وفاقی دارلحکومت اسلام آباد آج
کل دھرونوں کی وجہ سے عالمی میڈیا میں زیر بحث بنا ہوا ہے جہاں دو جماعتوں
نے جن میں ایک سیاسی اور دوسری مذہبی جماعت ہے نے حکو مت کے لئے مسائل پیدا
کیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کا سیاسی موسم کافی ابتر ہو چکا ہے اب تو
نوبت سیاست دانوں سے آگے جرنیلوں تک پہنچ چکی ہے جو کسی بھی طور پر سیاسی
لوگوں کے لئے اچھی نہیں ہے پاکستان کی تاریخ میں یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہے کہ ہمارے سیاستدان پہلے اپنے مفادات کے لئے فوج کو بلاتے ہیں اور
بعد ازاں اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد انھیں طالع آزما اور ائین شکن آمر اور
دوسرے کئی القابات سے نواز کر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے اور عوام کو بے
وقوف بنایا جاتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی جانب سے
فوجی قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر ہر زبان زد عام ہو چکا ہے اور
لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح اس دھرنے اور مارچ کو کئی دن ہو چکے ہیں اس سے
سیاسی لوگوں کی ناپختگی کا پتا چلتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی تو ہوگا جو
اس بحران کو ختم کرنے میں کردارادا کرئے گا اب جبکہ فوج کی طرف سے اس پر
مثبت پیش رفت نظرآ رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ دوسری دیگر جماعتوں نے اس
پوائنٹ کو ہائی لائیٹ کرنا شروع کر دیا ہے کہ ایسا نہیں ہو نا چاہیے فوج
اگر انتخابی دھاندلیو ں کی تحقیقات کرئے گی تو اس سے عدلیہ پر کیا اثر پڑے
گا اس بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2013 کے
انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ عدالتی
کمیشن کی نگرانی فوج سے کروانے کے لیے سپریم کورٹ کبھی بھی رضا مند نہیں
ہوگی کیونکہ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اس طرح ادارے کی ساکھ متاثر ہونے
کا خدشہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر صرف ایک ادارہ
مضبوط ہوگا جبکہ ملک کے دیگر ادارے کمزور ہو جائیں گے جو کہ بلکل درست بات
ہے ۔ عدالت عظمیٰ یہ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ اْس کی جانب سے تشکیل دیے
جانے والے کمیشن کی تحقیقات کی نگرانی فوج کے اہلکار کریں۔ پاکستان تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف
کے ساتھ ملاقات کے دوران اْنھوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ سپریم کورٹ کا
ایک اعلیٰ سطحی کمیشن عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرے
گا اور فوج اس ضمن میں غیر جانبدار رہے گی عدالتی کمیشن کو دھاندلی کے
شواہد تو الیکشن کمیشن نے دینے ہیں اور اسے پہلے ہی متنازع بنا دیا گیا ہے
اب اس کے دیے گئے شواہد پر کیا غل غباڑہ ہو گا اس کا آنے والا وقت ہی بتا
سکتا ہے ان انتخابات میں خود عدلیہ کا کردار بھی مشکوک کر دیا گیا ہے اور
ریٹرنگ افسران کے کردار پر بھی اْنگلیاں اْٹھائی جارہی ہیں پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی بطورِ وزیر اعظم موجودگی میں
دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں اس لئے وہ استعفیٰ دیں اور گھر
جائیں تاکہ ان تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکیں وزیر اعظم میاں نواز شریف
نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ گذشتہ برس ہونے والے عام
انتخابات میں عمران خان کی طرف سے دھاندلی کی شکایات کی جانچ پڑتال کے لیے
ایک تین رکنی عدالتی کمیشن بنایا جائے جسے دھرنے والی جماعتوں نے یہ کہہ کر
مسترد کر دیاہے کہ جب تک حکومت قائم ہے اس کمیشن کا کردار تسلی بخش نہیں ہو
سکتا لہذا پہلے مطالبے کے طور پر حکومت کو مستعفیٰ ہو جانا چاہیے دونوں
جماعتوں کے اس مطالبے کو پاکستان کی دوسری تمام سیاسی جماعتیں غیر آئینی
قرار دے رہی ہیں جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں سے ہونے والے مذاکرات بھی ڈیڈ
لاک کا شکار ہیں ۔ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اگرعدالتی کمیشن میں حکومت
شواہد پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لے تو فوج حکومت کو ایسا کرنے سے روکے
لیکن ملک میں انصاف فراہم کرنے کا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ ہے اور ادارہ
کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ان کے ججوں پر مشتمل کمیشن کی نگرانی فوج کے
اہلکار کریں-
بد قسمتی سے فوج کے اور اعلیٰ عدلیہ کے تعلقات ماضی کی کئی واقعات کی وجہ
سے کچھ خاص اچھے نہیں ہیں کیونکہ ماضی میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے
دور میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمات میں حساس اداروں اور
سپریم کورٹ کے تعلقات میں تلخیاں پیدا ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے شاید یہ
بات ناممکن ہو کہ سپریم کورٹ اس بات کو تسلیم کرئے کیونکہ ایسا کرنے سے ان
کی اپنی ساکھ متاثر ہو گی ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرئے کیونکہ
مسئلہ مکمل طور پر سیاسی ہے اور اسے سیاست کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے
اس کے لئے دوسرے مقدم اور محترم اداروں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے حکومت
اپنے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے جو کسی بھی طور پر عوام یا ملک کے مفاد میں
نہیں ہے ۔اس مسئلے میں ملک کے اہم اداروں کو شامل کر کے شاید وقتی طور پر
حکومت کو فائدہ ہو جائے مگر آنے والے وقتوں میں اس کے ملکی سیاست پر کیا
نتائج مرتب ہوں گے اس بارے میں شاید کوئی بھی نہیں جانتا ۔ |