نوح کی کشتی

"کوئی فائدہ نہیں"میں نے غصے سے کہا..
وہ جو اپنی کتاب پر جھکی کچھ لکھنے میں مصروف تھی،گہری سانس کھینچ کر رہ گئی-

"آج کل دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہیں جن کے پاس پیسہ،دولت، عزت و شہرت ہے........وہی لوگ جنت میں رہ رہے ہیں...خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں..ہماری طرح ہر چھوٹی بڑی چیز کے لئے پاؤں نہیں چٹخانے پڑتے انہیں..سب کچھ ان کے پاس ہوتا ہے...سب کچھ کر سکتے ہیں وہ...شان وشوکت سے رھ رہے ہیں...."

اس نے سر اٹھا کر اپنی بھوری آنکھوں سے لمحے بھر کے لیے مجھے دیکھا پھر اپنے سابقہ کام میں مصروف ہو گئی..ایک یہی تو کام تھا اس کا...لکھنا،لکھنا اور لکھتے رہنا.........

"سب کچھ ان لوگوں کی مرضی سے ہوتا ہے،ان کے ساتھ کبھی غلط نہیں ہوتا..وہ پیسوں سے کچھ بھی خرید سکتے ہیں....کچھ بھی!!....اس دنیا میں جینے کے لیے دولت،تعلیم،نوکری...سب کچھ ضروری ہے" میں اچھا خاصا جلا بھنا بیٹھا تھا...."دنیا میں جینے کے لیے بلندی چاہیے. ..ورنہ کوئی کسی کو گھاس نہیں ڈالتا"

میری بات ہمیشہ کی طرح آج بھی دنیا سے شروع ہو کر دنیا پر ختم ہوئی تھی-

اس کی وجہ میری زندگی کے حالات تھے ،میرے ساتھ کبھی اچھا نہیں ہوتا تھا...جیسا میں چاہتا ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا،دنیا کی اس دوڑ میں باوجود کوشش کے میں بہت پیچھے رہ گیا تھا.میرے آس پاس کے بہت سے لوگ آگے نکل چکے تھے..میری نظر میں دوسروں کے پاس سب کچھ تھا صرف میرے ہاتھ خالی تھے..شاید میں خود کو دیکھنے کے بجائے دوسروں کو زیادہ دیکھا کرتا تھا....دوسروں کے پاس کیا ہے!؟ میرے پاس کیا نہیں ہے اس پر میری خاص نظر ہوتی تھی....

میں ابھی مزید شعلے اگلنے کا ارادہ رکھتا تھا جب وہ جھٹ سے اپنا ہاتھ روک کر کتاب سے سر اٹھاتے ہوئے کچھ یاد آ جانے والے اندازمیں بولی-
"سمندر کی وحشت زدہ لہروں کو چیرتے ہوئے وہ کشتی اپنی منزل سے جا ٹکرائی......سنا تم نے!!!...نوح کی کشتی کو سمندر نگل نہیں سکا...."

میں گھبرا کر اسے دیکھنے لگا. .ابھی کچھ دیر پہلےتک تو وہ اچھی بھلی تھی،اب اچانک اسے کیا ہو گیا تھا-

"خوفناک لہریں سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئیں اسے چاروں طرف سے گھیر چکی تھیں مگر وہ اس کشتی کے تختوں کو اکھاڑ نہ سکیں...بادل شدت سے برسے تھے"وہ خوفناک منظر تخلیق کرتے ہوئے میرے سامنے آ بیٹھی...

"آسمانی بجلی نے خوف کے دروازے کھٹکھٹا دئیے تھے....دور تاحد نظر سمندر کی وحشت زدہ لہریں ہی لہریں تھیں..."

وہ سانس لینے کو رکی تو میرے لب ہلے.

"کیا تم ٹھیک ہو!؟؟"

اس نے میری سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی..."مگر..مگر نوح کی کشتی ڈوب نہ سکی...وہ کشتی خالی ہوتی تو ٹوٹ کر بکھر جاتی....مگر اس میں کچھ تھا...اس میں کچھ انوکھا تھا...."

وہ مزید کچھ کہنے جا رہی تھی جب میں نے اسے ٹوک دیا..."نوح کی کشتی میں ایک نبی سوار تھے..اللہ کا نام لینے والے لوگ تھے اور جانور بھی تھے...."

اس نے میری بات سن کر نفی میں سر ہلایا..."صرف اتنا نہیں..."پھر پراسرار لہجے میں بولی..."اس میں صرف یہ سوار نہیں تھے...اس میں کچھ اور تھا...!!!"

"اور کیا..!!"مجھے حیرت ہوئی-

"تمھیں معلوم ہے کہ نوح کا بیٹا بلند چوٹی پر چڑھ گیا تھا..."اس کی گہری آنکھیں میرے چہرے پر جم گئیں،ایسے جیسے وہ مجھ میں کسی کا عکس دیکھ رہی ہو...

"ہاں " میرے لبوں نے حرکت کی...

"وہ بہت بلند چوٹی تھی...جب نوح نے اپنے بیٹے سے کہا کہ کشتی پر سوار ہو جاؤ تو پتہ ہے اس نے کیا کہا تھا؟...اس نے کہا تھا کہ میں بلند چوٹی پر چڑھ جاؤں گا،یہ بلندی مجھے بچا لے گی..اس کا خیال تھا کہ وہ بچ نکلے گااس طرح سے..."

"یار یہ واقعہ ہر کسی کو معلوم ہے..تم کیوں پیچھے پڑ گئی ہو..." مجھے اس کی باتوں سے الجھن ہو رہی تھی-

"نہیں تمہیں کچھ نہیں معلوم...اہم بات ہی تو نہیں معلوم .."اس کا لہجہ پھر سے پراسرار ہو گیا....

"اہم بات مطلب...!!!"میں چونکا...

"تمہیں معلوم ہے وہ چوٹی کیا تھی جس پرنوح کا بیٹا چڑھ گیا تھا؟؟؟؟اور وہ کشتی کیا تھی جس پر نوح سوار ہوئے تھے؟؟!"اس نے پوچھا-

مجھے اس کا سوال سمجھ نہیں آیا..عجیب لڑکی تھی وہ...

اپنا سر کھجاتے ہوئے میں نے وہاں سے اٹھنا چاہا مگر اس نے مجھے جانے نہیں دیا...

"تمہیں نہیں معلوم ہے نا!....میں بھی نہیں جانتی تھی...."

"کیا جانتی ہو تم جو میں نہیں جانتا؟؟؟"

"یہی کہ کشتی پر کون سوار تھا جس کی وجہ سے کشتی ڈوب نہیں سکی.."

"نوح کی وجہ سے؟؟؟؟"میں نے پوچھا..اس نے نفی میں سر ہلا دیا-

"نہیں وہ کچھ اور ہے،."وہ پہیلیاں بجھوا رہی تھی اور میں تنگ ہو رہا تھا....

"کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ بلند چوٹی کیا تھی...!؟؟"

"نہیں پتہ یار.." مجھے غصہ چڑھ گیا..

"میں بتاتی ہوں تمہیں..."اس کالہجہ پھر سے عجیب ہو گیا تھا...اس نے میری طرف دیکھا پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں سنجیدگی سے بولی...."وہ چوٹی "دنیا" تھی....دنیا تھی!...دنیا تھی!....دنیا میں کھو کر انسان اپنے رب کی طاقت کو بھول جاتا ہے،وہ دنیا کی شان وشوکت اور دولت کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے،اسے لگتا ہے کہ دنیا اسے بچا لے گی،اسے لگتا ہے کہ کہ دنیا کی اس چوٹی کہ اوپر بلندی پر پہنچنے سے وہ بچ جائے گا،مگر نہیں...!دنیا تو ڈبو دینے والی چیز ہے،دنیا تو فانی ہے،وہ بھلا کسی کو کیسے بچا سکتی ہے...!!!!"

میں حیران وششدر بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا،بات کا رخ دوسری طرف مڑ گیا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھ سے یہ بات کرنے والی ہے..ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی ،ابھی پیغام باقی تھا،

"اور وہ کشتی...اس پر اللہ کی محبت،اس کی ذات پر تقوی اور ایمان سوارتھا،ہاں ایمان...!!،جس کشتی پر ایمان سوار ہو وہ کبھی ڈوب نہیں سکتی،نوح کی کشتی ڈوب نہیں سکی کیونکہ اس پر ایمان سوار تھا..."اس نے رک کر مجھے دیکھا اور بولی..."اب تمہیں پتہ چل گیا نا کہ اس پر کچھ اور سوار تھا...کچھ اور..."
میرا سر بے اختیار اثبات میں ہل گیا تھا...

"اب تمہیں بھی تمھارے سوال کا جواب مل گیا ہے نا!...ہےنا!...دنیا کبھی نہیں بچاتی ....بلندی کبھی کام نہیں آتی.."

میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا...وہ صحیح کہہ رہی تھی.....دنیا کی چوٹی. ...!!!! وہ چوٹی جس پر نوح کا بیٹا چڑھ گیا تھا...وہی چوٹی جو آج کل ہر کسی کا خواب ہے!...بلندی....بلندی...!!!

"دنیا کی چوٹی پر چڑھنے والے لوگ اللہ کی طاقت کو بھول جاتے ہیں..."وہ اپنی ہتھیلیاں سہلاتے ہوئے بار بار کہہ رہی تھی.."انہیں لگتا ہے دنیا انہیں بچا لے گی...انہیں لگتا ہے کہ دولت انہیں بچا لے گی...مگر ایسا نہیں ہوتا...."اس نے دھیرے سے سر اٹھا کر مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولی..،"ہر وہ کشتی ڈوب جاتی ہے جس پر ایمان سوار نہیں ہوتا...نوح کی کشتی پر ایمان سوار تھا اور دیکھو،ان کی کشتی اپنی منزل سے جا ٹکرائی....."

اپنی بات کے ختم ہوتے ہی وہ اٹھ کر اپنی جگہ پر چلی گئ..قلم ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اس نے مطلوبہ صفحہ کھولا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئ....اور میں...میں نوح کی کشتی میں کھو گیا تھا...وہ کشتی جس پر ایمان سوار تھا...وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی...دنیا کی بلند چوٹی پر چڑھنے والے اللہ کی طاقت کو بھول جاتے ہیں...اسی وجہ سے وہ تباہ ہو جاتے ہیں...اور ایمان کی کشتی کبھی ڈوب نہیں سکتی،اس پر سوار ہونے والے کسی نہ کسی دن اپنی منزل سے ٹکرا ہی جاتے ہیں......!!!!!
قلم:حسنی مہتاب

Husna Mehtab
About the Author: Husna Mehtab Read More Articles by Husna Mehtab: 4 Articles with 8171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.