ایک آدمی درخت کے نیچے بیٹھا بڑے
عجیب و غریب انداز میں اﷲ میاں سے دعا مانگ رہا تھا کہ اے اﷲ مجھے سو روپئے
دے دے اور دیکھ اﷲ میں لوں گا تو سو روپئے ہی لوں گا ایک روپیہ بھی کم ہو
گا تو نہیں لوں گا یہ کہہ کر وہ آنکھ بند کر کے درخت کے تنے سے ٹیک لگاکر
بیٹھ گیا اتنے میں اس کے پاس ایک رومال کی تھیلی آکر گری ،دراصل اوپر درخت
پر ایک شخص بیٹھا اس کی یہ بات سن رہا تھا اسے ایک شرارت سوجھی اس نے اپنے
رومال میں 95روپئے باندھ کر نیچے اس کے پاس پھینک دیا اور یہ دیکھنے لگا کہ
یہ شخص جو پورے سو روپئے لینے کی ضد کررہا تھا اب کیا کرے گا ۔اس شخص نے
رومال کھولا تو اس میں 95روپئے تھے اس نے ایک جیب میں وہ رقم رکھی اور
دوسری جیب میں رومال رکھتے ہوئے کہا کہ اے میرے اﷲ تو بھی کتنا چالاک ہے کہ
رومال کے پیسے پہلے ہی کاٹ لیے ۔ہمیں یہ قصہ دراصل عمران خان کی اس ضد پر
یاد آیا کہ چاہے مجھے ایک سال تک کنٹینر میں بیٹھنا پڑے وزیر اعظم کا
استغفالیے بغیر نہیں جاؤ ں گا دوسری طرف سے جواب آتا ہے وہ چاہے پوری عمر
کنٹینر میں بیٹھے رہیں میں استغفا نہیں دوں گا ۔اب آگے کیا ہوگا عمران خان
نے کہا ہے کہ ہفتے کی شام تک ایمپائر کی انگلی اٹھ جائے گی ۔اس سے ان کی
کیا مراد اﷲ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ بعض عجیب وغریب باتوں کو
اﷲ نے پسند بھی کیا ہے اور بعض عجیب و غریب دعاؤں کو قبول بھی کیا ہے ۔حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے دور میں ایک چرواہا درخت کے نیچے بیٹھا اپنی بھیڑ کے
بچے کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اﷲ میاں کو اس طرح یاد کررہا تھا کہ اے
اﷲ تو اگر نیچے میرے پاس آجائے تو میں اس بھیڑ کی طرح تجھے نہلاؤں گا تیری
جوئیں نکالوں گا تیرے بالوں میں کنگھی کروں گا اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ
السلام کا اس کے پاس سے گزر ہوا اور انھوں نے اس کی بات سنی تو اسے ڈانٹا
یہ واقعہ جماعت اسلامی کے ایک پرجوش مقرر جناب مرحوم گوہر علی شاہ گیلانی
ایک جلسہ سیرت میں سنا رہے تھے انھوں نے لفظ ڈانٹا استعمال کیا میرے خیال
میں نبی کسی کو ڈانٹا نہیں کرتے انھوں نے اس کو سمجھایا ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ
کے بارے میں ایسے کلمات نہیں نکالتے وہ چرواہا سہم کر خاموش ہو گیا پھر جب
حضرت موسیٰ کوہ طور پر پہنچے تو پھر اﷲ میاں نے انھیں سمجھایا کہ بظاہر تو
وہ چرواہا عجیب و غریب باتیں کررہا تھا لیکن وہ اپنی ذہنی وسعت اور قلبی
کیفیت کے ساتھ مجھے یاد کررہا تھا تم نے اس کو میری یاد سے روک دیا ۔ اسی
طرح ہمارے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ عجیب و غریب
دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اﷲ مجھے اپنے شہر مدینے ہی میں شہادت کی موت عطا
فرما اور پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی جب وہ چاقوؤں کے وار سے
زخمی ہو کر گرے تو لوگوں سے پوچھا کہ مجھے مارنے والا کوئی مسلمان تو نہیں
تھا جواب ملا کہ نہیں وہ کافر تھا تو آپ نے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی
جان جان آفریں کے سپرد کردی ۔عمران خان کی یہ ضد کہ وہ وزیراعظم کا استغفا
لے کر ہی واپس جائیں گے بڑی عجیب و غریب بات لگتی ہے لیکن عمران خان اور
طاہر القادری کا اس طرح مستقل مزاجی سے بیٹھے رہنا کچھ چیزوں کی چغلی بھی
کررہا ہے بلا شبہ یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے یہ کیا پتا کہ دونوں فریقوں
کو کچھ نادیدہ قوتیں جان بوجھ کر دو انتہاؤں تک لے جارہی ہوں جب میں نے
جنرل راحیل کا یہ بیان پڑھا کہ افواج پاکستان آئینی حکومت کے طابع ہے تو
مجھے نہ جانے کیوں 3جولائی1977کی وہ دوپہر یاد آگئی جب بھٹو نے جنرل ضیاء
سے یہ پوچھا کہ میں نے سنا ہے آرمی ٹیک اوور کرنے والی ہے تو جنرل ضیاء نے
سینے پر ہاتھ رکھ کر رکوع کے انداز میں بھٹو صاحب کے سامنے جھکتے ہوئے کہا
کہ سر افواج پاکستان آئینی حکومت کے طابع ہے اور اسی دن شام کو بری بحری
اور فضائی افواج کے سربراہوں کا مشترکہ بیان ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہورہا
تھا کہ تینوں مسلح افواج کے ادارے آئینی حکومت کے طابع ہیں ۔لیکن پھر
5جولائی کے دن منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا ۔جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج
الحق کا یہ بیان بالکل ٹھیک ہے کہ اگر سیاسی مفاہمت نہیں ہوئی تو سب کو گھر
جانا ہو گا ۔گو کہ تمام سیاسی جماعتیں اس طرح کے استغفے کی مخالفت کررہی
ہیں لیکن سوائے جماعت اسلامی کے کسی سیاسی جماعت نے متبادل تجاویز پیش نہیں
کیں۔پی پی پی کے خورشید شاہ نے ایک راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ اگر
انتخابات میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر وزیر اعظم سے استغفا کا مطالبہ
کیا جا سکتا ہے یعنی وہ عمران کے مطالبات میں ترتیب کی تبدیلی چاہتے ہیں ،ویسے
بھی عمران خان ایک سال تک دھرنے کی بات کررہے ہیں لہذا اگر کچھ اس طرح کی
بات آپس میں طے ہو جائے کہ عمران خان کی تجویز کردہ چار سیٹوں پر انگوٹھوں
کے نشانات چیک کر لیے جائیں اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو ن لیگ پھر کسی اور
کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کردے یا پھر کوئی نگراں حکومت کا سلسلہ شروع
کیا جائے اور مڈٹرم انتخاب کی بات کی جائے اس کے بعد دھرنا از خود ختم ہو
جائے گا اس دفعہ ایک خطرہ یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کا آئین پوری مغربی دنیا
اور بالخصوص امریکا کو کھٹک رہا ہے کہ اگر یہ آئین رہے گا تو پاکستان میں
کسی وقت بھی اسلامی نظام آسکتا ہے لہذا کسی طرح اس آئین کو ختم کردیا جائے
اور اس کی ذمہ داری بھی بلکہ آئین کی بساط لپیٹنے کا الزام بھی سیاست دانوں
پر آجائے اس لیے بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم سے استغفے کا
مطالبہ غیر آئینی ہے اور دوسری طرف سے یہ آواز بھی اٹھ رہی ہے کہ یہ مطالبہ
آئینی مطالبہ ہے ۔عمران خان کی سیاست سے ہزار اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن
انتخابات کے حوالے سے ان کے مطالبات غلط نہیں ہیں ابھی تک حکومت نے اس
حوالے سے اپنا کوئی پلان پیش نہیں کیا ہے عمران خان نے نوجوانوں کو سیاست
میں فعال کیا مڈل کلاس طبقے کو ایڈریس کیا کسی حد تک ایمان دار فرد ہیں ان
کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ وہ لوگ جن کے پیسے امریکا اور مغربی ممالک کے
بینکوں میں رکھے ہیں وہ امریکا کے غلام ہیں وہ جب امریکی سفیر کو مخاطب کر
کے انگلش میں بات کررہے تھے تو جو امریکا کا یار ہے غدار غدار ہے کے نعرے
خود لگارہے تھے بلکہ انھوں نے یہ نعرہ تبدیل کیا اور کہا کہ جو امریکا کا
غلام ہے وہ غدار ہے اس لیے کہ ان کے پیسے امریکا میں رکھے ہیں یہ اپنے
پیسوں کے غلام ہیں ۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے عمران خان کو یہ کہنا چاہیے کہ
ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت بھی کچھ اپنے رویے میں لچک دکھائے
ویسے تو یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ اگلے ہفتے پرویز مشرف کو باہر بھیج
دیا جائے گا اور کوئی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت تشکیل دی جائے گی وہ اس
ملک میں دوبارہ انتخاب کرائے گی لیکن آئین کیا ہوگا اگر یہ آئین خدا نہ
خواستہ ختم ہو گیا تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا آیے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ
آئین پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمارے سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا
فرمائے ۔آمین |