بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشیخ سالم الطویل حفظہ اللہ نے ایک دفعہ مسجد میں بیٹھے مسلمانوں سے پوچھا،
انکی تمام گفتگو کا مفہوم اردو ترجمہ:
طیب (اچھا): ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ مشکل نہیں. اللہ کا کیا
مطلب ہے؟
(مجلس میں بیٹھے لوگ خاموش ہیں)
کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ اے مسلمانوں آپ کو اللہ کا مطلب نہیں معلوم؟ اللہ کا
کیا مطلب ہے، اے مسلمانوں (اگر کسی خاص وقت میں) ایک کافر رکے اور کہے آپ
کس کی عبادت کرتے ہیں؟ آپ کہو گے: میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں. وہ پوچھے
اللہ کا کیا مطلب ہے؟ لفظ اللہ، اسکا کیا مطلب ہے ....؟
مجلس کے ایک حاضر نے کہا: الواحد، الاحد.
الشیخ کا جواب: الواحد، الاحد ہممم..
دوسرا بولا: یہ ایک مختصر جملہ ہے جو تفصیل بتاتا ہے جلالت کی.
الشیخ نے کہا: مختصر جملہ ہے جو تفصیل بتاتا ہے جلالت کی، اور اس مختصر
جملہ کی تعریف کیا ہے؟
ایک اور شخص بولا: لفظ اللہ مرکب ہے اللہ کے تمام ناموں کا.
الشیخ سالم الطویل نے کہا: اللہ کا کیا مطلب ہے؟
(مجلس کے حاضرین ایک مرتبہ پھر خاموش ہوگۓ)
الشیخ جاری رہتے ہوۓ: طیب (اچھا)، یہ آج کے فوائد میں ہے. اگر اگلے دس سال
تم کچھ بھی نہ سیکھ سکھو مگر یہ، پھر یہ تمہیں کافی ہے، یہ تمہیں کافی ہے
یہ جاننے کے لیے کہ اللہ کا کیا مطلب ہے.
(لفظ) اللہ کی ابتدا أل-إله (وہ معبود کے صرف جس کی سچی عبادت کی جاۓ) ہے.
اللہ اور أل-إله ایک ہی ہے. لفظ اللہ میں ہمزہ کو ختم کر دیا گیا تاکہ
آسانی سے ادا کیا جاسکے. تو لفظ أل-إله لفظ اللہ بن گیا.
تو جیسا کہ ایک بھائ نے پہلے کہا کہ لفظ أل-إله کا مطلب ہے کہ وہ ایک کے
صرف جس کی سچی اور قطعی عبادت کی جاۓ. تو ہم جانتے ہیں کہ اللہ کا مطلب ہے
کہ وہ واحد معبود کے جس کی سچی عبادت کی جاۓ.
الشیخ نے دوبارہ بولا: (لفظ) أل-إله میں ہمزہ کو ختم کر دیا گیا تاکہ آسانی
سے ادا کیا جاسکے تو (لفظ أل-إله) اللہ بن گیا. تو اللہ کا مطلب ہے وہ ایک
معبود جس کی سچی عبادت کی جاۓ. تو وہ ہی واحد معبود ہے جس کی سچی اور قطعی
عبادت کی جاتی ہے بغیر کسی کو اسکے ساتھ شریک کۓ.
الشیخ سالم الطویل کے قول کا عربی متن سننے اور ترجمہ کی تصحیح یا تصدیق کے
لیے اس ویب سائٹ پر جائیں:
www.youtube.com/watch?v=okL42hg7PPA
اللہ عزوجل نے فرمایا:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ
وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ
وَمَثْوَاكُمْ
ترجمہ و مفہوم:
سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے
گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی،
اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے
(حوالہ: سورہ محمد سورہ نمبر: ٤٧ آیت نمبر: ١٩)
ایک اچھا اور اضافی فائدہ میری طرف سے: جو لوگ عربی نہیں جانتے انکو یہ
بتانا ضروری ہے کہ عربی میں جس الف پر زبر، زیر یا پیش آ جاۓ تو اب وہ الف
نہیں رہا بلکہ اسے اب ہمزہ کہیں گے جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ قاری حضرات
بچوں كو ایسے پڑھاتے بھی ہیں تو لفظ أل-إله میں إله کی إ پر زیر ہے گویا یہ
زیر کی وجہ سے ہمزہ ہوئ. امید ہے سمجھ آگئ ہو گی، اگر سمجھ نہیں آرہی تو دو
یا تین دفعہ پڑھ لیں. اور اسی کی طرف شیخ محترم حفظہ اللہ نے ہمزه كہ كر
رہنمائ کی.
یہ بتانا ضروری ہے کہ بعض کبار علماء اور الشیخ سالم الطویل کے درمیان منحج
کے حوالے سے کچھ اختلاف ہے، اس لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر کوئ شخص منہج
کی پہچان رکھتا ہے تب ہی وہ الشیخ سالم الطویل سے علم اٹھاۓ اور حق جہاں سے
بھی ملے اسے حاصل کرنا مسلمان پر فرض ہے اور باطل کو چھوڑ دینا اور اس پر
رد کرنا بھی، اگر وہ علم رکھتا ہے، اور اگر علم نہیں رکھتا تو خاموش رہے
اور علم حاصل کرے اور جمہور علماء حق کے ساتھ چلے، واللہ اعلم. |