چند روز پہلے پوری دنیا سمیت
پاکستان میں برداشت کا عالمی دن منایا گیا۔ مختلف شہروں میں برداشت کی
افادیت اور ضرورت پر مذاکرے ہوئے اور لیکچرز دئےے گئے۔ بلا شبہ کسی بھی
مہذب معاشرے میں برداشت کی ضرورت اور افادیت ایک مسلمہ امر ہے۔ چھوٹی چھوٹی
باتوں کو برداشت کرنا، انہیں انا کا مسئلہ نہ بنانا، ضد بازی اور مخالفت
برائے مخالفت کی سوچ کو ختم کرنا از حد ضروری ہے۔ آجکل کے حالات جن میں
ہماری قوم جکڑی ہوئی ہے اور گردن تک دھنس چکی ہے ان حالات سے نکلنے کے لئے
برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جانا بھی بہت ضروری اور ناگزیر ہوچکا ہے۔
جب بھی کبھی کچھ دوست احباب اکٹھے ہوتے ہیں تو سیاسی، غیر سیاسی، سماجی اور
دیگر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ چند دن پہلے جب ”برداشت“ کا عالمی دن
منایا جارہا تھا اور مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اس کی خبریں آرہی
تھیں تو دوستوں کی ایک محفل میں چند احباب پھٹ ہی پڑے۔ ایک صاحب کہنے لگے
کہ ہمارے معاشرے میں جہاں ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے، جہاں بااثر
افراد دوسروں کی عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ بھی اپنا حق سمجھتے ہیں، جہاں
عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اور جہاں نوکری اور کاروبار
ایسے ڈھونڈے جارہے ہوں جیسے بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کی جاتی ہے وہاں
کوئی کیا برداشت کرے اور کتنا برداشت کرے؟ وہ سانس لیکر دوبارہ گویا ہوئے
کہ جس معاشرے میں جنگل کا قانون ہو، جہاں غریب ایک وقت کی روٹی کے لئے
ترستا ہو، جہاں ایک مزدور کے بچے بے بسی اور لاچاری کی تصویر نظر آئیں،
جہاں مائیں اس لئے بچوں کو ایدھی کی جھولی میں ڈال دیں کہ ان کے پاس ان کو
کھلانے اور پہنانے کے لئے کچھ نہیں، جہاں باپ اپنے معصوم لخت ہائے جگر کو
عید کے لئے نئے کپڑے اور جوتے نہ دلوا سکے، جہاں والدین اپنے بچوں کو ذبح
کر کے خود کشی کرلیں کیونکہ وہ انکی چھوٹی چھوٹی اور معصوم خواہشات پوری نہ
کرنے کی وجہ سے دن رات اذیت میں مبتلا ہوں! ان صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے
اور وہ کہہ رہے تھے کہ بھائی صاحب! جس سوسائٹی میں دن بدن امیر، امیر تر
اور غریب، غریب تر ہورہا ہو، جس معاشرے میں غریب کی کٹیا میں اس کے معصوم
بچے اور بوڑھے والدین گرمیوں میں بغیر پنکھے کے، مچھروں کے ساتھ رات بسر
کرتے ہوں اور سردیوں میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر جبکہ اس کا ہمسایہ گرمیوں میں اے
سی کی ٹھنڈی ٹھار ہوا میں اور سردیوں میں گرم لحاف کے ساتھ ہیٹر کی ممتا
بھری آغوش میں خواب خرگوش کے مزے لیتا ہو، جہاں غریب پیسہ نہ ہونے کی وجہ
سے اپنے لائق بچوں کو ایک خاص حد سے زیادہ تعلیم نہ دلوا سکتا ہو اور امیر
کا نالائق اور کند ذہن بچہ ”سیلف فنانس سکیم“ کی بدولت ڈاکٹر اور انجینئر
بن جائے، جہاں غریب اپنے معمر والدین اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے دوا کا
انتظام نہ کرسکتا ہو اور امراﺀ، اراکین پارلیمنٹ، بیورو کریسی کے کل پرزوں
کے لئے بیرون ملک علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہوں وہاں
برداشت کا لفظ بھی زہر میں ڈوبا ہوا نشتر بن جاتا ہے۔
ایک دوسرے صاحب نے اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ آپ کس برداشت کی بات
کرتے ہیں؟ کیا اپنے ارد گرد بڑھتی ہوئی لاقانونیت، اقربا پروری، میرٹ کی
لاش اور ایسی لاش جس پر گدھوں کو بھی گوشت کا ایک ریشہ تک نصیب نہ ہو،
حکومت کی شاہ خرچیوں، آپس کی بندر بانٹ، جان بچا کر باہر بھاگنے کے
ایگریمنٹ، این آر او جیسے بے غیرتی پر مبنی آرڈیننسوں، اراکین پارلیمنٹ کی
مراعات بڑھانے کے قوانین چند منٹوں میں پاس کئے جانے اور ایک خاص طبقہ
اشرافیہ کے لئے ہر آسائش اور سہولت مختص کئے جانے پر کون برداشت کرسکتا ہے؟
کیا اب برداشت اور بزدلی میں کوئی فرق رہ گیا ہے؟ وہ رندھی ہوئی آواز میں
کہنے لگے کہ میرا بھائی انجینئر ہے، اس نے ہر کلاس میں ٹاپ کیا اور اعزاز
کے ساتھ بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، نوکری کے لئے مختلف محکموں
میں درخواستیں دیں، ہر جگہ میرٹ پر اس کو ٹیسٹ میں پاس کرنا پڑا لیکن
انٹرویو میں ہمیشہ فیل کردیا جاتا ہے، جب میں نے کچھ اندر کے لوگوں سے
پوچھا اور سن گن لی تو معلوم ہوا کہ چونکہ سیاسی گورنمنٹ ہے اس لئے ہر
وفاقی محکمہ میں بھرتی کے لئے اسلام آباد اور ہر صوبائی محکمہ میں بھرتی کے
لئے لاہور سے لسٹ آتی ہے کہ میرٹ پر نہیں بلکہ اس لسٹ کے مطابق بھرتیاں
کرنی ہیں، انہوں نے ریلوے کے محکمہ میں بھرتوں کا حوالہ بھی دیا اور اپنے
وزیر ریلوے ”بلور“ صاحب تو سیاست کے ساتھ ”لسٹوں“کے حوالے سے بھی کافی
مشہور ہوئے ہیں، ان کی لسٹوں کو تو ایک زمانہ جانتا ہے!
وہاں پر ایک اور صاحب تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو باسٹھ برس
ہوگئے ہیں ”برداشت“ کرتے ہوئے، اس قوم کو اب مزید برداشت کی نہیں بلکہ اس
برداشت کے ”فیز“ اور ”ٹرانس“ سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے! جس برداشت کی آپ
لوگ بات کررہے ہیں وہ برداشت مہذب معاشروں میں ہوتی ہے، ایسے معاشروں میں
جہاں صرف اپنے حقوق کو نہیں بلکہ اپنے فرائض کو پہلے سامنے رکھا جاتا ہے،
جہاں دوسروں کو ان کے فرائض کی بابت توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ خود ان کے
حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، جہاں کوئی بھی شخص اس وقت تک مجرم نہیں سمجھا
جاتا جب تک کہ اس کا جرم الزام لگانے والا ثابت نہ کردے، جس برداشت کی آپ
بات کرتے ہیں اور جس برداشت کا عالمی دن منایا جارہا ہے وہ ہمارے جیسے
ملکوں اور معاشروں کے لئے ہرگز نہیں، یہ ان خطوں کے لئے اور ان سوسائٹیوں
کے لئے ہے جہاں ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، جہاں ریاست کے تمام شہری بلا
رنگ و نسل اور بلا مذہب ایک حیثیت رکھتے ہیں، جہاں ریاست میرٹ کو مدنظر
رکھتے ہوئے وسائل تقسیم کرتی ہے، جہاں حقوق و فرائض میں ایک توازن قائم
رکھا جاتا ہے، جہاں غریب آدمی اور اس کے بچوں کو بھی وہی سہولیات فراہم کی
جاتی ہیں جو ایک امیر اور مقتدر شخص اور اس کے بچوں کو، جہاں کوئی بھوکا
نہیں سوتا، جہاں روٹی، کپڑا اور مکان محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقتاً ریاست
کی ذمہ داری ہوتے ہیں! برداشت کا یہ عالمی دن ایسے معاشروں کے لئے ہے جہاں
قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، جہاں ججوں کو قید کرنا تو دور کی بات ہے کسی بھی
بے قصور اور معصوم کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی قید نہیں کیا جاتا، جہاں لوگوں
کو اس لئے پابند سلاسل نہیں کیا جاتا، ذہنی و جسمانی اذیت نہیں دی جاتی اور
زندہ نہیں جلایا جاتا کہ وہ ایک آمر وقت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کیوں کھڑے
ہوگئے! اور جہاں قوم پر شب خون مارنے والے ڈکٹیٹر کو سلامی نہیں دی جاتی،
یہ برداشت وہاں کے لئے ہے کہ لوگوں کے آپسی تعلقات یا عوام کے حکومت اور
ریاست کے مابین تعلقات میں اگر کبھی کبھار کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے، کوئی
تنازعہ کھڑا ہوجائے تو ”برداشت“ کیا جائے اور ایک دوسرے کو معاف کردیا
جائے!
مجھے وہاں موجود لوگ انقلابی محسوس ہوئے، ان کے خیالات باغیانہ اور اطوار
جارحانہ محسوس ہورہے تھے، ان میں اکثریت نوجوان لوگوں کی تھی وہ آپس میں
یہی بات کررہے تھے کہ بس بہت ہوچکا، اب یہ زبردستی کی ”برداشت“ کا کلچر ختم
کرنا ہوگا، ہمیں اپنے حقوق کے لئے لڑنا ہوگا، اگر ہم یونہی سب ظلم اور
زیادتیاں”برداشت“ کرتے چلے گئے تو یہ طبقہ اشرافیہ جو پچھلے باسٹھ برسوں سے
ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہے وہ ہمیں ہمارے حقوق بھی نہیں دے گا
اور اپنے فرائض بھی ادا نہیں کرے گا، اس لئے ساتھیوں! اب جنگ ہوگی، اپنے
حقوق کے لئے، اس مادر وطن کی عظمت اور ناموس کے لئے، اپنے بچوں اور آنے
والی نسلوں کے لئے، ہم خالی ہاتھ بھی جنگ کریں گے کیونکہ جب عوام جذبات سے
بھرپور ہوں، ان کی نیتیں ٹھیک ہوں، جب ان کے ارادے پختہ اور غیر متزلزل ہوں
اور جب انہیں اپنی قوت بازو سے زیادہ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف سے مدد کا
یقین ہو تو وہ کبھی کوئی معرکہ ہار نہیں سکتے بلکہ جیت ان کا مقدر ہوتی ہے!
اب مزید ظلم اور زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی، آخر برداشت کی بھی حد ہوتی
ہے! میں ان نوجوانوں کی باتیں سن کر وہاں سے چلا آیا اور اب سوچ رہا ہوں کہ
ہاں ہاں! برداشت کی یقیناً کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے اور بحیثیت قوم ہم وہ
حد پیچھے تو نہیں چھوڑ آئے؟ |