’’کتائب القسّام‘‘
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
قرونِ وسطیٰ میں صلیبی جنگوں سے
لے کر موجودہ زمانے سمیت ’’امہ‘‘اغیار کے گوں نا گوں حملوں کی زد میں
ہے،سازشوں پے سازشیں اس پر مستزاد ہیں،مشرقِ بعید سے لے کر مغربِ عربی میں
مراکش اوریورپ میں اسپین وپرتگال تک امہ سے عداوتوں کی نہ ختم ہونے والی
ایک المناک ،خوفناک اوراندوہناک طویل ترین داستاں ہے،نیزداخلی سطح پرباہم
دست وگریباں رکھنے کیلئے دشمنوں نے اہل ِاسلام میں وطنیت، قومیت،لسانیت
اورمسلکیت و فرقہ واریت کے بڑے بڑے پائیدار اور مستحکم بُت بھی بنارکھے
ہیں،اور اب جمہوریت ،شورائیت اور بادشاہت کے علاوہ اسلام بطورِ دین یا بطورِ
نظام کے عنوانات سے نئے نئے ایسے نزاعات ان میں کھڑے کئے جارہے ہیں ،کہ ایک
طرف یہ مسلمان اپنے دین سے دور ہوں ،تو دوسری طرف یہ قرآن وسنت اور اپنے ہی
اسلاف کی تعلیمات کے بجائے ،غیر ضروری یا محض دنیاوی فکر و نظر کو اس قدر
اپنائے رکھے ،کہ اس پر مر مٹنے کے لئے تیار ہوں، چنانچہ اسی تشتت وتفرق میں
آج ہم پوری امہ اپنوں سے بر سرِپیکار، اغیار کے اشاروں کے منتظرہیں،
اور’’کل حزب بمالدیہم فرحون‘‘ یعنی ہرایک گروہ اپنی اپنی فکری متاع پر
شاداں وفرحاں کے مصداق ہیں،بدقسمتی سے پاکستان کی حالیہ صورتِ حال اس پر
شاہدِعدل ہے۔اُدہر خارجی سطح پرصلیبی جنگوں کے زمانے سے جگہ جگہ اغیار چیرہ
دستوں نے لشکرکشیاں کیں،خون خرابے کے بازار گرم کئے،باالآخرترکی خلا فت کے
’’مردِبیمار‘‘کا گلا گھونٹ کر اس کو دفن کرنے کے بعد عالم اسلام میں چھوٹی
چھوٹی اور کمزور کٹھ پتلیاں قائم کیں،اندلس ومضافات کی طرح کچھ مسلم ممالک
سے تو مسلمانوں کانام ونشان مٹانے میں وہ کامیاب ہوگئے،اور اسلامی ہند کے
مانندکچھ میں ایسا تو نہ کرسکے البتہ ایسے علاقوں میں
برطانوی،فرانسیسی،ولندیزی اور روسی وغیرہ استعمارات قائم کرکے انہیں غلام
بنانے میں ان خونخوار طاقتوں نے کامیابی حاصل کی، ان ہی وجوہات کی وجہ سے
اجتماعی کے بجائے انفرادی طورپرسلطان ٹیپواور بعض مسلم حکمرانوں نے اپنے
اپنے ملکوں میں غارتگر دشمن کامقابلہ کیا،بعض ملکوں میں عامۃ المسلمین نے
اپنے طورپر جہادوقتال کا پرچم بلندکیا،جبکہ اغیار کے سازشی چالوں میں پھنسے
ہوئے بہت سے مسلم حکمرانوں نے دشمن کے کہنے پرشروع دن سے ان مجاہدین کے
خلاف کریک ڈاؤن کیا،انہیں پکڑپکڑ کے یاتو جیلوں میں ڈالا،یا پھر دشمنوں کے
حوالے کیا،اور آخر کار جب مجاہدین کا خوف ختم ہوا، تو ان مستعمر قوتوں نے
بڑے آرام سے ان کٹھ پتلیوں کاقلع قمع اوربعد میں نسلی تطہیرکرکے ان علاقوں
کو اپنے زیرنگیں کیا،اسپین میں یہی ہوا،بھاگتے ہوئے غرناطہ کی ایک پہاڑی پر
سے جب ہسپانیہ کے آخری بادشاہ ابو عبداﷲ نے اپنے آباء واجداد کے عالی شان
محلات پر نگاہ ڈالی اور رونے لگا ،تو اس کی ماں نے اسے ایک زوردار تھپڑ اس
لئے رسید کیا،کہ جس مملکت کووہ اپنی نالائق تدبرِسیاسی سے نہ بچاسکا ،کیا
اب وہ اسے اپنی آہ وبکاء سے بچاسکے گا۔ بہر حال اغیار کا یہ کشت وخون اور
اس کے رد عمل میں جہادو مجاہدین کاسلسلہ عرصۂ دراز سے جسد اسلامی میں چل
رہاہے ،زمان ومکان کے اختلاف وتنوّع سے بچ بچاتے اوراس کی تفصیلات میں جائے
بغیر، ہم یہاں اس وقت فلسطین کی شہرۂ آفاق جہادی تنظیم’’ کتائب القسام‘‘ کی
اسرائیلی بربریت کے مقابلے میں پچھلے دنوں فتح مبین کے اس مبارک موقع پر
بہت مختصر سی روشنی ڈالنا چاہیں گے۔
’’کتائب عزالدین القسّام‘‘ تحریک حماس کی وہ عسکری اورجہادی ونگ ہے، جس نے
پوری دنیا میں یہودیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اسرائیل اور
صہیونیت ان پر ایک معاشی اور اخلاقی بوجھ ہے،گذشتہ دنوں اسرائیلی ایئرپورٹز
میں بھاگنے والے یہودیوں کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی،جہازوں میں
بکنگ کے لئے قطاریں لگ گئی تھیں،ہزاروں یہودی، فلسطینی میزائیلوں کے خوف سے
اپنے گھربار اور عزیزمال ومتاع چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی ملکوں کی طرف دم
دباکر رواں دواں تھے،ان کے حوصلے اس لئے بھی انتہائی پست ہوچکے تھے کہ
انہیں نیتن یاہو حکومت کا یہ جھوٹ نظر آرہاتھا کہ اسرائیل بم پروف اور
میزائیل پروف ہے،کیونکہ القسام کے سینکڑوں میزائیل رات دن ان کے شہروں اور
فوجی تنصیبات پر برستے دکھائی دے رہے تھے،جبکہ ان کے مقابلے میں فلسطینی
شہریوں کے حوصلے بہت بلند تھے،وہ دیکھ رہے تھے کہ القسام ایک ایسی تنظیم ہے
جو اپنی مدد آپ کے تحت بڑی پامردی اور استقامت سے دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے
اورکررہی ہے،القسام نے فلسطین کی انتفاضہ،مقاومہ،ممانعہ جہاد اوردشمن
کامقابلہ کرنے کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، 1935ء میں یہودیوں کے
مقابلے میں جام شہادت نوش کرنے والے شامی عالم دین شیخ عزالدین القسام کے
مجاہدانہ کارناموں کی وجہ سے اس عسکری ونگ کی نسبت انہی کی طرف ہے،1984ء سے
اس تنظیم نے اپنی کارروائیاں شروع کردی تھیں،اس وقت اس کا نام’’المجاہدون
الفلسطینیون‘‘ 1991ء میں مرکزی شور یٰ کے فیصلے کے مطابق اس کا نیانام ’’
کتائب القسام‘‘ رکھا گیا، اس کے بانیوں میں سے شیخ صلاح شحادہ، عماد عقل ،محمود
المبحوح غزہ میں اور مغربی کنار ے میں اس کا مشہور کمانڈر یحییٰ عیاش شہید
تھے۔حماس سے اس کی صرف ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔باقاعدہ اس کی ذیلی تنظیم نہیں
ہے ،پورے فلسطین کو انہوں نے وارڈز اور یونٹوں میں تقسیم کیا ہوا
ہے،علاقائی تمام امور کی نگرانی سیکٹر انچارج کے پاس ہوتی ہے،2012ء میں
احمد الجعبری کی شہادت کے بعد محمد الضیف اور مروان عیسیٰ بالترتیب اس کے
سنٹرل کمانڈر اور ڈپٹی کمانڈر ہیں،ان لوگوں کا کمال یہ ہے کہ یہ فلسطینی
حدود تک محدود ہیں، جہاد کی درآمدو برآمد پر یقین نہیں رکھتے،نیز فتح و
حماس کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے، فروعی اختلافات سے کنارہ کش رہتے ہیں، اسلحہ
سازی اور عسکری تربیت میں خود کفالتی پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔یہ مرحلہ وار
پتھر ،چھریاں ،پسٹلز، بندوق، کلاشنکوف، خودکش جیکٹس ،دستی بموں سے ہوتے
ہوئے اب جاکر میزائیل اور ڈرون طیاروں پر پہنچے ہیں،انکے القسام میزائیل نے
بہت شہرت حاصل کی ہے،کتائب القسام کے میزائل میں سے کمانڈر ابراہیم
المقاومہ کی طرف منسوب M75ہے جس کی رینج 75کلومیڑ ہے،احمد الجعبری کے نام
سےJ80جس کی رینج 80 کلومیڑہے،عبدالعزیز رنتیسی کے نام سے R160 اور سِجِیل
55بھی انکے میزائلوں میں شامل ہے،ٹینک شکن میزائیلوں میں سے انکے پاس
کورنیت ،فونیکس ساغر اور سام 7 بھی ہے ڈرون طیاروں میں بھی انہوں نے
A1A,A1B,A1Cکے نام سے تیار کئے ہوئے ہیں، حالیہ لڑائی میں ان تمام اسلحہ کو
استعمال میں لایا گیا ہے،ان کے لڑاکا نوجوانوں کی تعداد غزہ اور مغربی
کنارہ میں 50ہزار کے قریب ہے،اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور ان پر شب خون
مارنے کے علاوہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ 208ء سے ابتک چارجنگیں لڑی ہیں،
چاروں میں عام شہریوں اور املاک کے نقصان سے ہٹ کر عسکری سطح پر یہ ہمیشہ
کے لئے اسرائیل آرمی پر غالب اور فتح مند رہے ہیں،اﷲ کرے یہ سلسلہ فلسطین
کی آزادی کی ایک سبیل ہو۔ |
|