اسلام عین فطرت کے اُصولوں پرمبنی ضابطہ حیات ہے جو انسان
کو حیوانوں سے مختلف زندگی بسر کرنے کی اہمیت اور طریقہ کار بتاتا ہے
۔حیوانات کیلئے حصول رزق کی کوشش میں سب جائز ہے جبکہ انسان کو ہر وہ ذریعہ
ناجائز ہے جو دوسروں کیلئے باعث تکلیف ہو ۔اسلام نے مثبت طور پر رزق کی جد
وجہد کی ترغیب دی اور اسے ہرمسلمان پر فرض کیا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا’’جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنی روزی کی تلاش سے غافل ہوکر
سوتے نہ رہو‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص دنیا کو جائز طریقے
سے حاصل کرتا ہے کہ سوال سے بچے اور اہل وعیال کی کفالت کرے اور ہمسایہ کی
مدد کرے تو قیامت کے دن جب وہ اْٹھے گا تو اْس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی
طرح روشن ہوگا۔‘‘اسلامی معاشیات کا ایک اساسی اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں
کیلئے معاشی سہولتیں فراہم کی جائیں،قدرت کے ودیعت کردہ وسائل کو ترقی دی
جائے،رزق کے مخزنوں کو چند ہاتھوں میں اِس طرح مرکوز نہ ہونے دیا جائے کہ
دوسروں پر اْس کے دروازے بند ہوجائیں،اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی
مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جد وجہد کے مساوی
مواقع فراہم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے،اسلام سب کو حصول رزق کے مواقع عطا
کرنے اور مثبت طور پر ایسی حکمت عملیاں بنانے کی تاکید کرتا ہے،جس سے غربت
وافلاس ختم ہو اور انسانوں کو اْن کی بنیادی ضروریات لازماً حاصل ہوں اور
اْن تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی
پر مبنی ہوں، اسلام محض افلاس، غربت، معیار زندگی کے گرنے کے خطرات اور قلت
وسائل کے غوغا ء سے انسان کشی اور نسل کشی کی پالیسی کی اجازت نہیں
دیتا،قرآن واضح تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’ تم اپنی اولاد کو افلاس کے
ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی اْن کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی،اْن کا مارنا
بڑی خطا ہے۔‘‘درحقیقت اسلام کا مزاج مغرب کی تمام معاشی تحریکات سے منفرد
اور جداگانہ ہے،وہ ہر فرد اور پوری اْمت کی توجہ کو معاشی وسائل کی ترقی
اور پیداواری امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مرکوز کرتا ہے،معاشرت
میں انصاف اور آزادی کے قیام کے ساتھ ساتھ غربت وافلاس کا انسداد کرکے بہتر
معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتاہے، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں رزق
حلال کی جتنی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہ اِس اَمر پر دلالت کرتی ہے کہ اسلام
کے معاشی نظام میں صرف جائز اور حلال رزق کے فروغ کے مساعی ہوں گی۔رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’کسی نے بھی اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے عمل
سے زیادہ بہتر طعام نہیں کھایا،اﷲ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ
سے کما کر کھاتے تھے۔‘‘ اسلام نے معاشی جد وجہد کو حلال وحرام کا پابند کیا
ہے،یہ ایک ایسا اصول ہے جس سے دور جدید کی معاشیات قطعاً نا آشنا ہے،اسلامی
معیشت میں صرف کی تکثیر کی جگہ اس کے انسب سطح کا حصول پیش نظر رہتا ہے اور
ایک حقیقی فلاحی معیشت ظہور میں آتی ہے،اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک
حرمت ربوا ہے جو معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے،اسلام میں سود کو اس کی
ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے اور اس کے لینے والے کو اﷲ اور اس کے رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے،درحقیقت اسلام نے تجارتی
اخلاقیات کا ایک ضابطہ پیش کیا ہے،اسلام تجارتی لین دین میں دیانت داری اور
خدا ترسی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اوراْن تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے
جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر مبنی ہوں،اسلام تجارت کے سلسلے
میں باہمی آزاد رضامندی کی تلقین کرتا ہے،تجارت کی بنیاد تعاون باہمی
پرہے،اس کے ساتھ ساتھ دیانت، جائز اور مباح کی تجارت،ذخیرہ اندوزی کی
ممانعت،اسراف کی بندش بھی عائد کرتے ہوئے کہتا ہے،’’کلوا واشربوا
ولاتسرفوا‘‘کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو۔اسلام دولت کے ارتکاز کو پسند
نہیں کرتا اوراِس بات کاا نصرام کرتاہے کہ مختلف معاشرتی،ادارتی،قانونی اور
اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور پورے معاشرہ
میں گردش کرے،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کے
مطابق اپنا مال اْن لوگوں میں تقسیم کرو جن کا حق مقرر کیا گیا ہے۔درحقیقت
اسلام جہاں معاشی ترقی کا خواہاں ہے،وہاں دینی،روحانی اور اخلاقی ہدایات کا
معلم بھی ہے،اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کر کے فلاحی نظامِ معیشت کا قیام
ممکن نہیں ہے،اسی لیے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ انسان حصولِ مال
کی خاطر شتر بے مہار بن جائے اورحلال و حرا م کا امتیاز ہی ختم کرڈالے،آج
اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ معیشت و
تجارت کے بارے میں اسلامی احکام پر عمل کر نے سے ہمارا سار اکاروبار ٹھپ ہو
جائے گا اور ہم معاشی اعتبارسے بہت پیچھے رہ جائیں گے،مگر وہ یہ بھول جاتے
ہیں کہ حقیقی اور دیرپا ترقی کیلئے تجارتی سرگرمیوں کو مناسب اُصول و ضوابط
کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے، اقتصادی ماہرین کے نزدیک ہمارے
موجودہ معاشی واقتصادی بحران کا بنیادی سبب معاشی سرگرمیوں کا اخلاقی قیود
اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے اگر یہ ناقدین اسلام کے تجارتی احکام
کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیں توخودگواہی دیں گے کہ اسلامی طریقہ تجارت میں
شتر بے مہار آزادی،ہوس،مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول کرنے کاشاندار
نظام اور طریقہ کار موجود ہے جو معاشرے کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرتا ہے
اور معاشی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کو روکتا ہے،آج بھی ہم اپنی تجارت
و معیشت کو اسلام کے ان جامع اصولوں کی روشنی میں صحت مند بنیادوں پر
استوار کرایک مضبوط و مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں،یاد رکھیں جب تک
کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اصول و ضوابط کے پابند نہ ہو
ں،اْس وقت تک اس معاشرہ کی منصفانہ تشکیل ممکن نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ سے
دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق و طاقت
عطا فرمائے اور رزق حلال کے حصول میں آسانیاں عطا فرمائے(آمین) |