بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارتی ریاست اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں ہندو مسلم فسادات کو ایک برس
گزر چکا ہے لیکن تاحال وہاں حالات معمول کے مطابق نہیں آسکے ہیں۔ ہندو
انتہا پسند بھارت کی دیگر مختلف ریاستوں کی طرح مظفر نگر میں بھی’’لو
جہاد‘‘ یعنی مسلم نوجوانوں کی طرف سے ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی مبینہ
مہم چلانے کے الزامات لگا کر فسادات برپا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
گذشتہ برس اگست کے آخری ایام میں پھوٹنے والے فسادات میں ستر سے زائد
مسلمان شہید ہوئے اور ایک لاکھ سے زائد افرادنے اپنے گھر بار چھوڑ کر وہاں
سے ہجرت کی اور مدرسوں، اسکولوں، عیدگاہوں اور دیگر مقامات پر ڈیرے ڈالنے
پر مجبورہوئے۔مظفر نگر فسادات سے متاثرہ ہرشخص اپنے سینے میں ظلم کی ایک
الگ داستان چھپائے بیٹھا ہے۔ مظلوم مسلمانوں میں سے کوئی اپنے بیٹے کو
کھوچکا ہے تو کئی مائیں ایسی ہیں جن کی جوان بیٹیوں کوہندو انتہا پسند
زبردستی اغواء کر کے لے گئے۔کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل پر آنسو بہارہی ہے
تو کسی کا جوان بیٹا چھن گیا ہے۔ہزاروں مسلمانوں کے اثاثے لٹ گئے۔ درجنوں
شیر خوار بچے چھین کرانہیں والدین کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ہزاروں مسلمان
تاحال فساد متاثرہ کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں اور کسی صورت اپنے گھروں کو
واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔یہ فسادات ہندو انتہا پسند جاٹوں اور
مسلمانوں کے درمیان ہوئے تھے اور ریاست میں سماجوادی پارٹی کی حکومت نے
سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ مرنے والے زیادہ تر مسلمان تھے‘تب سے یہ الزام
بھی گردش کر رہا ہے کہ فسادات ایک منظم منصوبہ بند ی کے تحت کرائے گئے اور
ان کا مقصد پارلیمانی انتخابات سے قبل مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانا
تھا۔یہ بات اس لحاظ سے حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیم
بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے جلسوں میں نہ
صرف ان فسادات کے مجرم سنگیت سوم اور سریش رانا جیسے مقامی لیڈر شریک ہوتے
رہے ہیں بلکہ انہیں اسٹیج پر بلا کر باقاعدہ گلپاشی کی جاتی رہی ہے‘ آگرہ
جلسہ کے دوران بھی یہی کچھ کیاگیا تھااور اب تو صورتحال یہ ہے کہ مظفر نگر
فسادات کے ذمہ دار سنگیت سوم کو زیڈ پلس سکیورٹی بھی فراہم کر دی گئی ہے جس
پر بھارتی سیاسی ، سماجی اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا ہے
بہرحال بی جے پی فسادات کے بعد سے مسلسل ہندو انتہا پسند جاٹوں کی سرپرستی
کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آ ج تک مظفر نگر فسادات کے اصل مجرموں کو گرفتار
نہیں کیا گیا جب کبھی مسلمانوں کے شدید احتجاج پر پولیس مجرمو ں کی گرفتاری
کیلئے جاٹوں کے گاؤں کا گھیراؤ کر تی ہے وہ پولیس کو مار بھگاتے ہیں اور
اہلکار بھی محض کاغذی کاروائی کر کے واپس آجاتے ہیں وگرنہ ایسا کیسے ممکن
ہے کہ پولیس گاؤں میں داخل نہ ہو سکے اور مجرموں کو حراست میں نہ لیا جا
سکے۔ بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست اترپردیش سیاسی اعتبار سے انتہائی
اہمیت کی حامل ہے اس لئے یہاں خاص طور پر ہندو مسلم فسادات کروانے اور ایک
خاص قسم کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مظفر نگرفسادات کے
دوران ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے پولیس کی سرپرستی میں نہ صرف گھروں میں
لوٹ مارکی گئی بلکہ والدین کے سامنے ان کی معصوم بچیوں کی اجتماعی عصمت دری
کے دل دہلا دینے والے واقعات بھی پیش آئے جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا
ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرح دنیا بھر میں ہندو مسلم فسادت کے حوالہ سے
چشم کشا رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن معصوم بچوں اور عورتوں سمیت مسلم
نوجوانوں اور بوڑھوں پر بدترین مظالم ڈھانے والے چونکہ ہندو ہیں اس لئے
کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔ کسی مسلمان ملک میں چھوٹا سا کوئی واقعہ
ہوجائے تو طوفان بپا کر دیا جاتا ہے مگر بھارت میں ہونے والے ان فسادات پر
کبھی اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر حقوق انسانی کے عالمی اداروں
کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بھارت میں مسلمانوں کو قدم قدم پر
پریشانیوں کا سامناہے۔ تعلیم و صحت کے میدان میں وہ سب سے پیچھے ہیں۔
عبادات میں ان کو آزادی نہیں ہے۔ ہندو انتہا پسند سرکاری دفاتر سمیت چوکوں
و چوراہوں میں بھی زبردستی مندر تعمیر کر رہے ہیں اور اس حوالہ سے سرکاری
سرپرستی میں بھر پور مہم چلائی جارہی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے نئی مساجد
تعمیرکرنا تو درکنار‘ جو پہلے سے بنی ہوئی ہیں ان کا تحفظ کرنا بھی انتہائی
مشکل ہوچکا ہے۔ بی جے پی، کانگریس اور دیگر تنظیمیں ایک دوسرے سے بڑھ کر
مسلم دشمنی کا مظاہرہ کر کے ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتی
رہی ہیں۔کچھ عرصہ قبل کینیڈا کی معروف سماجی لیڈرکرکیٹرین لاروچ کی قیادت
میں بھارت آنے والی ایک ٹیم نے مظفر نگر فسادات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ
کیا اورحالات کا بغور جائزہ لینے کے بعدہندو انتہا پسندوں کے ملوث ہونے کا
اقرار کیا اور کہا ہے کہ یہ فسادات انسانیت کو شرمسار کردینے والے تھے۔ ان
فسادات میں مسلمان ہی نہیں بلکہ انسانیت مری ہے۔ مذکورہ سماجی ورکرکا تعلق
مونٹیریل یونیورسٹی کینیڈا سے تھا اور وہ مظفر نگر فسادات کے حوالہ سے
ریسرچ بھی کر رہی ہیں۔ان کے دورہ کے دوران مسلم وائس آف انڈیاکے رہنمااور
مقامی صحافی بھی ہمراہ تھے۔اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سیاست
کی وجہ سے پہلے اس قسم کے حالات پیدا کئے جاتے ہیں، عوام کو مشتعل کیا جاتا
ہے ، اور پھر فساد رونما ہوتا ہے جس کا فائد ہ سیاسی لوگ اٹھاتے ہیں جو
انتہائی شرمناک پہلو ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں اس بات کو تسلیم کیاجاچکا
ہے کہ یہ فسادات ایک جعلی ویڈیو کی بنیاد پر برپا کئے گئے اور مسلمانوں کے
خون سے ہولی کھیلی گئی جس کی ذمہ دار اترپردیش حکومت ہے جس نے لوگوں کے جان
ومال کے تحفظ کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے
بھارت میں ہزاروں مسلم کش فسادات میں لاکھوں کی تعداد میں نہتے اور بے گناہ
مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہا ہے لیکن ہزاروں قاتل درندوں کو ہمیشہ
بھارت میں برسر اقتدار طبقہ کی مکمل مدد و حمایت حاصل رہی ہے۔ پچھلے ادوار
کی طرح آج بھی جن ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے
ہیں وہ کھلے عام بے خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں۔مظفر نگر فسادات کو ایک سال
گزر چکا ہے لیکن وہاں ابھی تک حالات سخت کشیدہ ہیں اور ہندو انتہا پسند ایک
بار پھر وہاں فسادات کی آگ بھڑکانے کی خوفناک سازشیں کر رہے ہیں۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ مسلم ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھارت سرکار پر
دباؤ بڑھائیں کہ وہ سرکاری سرپرستی میں فسادات بھڑکانے کا سلسلہ بند کریں
تاکہ بھارتی مسلمانوں کی عزتیں اور ان کے جان و مال محفوظ ہو سکیں۔ |