تیزسی تلوار سادہ سا قلم ،بس یہی دو طاقتیں ہیں بیش و کام
،جب پانچویں جماعت میں تھا سات سکولوں کے اساتذہ اور طلبہ نے ایک تقریری
مقابلے کا اہتمام کیا ، ایک بزم ادب سجائی میرے استاد محترم نے مجھے تلاوت
قرآن مجید اور تقریری مقابلے میں شرکت کے لئے نامزد کیا ،تلاوت قرآن مجید
میں فسٹ پوزیشن حاصل کی جبکہ تقریری مقابلے میں سیکنڈ پوزیش میری تقریر کا
عنوان تھاـ" تیزسی تلوار سادہ سا قلم"میری زندگی کے قیمتی سال بیت چکے ،آج
بھی سوچنے پر مجبور ہوں ،قلم اٹھاؤں کے تلوارکبھی سوچتا ہوں قلم طاقتور ہے
،پھر خیال آتا ہے نہیں تلوار ،میرے ملک کے لکھاری سچ اور جھوٹ ، حق اور
باطل ،اقتدار اور اپوزیشن ،اپنی عزت اور عوام کی نظروں میں ذلت سے محفوظ
رہنے کے لئے حق لکھتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں
سوائے چند ایک کے حکومتی ایوانوں سے لفافے لینے کے ملزم بھی بن چکے ہیں
،میرے ملک کے عوام باشعور ہونے کے باوجود جسکی لاٹھی اسکی بھینس کی چکی میں
پسنے پر مجبور و لاچار دکھائی دیتے ہیں ،میرے ملک کا انصاف حکومت کی لونڈی
بن جانے کی وجہ سے ہر شخص اپنی عزت اور عزت نفس بچانے کی فکر میں لگ گیا
ہے،ایک روائت کے مطابق ـ"جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے" آج بھی
بیشک جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے والے بیشمار لوگ موجود ہیں ،سادہ سا
قلم اپنا کام کرتا دکھائی دیتا ہے ،تیز سی تلوار زنگ آلود ہو جانے کی وجہ
سے ، بے شمار برائیوں میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے ،قتل عام ، چوری ، ڈکیتی
، زنا،ظلم کابازار گرم ہے ،ملک میں انصاف نہیں ملتا ، ملتا ہے تو اتنی دیر
سے ملتا ہے کہ انصاف کا متقاضی صعوبتیں جھیل جھیل کر اپنے خالق کے حقیقی سے
جا ملتا ہے ،اگر کوئی انصاف کے لئے خودتلوار اٹھائے دہشت گرد ، شدت پسند
،اگر کوئی سادہ سے قلم کا سہارہ لیکر انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھائے
، تھانہ ، سول کورٹ ، سیشن کورٹ ، سپریم کورٹ ، ریونیو بورڈ زندگی کے آیام
ختم ہو جاتے ہیں،جسم کی طاقت برقرار رکھنے کے لئے نوالے ختم ہوجاتے ہیں ،
لیکن انصاف حاصل کرنے کا پراسس ختم نہیں ہوتا،افسوس کے میرے ملک میں آئین
کا مسودہ تو بن گیا ہے ، اسکی تمام شقوں کا اطلاق نہیں ، بلکہ حکمرانوں کی
ضروریات اور چاہت والی شقوں کا بوقت ضرورت نافذ العمل بنایا جاتاہے جبکہ
عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے موجود شقوں کو یکسر نظر انداز کیا جارہا
ہے جسکی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہوا دکھائی دیتاہے ،انصاف
نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں ،منصف کے دامن کو حکمرانوں کے
شکنجوں نے داغدارہونے پر مجبور کردیا ہے ،لوگ سادہ سا قلم استعمال اور اپنی
آواز کو بلند کرکے منصف وقت کو پکار پکار کر تھک چکے ہیں ،منصف وقت اپنے
خاندان کی حفاظت کی زنجیروں میں جکڑا ہو اہے کون جانے اسکی مجبوریاں ، اسکے
خاندان کے لوگ اغوا ہ ہوچکے ، بقیہ فیملی کے لوگ کیسی کرب کی کیفیت میں ہیں
کون جانے کے انصاف کی آواز بلند کرنے والے کے گلے میں کوئی شیشے کی گولی
ڈال دی گئی ہو جو اسکی آواز بلند نہیں ہونے دیتی ، جس نے منصف کی تلوار کو
زنگ آلود کر دیا ہو ،سادہ سی قلم کی طاقت عوام آزما چکے ، صبر آزما چکے ،
ڈر ہے کہ عوام کو اگر انصاف نہ دیا گیا ایسا نہ ہو ،
تیز سی تلوار سا دہ ساقلم بس یہی دو طاقتیں ہیں بیش و کام ، آدمی کی زندگی
انہی سے ہے قوم کی تابندگی انہی سے ہے ،
جو نہیں ڈرتا قلم کی مار سے ، ہم اسے زیر کرتے ہیں تلوار سے ،
یہ انصاف کی تلوار کہیں عوام کے ہاتھ میں نہ چلی جائے
|