولولہ انگیز
اقوال کے بعد صدر زرداری اور اِن کی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو بھی
سوچنا ہوگا کہ جس طرح انہوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اَب
اِسی طرح یہ لوگ(ہمارے حکمران) عوام کے اُس اعتماد پر بھی پورا اتریں جس
اعتماد کو صدر زرداری اور اِن کی کمیٹی کے اراکین نے اپنے اقتدار کے پہلے
ہی روز سے روند دیا ہے۔ اور اَب ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بعد عوامی کے
مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کر کے عوام میں بھی اعتماد کے بیج کی آبیاری کر
کے ملک میں مسرتوں کو پروان چڑھائیں اور ملک سے مایوسیوں کے سائے کو دور
بھگائیں۔ |