ٓٓٓٓٓٓٓٓٓذرّہ نا چیز(انسان ) کی بقا و دوام کا راز
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
ارشاد باری تعالیٰ
ہے(ترجمہ)’’اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہے حق کے ساتھ
پیدا کیا ہے‘‘(الحجر پ۱۴) مقصد یہ ہے کہ کائنات اور اسکی تما م چیزیں
بتقاضائے حکمت پیدا کی گئی ہیں اور کوئی چیز حتی کہ ایک ذرہ بھی بے کار
پیدا نہیں کیا گیا اور ہر چیز حق کے ساتھ قائم ہے کیونکہ بغیر کسی ضرورت
اور مقصد کے نہ تو کوئی چیز بنائی جاتی ہے اور نہ ہی ایجاد کی جاتی ہے اور
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایجاد اس مقصد کو پورا نہ کرے جس کیلئے اسے بنایا
گیا ہے تو وہ عملاً بے کار ثابت ہوتی ہے اور اسکی حیثیّت ختم ہو جاتی ہے۔
کیونکہ اسکا وجو د اور اسکی تخلیق کا محرّک ہی ضرورت ہے اگر ضرورت نہ ہوتی
تو ایجاد کبھی نہ ہوتی وہ ضرورت اس ایجاد کیلئے گویا ایک محل (ٹھہرنے کی
جگہ) اور مستقر(قرار پکڑنے کی جگہ) ہے کہ جس سے اس ایجاد کا وجودقائم ہے۔
اس بات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’کائنات کی ہر چیز اور ہر ذرّہ حق کے
ساتھ وجود میں آیا ہے اور اس حق کے ساتھ(یعنی اپنے مقصدتخلیق کو پورا کرنے
میں ) ہی اس ذرّہ کی بقا ہے اور اگر حق سے ذرّے کا تعلّق ختم ہو جائے (یعنی
اپنے مقصد کو پورانہ کرے) تو وہ ذرّہ بھی ختم ہو جاتا ہے‘‘۔
’’حق اور ذرّہ‘‘ کی مختصر تشریح یہ ہے کہ ذرّہ سے مرادوہ تمام اشیاء ہیں
جنھیں کسی خاص مقصد کے تحت تخلیق یا ایجاد کیا گیا ہے یعنی ایک اکائی،
فرداور مخلوق اور ’’حق‘‘ سے مراد انکا مقصد تخلیق ہے۔یعنی کوئی چیز بھی ہو
جاندار یا بے جان، اسے جس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اسے پورا کرنا اسکا حق
ہے اور اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس مقصد کو پورا کرے اور اگر ایسا نہیں
ہوگااوراس چیز کا تعلق اپنے ’’حق‘‘ سے ٹوٹے گا تو وہ چیز بے کار ثابت ہو گی
اور ختم ہو جائے گی۔
یہ بات اگرچہ باآسانی سمجھ میں آتی ہے مگر پیش نظر مضمون میں اسے ایک
تکنیکی مثال ’’دودو کے نظام‘‘ سے واضح کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اللہ تبارک و تعالیٰ جو کہ فرد مطلق، واحداور وتر ہے اپنی ذات سے تنہا قائم
و دائم ہے اور اپنے قیام و بقا میں کسی اور کا محتاج نہیں چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے’’ آُُ پ فرما دیجئے وہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس
نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اسکی برابری کرنے والا
ہے‘‘۔(الاخلاص پ۳۰) اوراللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا جتنی بھی مخلوقات ہے وہ
کم از کم دو اشیاء یا دو اکایوں (روح اور جسم )سے ملکر وجود میں آئی ہے ۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ وہی اللہ ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا
کئے‘‘(الزخرف پ۲۵) اور فرمایا’’ تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی
بنائیں‘‘(۵۱۔۴۹) جوڑے کو عربی زبان میں زوج کہا جاتا ہے لغت کے مطابق زوج
کا معنی ایک شئی کا دوسری کے ساتھ ملنا اور مرکب ہونا ہے، جن حیوانات میں
نر و مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج ہے ان آیات میں اس
بات پر تنبیہ ہے کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض، مادہ و صورت میں مرکب ہیں
نیز ذات باری تعالیٰ فرد مطلق ہے علاوہ ازیں روئے عالم کی تمام چیزیں زوج
ہیں۔( المنجدو مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی)
ازواج کے با ہم مرکّب ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ یا تو ایک شئی کی بقا کا دارو
مدار د اپنے دوسرے حصّے کے ساتھ ہوتاہے یا دونوں ملکر ہی کوئی مقصد پورا
کرتے ہیں یا کوئی نئی شے وجود میں آتی ہے۔مثلاً نر جب مادہ سے ملتا ہے تو
افزائش نسل ہوتی ہے، اسی طرح بے جان اشیاء جب ایک دوسرے سے مرکب ہوتی ہیں
یا جوڑ کھاتی ہیں تب کوئی نئی شئی بنتی ہے۔
مثلاً کسی بھی مشینری کو لیجئے اسکا ہر پرزہ دوسرے سے مربوط اور پیوستہ
ہوتا ہے اس طرح باہم جڑنے سے ہی مشینری وجود میں آتی ہے، پھر ہر مشینری
اپنی باڈی میں فٹ ہوتی ہے مشینری بغیر باڈی یا باڈی بغیر مشینری (انجن )کے
بے کار محض ہے مثلاًموٹر سائکل، کار ، بس یا ہوائی جہاز کی باڈی وغیرہ،یہ
دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اسی طرح ایک چیز میں ’’ دو کا
نظام‘‘ موجود ہے۔
مثال کے طور پر روح اور جسم، مادہ و صورت، جوہر و عرض وغیرہ، بلکہ دنیا کی
پیدائش بھی دو چیزوں یعنی زمین و آسمان کے ملاپ سے وجود میں آئی چنانچہ
فرمان الٰہی ہے(ترجمہ)’’اور اللہ نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑ دئے اور
اس میں برکت رکھ دی اور اس میں رہنے والوں کی غذاؤں کی تجویز اس میں کر دی
چار دن میں ضرورت مندوں کیلئے یکساں طور پر پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا وہ
دہواں سا تھا پس اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا تم دونوں خوشی سے آؤ یا نا
رضا مندی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں‘‘۔(حم السجدہ پ۲۴)
تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ ان دونوں(آسمان
و زمین)کے ملاپ سے دنیا بسائے خواہ اپنی طبیعت سے ملیں یعنی اپنی رضا مندی
سے یا زبردستی کرنے سے بہر حال دونوں کو ملا کر ایک نظام بنانا تھا اور
دنیا بسانی تھی۔ وہ دونوں آ ملے اپنی رضا مندی سے، آسمان سے سورج کی شعا
آئی، گرمی پڑی ہوائیں اٹھیں ان سے گرد و بھاپ اوپر چڑھی پھر پانی ہو کر
مینہ برسا جس سے زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔(تفسیر القرآن از
علاّمہ شبّیر احمد عثمانی)
لہٰذا آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں گے اور جس چیز کو بھی چیک کریں گے اس
میں’’دو‘‘ کا نظام موجود پائیں گے اس حیثیّت سے کہ اگر ایک نہ ہوگا تو
دوسرا بھی نہ ہوگا جب دو چیزیں یا دو اکائیاں آپس میں ملیں گی تو’’ ایک
چیز‘‘ وجود میں آئے گی جیسے روح اور جسم کی مثال ہے۔
اس دو دو کے نظام کو بیان کرنے کا اصل مقصد ضرورت و ایجاد کے مفہوم کو واضح
کرنا ہے یہ دو اکائیاں یا دو حصّے گویا ’’روح اور جسم‘‘ ہیں اور ایک کا
وجود دوسرے کیلئے حق اور اٹل ہے کہ اگر صرف ضرورت ہوگی اور ایجاد نہ ہوگی
تو ضرورت پوری ہو نہیں سکتی اور اگر ایجاد تو ہو مگر وہ اپنی ضرورت کو پورا
نہ کرے تو وہ بے کار محض ہے اور کسی کباڑ خانے میں پھینک دینے کے قابل ہے۔
بعینہ یہی صورت حال انسا ن کی ہے اور اس مضمون میں ایک اکائی یا ذرّہ سے
خاص طور پر انسان مراد ہے اور ’’حق‘‘ سے مرا د اسکا مقصد حیات ہے جو عبادت
خداوندی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ میں نے جنّون اور انسانوں کو اس لئے
پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی
یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں اللہ تبارک و تعالیٰ ہے رزق دینے والا
زور آور اور غالب‘‘۔()
دنیا میں عبادت کے بہت سے طریقے رائج ہیں کچھ لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں تو
کچھ لوگ آگ کو اپنا خدا اور حاجت روا جانتے ہیں، مگر عبادت وہ قابل قبول ہے
جو دین اسلام کے مطابق کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے تو وہ اس
سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص روز آخرت خسارہ پانے والوں میں ہو
گا‘‘۔
لہٰذا انسان کو ایک ضرورت (عبادت خداوندی) کے تحت تخلیق کیا گیا ہے اور
عبادت و انسان گویا روح اور جسم کی مثال ہیں کہ اگر ایک نہ ہوگا تو دوسرا
بھی نہ ہوگا۔یعنی انسان تو ہے مگر وہ اپنے مقصد حیات کو پورا نہیں کرتا تو
وہ یقینی طور پر ختم ہو گا اور ختم ہونے سے مراد یہ نہیں کہ وہ مر جائے گا
بلکہ جب وہ اپنی طبعی عمر گذارے کے بعد اس دنیا سے جائے گا تو اسے وہاں ایک
ایسی زندگی کا سامنا کرنا پڑے گا جو موت سے زیادہ بد تر اور تکلیف دہ ہوگی
وہ موت کی تمنا کرے گا تا کہ اس صورت حال سے جان چھوٹ جائے مگر موت نہیں
آئے گی۔ اس کے بر عکس جو لوگ دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں گے انھیں
موت کے بعد حیات دائمی عطا ہو گی اور ایسی ایسی نعمتیں دی جائیں گی جس کا
تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اس ذرّہ نا چیز (انسان کو چاہئے کہ وہ
اپنی ہستی کی بقا و دوام کیلئے اپنے آپ کو اپنے ’’حق‘‘ دین اسلام سے وابستہ
رکھے اور اپنے مالک حقیقی کی عبادت میں کسی قسم کی کمی کوتاہی نہ کرے۔ |
|