معیشت کا ایک سالہ جائزہ

ایک سال کا عرصہ معاشی بہتری کے لئے کوئی بڑا عرصہ شمار نہیں ہوتا۔البتہ معیشت کی سمت متعین کرنے کے لئے اہم ہوتا ہے۔موجودہ حکومت کی اصل کارکردگی یہی ہے۔کہ وہ معیشت جس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔اسے Ownکرلیا گیا۔اس کے تمام اہم شعبوں پر توجہ دی گئی۔جن وجوہات سے معیشت آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔انہیں دورکرنے کی مخلصانہ کوششیں شروع کردی گئیں۔دہشت گردی اب ختم ہوتی ہوئی سب کوہی نظر آتی ہے۔مذاکرات سے کچھ وقت ضرور ضائع ہوا۔معیشت کے آگے نہ بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ انرجی کا بحران تھا۔یہ مسلۂ ایک سال میں حل تو نہیں ہوسکتا تھا۔لیکن اس میں بہتری کے لئے Circular Debtکو ختم کرنیکی کوشش ضرور ہوئی۔وقتی طورپربجلی کے حالات بہتر بھی ہوئے تھے۔لیکن بجلی چوری اور ادائیگیاں نہ کرنے کا مسلۂ ابھی بھی جوں کاتوں ہے۔ابھی بھی بجلی چوروں اور گیس چوروں پر طاقت ور ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔وصولیاں کرنے کے لئے ایک حکمت عملی سے آگے بڑھنا اور کام جاری رکھنا ضروری ہے۔گردشی قرضہ صرف ان دوکاموں کو کرنے سے ہی ختم ہوسکتا ہے۔بجلی پیدا کرنے کے لئے کوئلہ کے بہت سے Projectsکی بنیادیں رکھی جاچکی ہیں۔اور بلوچستان کے مقام"گڈانی"کے علاقے میں کوئلہ کے مزید 10۔پروجیکٹس کی بنیادیں جلد ہی رکھ دی جائیں گی۔اب تک داسو اور بھاشاڈیم کی باتیں ہی سنی جارہی تھیں۔لیکن اب داسو کے لئے عالمی بنک نے قرض کی پہلی قسط اداکردی ہے۔اور کام واقعی شروع ہوگیا ہے۔اگر اس پروجیکٹ پر لگاتار کام ہوتا رہا تو پانچ سال کے بعد یہاں سے4ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی۔بھاشا کے لئے ابھی بیرونی فنڈ تو نہیں ملے البتہ ملکی فنڈ سے ابتدائی کام شروع کیاگیا ہے۔بھاشا ڈیم کی تکمیل داسو کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے۔اگر انرجی کے ان تمام پراجیکٹس پر کام لگاتار ہوتارہا تو4تا6سال کے بعد بجلی کے مسلۂ میں کافی بہتری آجائیگی۔روپیہ کی قدر میں بہتری تمام لوگ ہی دیکھ رہے ہیں۔ڈالر کا ریٹ111روپے سے کم ہوکر 98روپے پر آگیا تھا۔اس میں سعودی عرب کی1.5۔ارب ڈالر کی امداد نے بڑا کام کیا۔یہ امداد اگرملی ہے تواس کا کریڈٹ جناب محمد نواز شریف کوجاتا ہے۔اس پہلے والی حکومت ایسا کوئی کام نہیں کرسکی تھی۔اب دھرنے کی وجہ سے ڈالر کا نرخ پھر زیادہ ہوگیا ہے۔ایک وقت موجودہ حکومت کے لئے ایسا بھی تھا کہ سابقہ قرضوں کی قسط اداکرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔IMFسے تیزی سے مذاکرات کئے گئے اور6.3۔ارب ڈالر کا Standbyقرض لیاگیا۔اور بیرونی ادائیگیوں کے قرض پرکافی حد تک قابو پالیاگیا۔زرمبادلہ کے ذخائر انہیں قرضوں اور امداد سے بڑھ گئے۔اسی وجہ سےMody,sنے ہماری رینکنگNegativeسےStableکردی۔بین الاقوامی طورپر ہماراImageکچھ بہتر ہوگیا۔اور جب ہم نے بین الاقوامی مارکیٹ میں یوروبانڈ پیش کئے تو فروخت میں کوئی مسلۂ پیش نہیں ہوا۔اور ہمیں2۔ارب ڈالر وصول ہوگئے۔انکی ادائیگی 7سال کے بعدکی جانی ہے۔وقتی طورپر حکومت نے بیرونی ادائیگیوں کا مسلۂ حل کرلیا۔لیکن ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ66۔ارب ڈالر ہوگیا۔عارضی سہولیات کی وجہ سے پاکستان قرض کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔اسے کوئی بھی اچھی صورت حال قرار نہیں دے سکتا۔ہمارا یہ قرض ابG.D.Pکے25فیصد سے بھی زائد ہوگیا ہے۔ملک کے اندر3Gاور4Gآئی ۔ٹی ٹیکنالوجی کے لائسنس فروخت کئے گئے۔یہ کام کافی عرصے سے ملتوی ہوتا آرہا تھا۔انٹرنیٹ اور موبائل سروس میں اب بہت سی مزید سہولیات حاصل ہوجائیں گی۔حکومت کو ان لائسنس کی فروخت سے تقریباًایک ارب ڈالروصولیاں اقساط کی شکل میں مل جائیں گی۔2014-15کا بجٹ بناتے وقت ایک اور بڑا فیصلہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں تقریباً3گنا اضافہ تھا۔رقم 40۔ارب سے بڑھا کر 118۔ارب روپے کردی گئی۔اور غریب عوام کے لئے وظیفہ50%بڑھا دیا گیا۔اب ہر ایک کو 1500روپے ماہانہ ملنے لگے ہیں۔تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔اگرچہ اس طریقہ سے نقد روپیہ کی تقسیم پرمعیشت دان کبھی بھی مطمعن نہیں ہوئے لیکن وقتی طورپر Reliefدیکر غریب عوام کی مشکلات گھٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔جن خواتین اور مردوں کی سرے سے آمدنی نہ ہوانہیں کچھ نہ کچھ ہرماہ مل رہا ہے۔خوراک کے لئے ماہانہ1500روپے ملنا ہی کافی سمجھا جائے گا۔سالانہ ترقی کا سب سے اہم اشارہ گروتھ ریٹ ہوتا ہے۔حکومت کے کہنے کے مطابق 2013-14میں4.1۔فیصد کے لہاظ سے معیشت آگے بڑھی ہے۔گزشتہ کئی سالوں کی نسبت یہ شرح کافی بہتر معلوم ہوتی ہے۔لیکن آزاد تحقیقاتی ادارے اس شرح کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اور گروتھ ریٹ سالانہ3.5۔فیصد کے قریب بتاتے ہیں۔حکومتی ادارے اپنے اعدادوشمار کوہی درست سمجھتے ہیں۔اس نقطہ نظر سے پاکستان کی معیشت میں کافی حرکت نظر آتی ہے اور 2014-15 میں شرح نمو کا تخمینہ5.1۔فیصد لگایا گیا ہے۔یہ تمام منظر کافی خوش کن نظر آتا ہے۔اور اگر ہم 6۔فیصد سالانہ شرح نمو دوبارہ حاصل کرلیں تو معیشت کو مستحکم کہاجانے لگے گا۔ایک اور شعبہ بجٹ خسارہ کم کرنے کا ہے۔کہاجاتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں بجٹ خسارہ8.2۔فیصد سے کم ہوکر 5.7۔فیصد پر آگیا ہے۔صدارتی ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کے بہت سے خرچے کم کئے گئے ہیں۔خفیہ فنڈ ختم کردیئے گئے ہیں۔تمام محکموں میں بچت کی وجہ سے بجٹ خسارہ واقعی کم ہوگیا ہے۔اگریہی رحجان رہاتو2سال بعد ہمIMFکے طے کردہ خسارے کے ٹارگٹ کو حاصل کرلیں گے۔ہونا یہی چاہیئے کہ قوم کو صرف اتنا خرچ کرنا چاہیئے جتنا وہ کماتی ہے۔FBRنے ٹیکس ڈائریکٹری شائع کرکے ایک اچھا کام کیا ہے۔اس سے ٹیکس اور ٹیکس دہندگان کے بارے کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ہمیں گزشتہ سال ٹیکسوں میں اضافہ حکومت کی طرف سے 16۔فیصد بتایا گیا ہے۔جبکہ اس سے پہلے سال اضافہ صرف3فیصد تھا۔لیکن یہ سال ایسا تھا جس میں الیکشن ہونے تھے۔اور بہت سے ٹیکس دہندگان کو رعائتیں بھی دی گئی تھیں۔ایک تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ6سالوں سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ہمارے بارے بین الاقوامی طورپر یہ بات کہی جارہی ہے کہ یہ قوم تو18 ۔کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔لیکن یہاں صرف اور صرف2%افراد ٹیکس اداکرتے ہیں۔باہرکے ممالک سے اگر قرض اور گرانٹ کی بات ہوتی ہے تو ان کی طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ اپنے امراء سے ٹیکس لیتے نہیں اور ہمارے لوگوں کی ٹیکس کی رقوم مانگنے آجاتے ہو۔یہ بات سن کر پاکستانیوں کو غیرت آنی چاہیئے۔اپنے وسائل زیادہ سے زیادہ اکٹھے کرکے ہی ہم حقیقی ترقی کرسکتے ہیں۔اور اگر کسی قوم پر بیرونی قرض66۔ارب ڈالرہوجائیں تو پوری قوم کو سوچناضروری ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کی معیشت2050ء میں عالمی رینکنگ میں اٹھارھویں نمبر پر آجائیگی۔لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان9۔فیصد سالانہ سے ترقی کرے۔ترقی کی یہ شرح تو اب چین میں بھی نہیں ہے۔9%سالانہ سے آگے بڑھنے کے پاکستان کے حالات ابھی نہیں ہیں۔اگر ہم 6۔فیصد سالانہ کی شرح نمو کو مستحکم اور پائیدار کرلیں تو ہمارے لئے یہ بڑی کارکردگی شمار ہوگی۔مہنگائی لوگوں کو بری طرح متاثر کررہی ہے۔پاکستان مسلم لیگ کے سال گزشتہ میں مہنگائی کی شرح8.6۔فیصد رہی جبکہ اس سے پہلے والے میں یہ7.4۔فیصد تھی۔اس لہاظ سے مسلم لیگ کا سال گزشتہ کوئی اچھی صورت حال پیش نہیں کرتا۔حکومت کو اس طرح بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔زراعت میں سرمایہ کاری سے ہی خوراک کی اشیاء سستی پیدا کی جاسکتی ہیں۔پانی،بیجوں کے نرخ اور کھادوں کے نرخوں پر کنٹرول ضروری ہے۔زراعت کےInputسستے ہونگے تو زرعی پیداواریں بھی سستی ہونگی۔کوئی ایسا نظام جس سے کاشتکار اور خوراک کے خریدار کے درمیان سے تمام لوگ ہٹ جائیں بننا ضروری ہے۔یہ آڑھتی اور کمیشن ایجنٹ مہنگائی کا سبب بن رہے ہیں۔مجموعی طورپر کہاجاسکتاہے کہ معیشت میں بہت بہتری تو نہیں آئی۔البتہ معیشت کی سمت بہتری کی طرف متعین کردی گئی ہے۔اگربہتری کی کوششیں آئندہ بھی جاری رہیں تو حالات کے مزید اچھا ہونے کا امکان ہے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 18 Articles with 12242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.