اسلام آباد کے دھرنوں کو اب
تیسرا ہفتہ شروع ہے۔پوری قوم کی نظریں اسی طرف ہیں۔اب تک کاروبار اور معیشت
کا بہت نقصان ہوچکا ہے۔ہرنئے دن سے تباہی میں اضافہ ہورہا ہے۔لیکن حکومت نے
اس دفعہ حوصلے اور صبر کی حد کردی ہے۔دونوں لیڈروں کی طرف سے شریف برادران
پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں۔پارلیمنٹ کے معزز ممبران کو تو
پہلے بھی عمران خان اور طاہرالقادری کی طرف سے بے شمار نئے"القابات"سے
نوازا جاتا تھا۔اب اس میں صحافی برادری کو بھی شامل کرلیاگیا ہے۔ان پر
کروڑوں روپے کی رشوت کا الزام ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب عمران خان بوکھلا گئے
ہیں۔ہر قلمکار قوم و ملک کا مفاد سامنے رکھ کر لکھ رہا ہے۔ہر ایک کی اپنے
ضمیر کی آواز بھی ہوتی ہے۔لیکن دانشوروں اور لکھاریوں کی طر ف سے دھرنوں کی
حمایت کم ہوتے دیکھ کر عمران خان کے پاس جھوٹے الزامات کے سوا اب کچھ باقی
نہیں رہا۔پارلیمنٹ کے ممبران کے لئے غلیظ زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ
الیکشن کمیشن والوں کی بھی خبرلی جاتی رہی ہے۔لیکن اب قائم مقام چیف الیکشن
کمشنر کی زیر صدارت اجلاس میں دھاندلی کے الزامات کو بھی مستردکردیا گیا
ہے۔افضل خان کے الزامات بھی ہوا ہوگئے ہیں۔اردو بازار جہاں کتابیں چھپتی
تھیں اسے بھی دھرنوں والوں نے دھاندلی میں شریک کر لیاتھا۔یہ بات اب ثابت
ہوچکی ہے کہ یہ سب بغیر سوچے سمجھے صرف الزامات ہی تھے۔ڈی۔جی۔آئی۔بی کی طرف
سے بھی واضح بیان آگیا ہے۔دھرنے والے جب خطاب کی تیاری کررہے ہوتے ہیں تو
پنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں کو دھرنے میں شریک ہونے کی استدعا ضرور کرتے
ہیں۔لیکن اپنے ضروری کاموں اور پرسکون انداز زندگی کو کون چھوڑ کر آتا
ہے۔تمام ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔عمران
خان کے جلسے میں خالی کرسیوں کے رنگ کافی چمک رہے ہوتے ہیں۔اور پنڈال کا
کافی بڑا حصہ خالی ہوتا ہے۔تھوڑی بہت رونق جناب طاہر القادری نے برقرار
رکھی ہوتی ہے۔وہاں عوام کی بجائے ان کے مرید شامل ہیں اور ساتھ ہی منہاج
القرآن تعلیمی اداروں کے شاگردان اور ملازم۔ان لوگوں کی مجبوریوں کو سب ہی
سمجھتے ہیں۔لیکن پہلے چند دنوں کی رونق یہاں بھی نظر نہیں آتی۔حکومت نے اگر
ایسے ہی صبر اور حوصلے سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی تو
دھرنا چند دن سے زیادہ نہیں چلے گا۔آج کل دونوں اطراف کے اعصاب کا ٹیسٹ
ہورہا ہے۔مضبوط اعصاب والا فریق ہی کامیاب رہے گا۔کفن اور قبریں بھی جذبات
کو بڑھکانے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔عام لوگوں کو ایسے کاموں کو توقع
نہ تھی۔لیکن وہ لوگ جو عوامی تحریک کے قائد کے فیملی بیک گراؤنڈ کوجانتے
ہیں۔ان کے لئے یہ کام ممکن تھے۔اس سے بھی زیادہ گھٹیا حرکت کی امید رکھنی
چاہیئے۔محترم نواز شریف کے لئے اطمینان کی بات پوری پارلیمنٹ کا ان کے ساتھ
اتحاد اور مضبوطی سے کھڑا ہوجانا ہے۔جناب خورشید شاہ اور اچکزئی کالب ولہجہ
دھرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے برابر ہے۔تمام سیاسی پارٹیوں کا
آئین اور جمہوریت کے لئے اکٹھا ہوجانا پاکستان کی جمہوری تاریخ کا بہت ہی
نمایاں واقعہ ہے۔وکلاء برادری بھی ایسے ہی متحد ہے۔جیسے جج بحالی تحریک کے
وقت تھی۔سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار آئین اور جمہوریت کے ساتھ
ڈٹ کر کھڑی ہیں۔صدر لاہور ہائی کورٹ بار کے گھر چوری کے واقعہ کو عمران خان
نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش ضرور کی۔لیکن عین موقع پر صدر بار نے
جرات کا مظاہرہ کرکے عمران خان کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔پورے معاشرے میں دھرنا
پارٹی کی حمایت کم ہورہی ہے۔اسلام آباد دھرنے سے چونکہ ابھی تک کچھ حاصل
نہیں ہوا لہذا اب ملک کے باقی شہروں میں ریلیوں اور دھرنوں کی کال دے گئی
ہے۔لیکن عوام تو اپنی روٹی روزی میں مصروف ہے۔کئی کئی ہفتوں تک دھرنے میں
شریک ہونے کے لئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔یہ کال بھی لازمی طورپر ناکام
ہوگی۔عوام کا شعور اب کافی بڑھ چکا ہے۔آخر وہ اپنے قیمتی وقت کو کیوں ضائع
کریں۔کچھ کھلنڈرے لڑکوں کو روزانہ کے جیب خرچ پر لے آنا کوئی کامیابی نہیں
ہوتی۔عوام میں حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک میں شامل ہونے کا کوئی رجحان
معلوم نہیں ہوتا۔جو کچھ عمران خان اور طاہر القادری کرنا چاہتے ہیں۔اس کے
لئے واقعی کئی لاکھ لوگوں کی ضرورت تھی۔لیکن دونوں حضرات کے ساتھ تو ایک
لاکھ بھی لوگ نہیں ہیں۔انقلاب چاہے روس کاہو۔چین کا اور چاہے ہمارے پڑوسی
ایران کا۔کہیں بھی لاکھوں لوگوں کی شرکت کے بغیر کامیابی نہیں ملی۔وقت کے
حکمران انقلابیوں کی تعداد اور تیور کو دیکھ کرہی بھاگ جاتے ہیں۔لوگوں کو
ایرانی انقلاب کے مناظر یاد ہونگے۔شہنشاہ ایران انقلابیوں کے تیور دیکھ کر
ہی بھاگ گئے تھے۔لیکن عمران خان کے انقلابی تو ڈانس اور بھنگڑوں کے ذریعے
بڑی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔طاہر القادری نے اب قوالوں کی خدمات بھی حاصل
کرلی ہیں۔اب انقلاب پر کتابیں لکھنے والوں کو اکیسویں صدی کے پاکستانی
انقلاب کے خوبصورت ڈانس اور سروں کو بھی عوامل میں شامل کرنا پڑے گا۔شہزاد
رائے جیسے نوجوان گلوکاروں کو تو انقلاب مخالف بھی سنکر محضوظ ہوتے
رہے۔عمران خان نے انقلاب کو بچوں کا کھیل بنایا ہوا ہے۔اگر یہ کھیل میڈیا
والے پاکستانی عوام کو دکھانا بند کردیں تو انقلاب اپنی مو ت آپ ہی مر جائے
گا۔یہ صرف میڈیا والوں نے عمران خان کو اب تک امید دلائی ہوئی ہے۔اب جب
عمران خان نے میڈیا والوں کے خلاف بھی جھوٹے الزامات شروع کر لئے ہیں۔تو یہ
بھی ضرور سوچیں گے۔دیکھا جارہا ہے کہ بہت سے اینکر پرسنز نے انقلاب کی
حقیقت بتانا شروع کردی ہے۔کیمرہ جب عمران خان کا جوش خطابت اور اداکاری
دکھا رہا ہوتا ہے تواچانک کیمرے کا رخ خالی چمکدار کرسیوں کی لمبی لائن کی
طرف ہوجاتا ہے۔لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ عمران کی خطابت کا اثر خالی
کرسیوں پر کیسے پڑتا ہے۔ایک منظر طاہر القادری کے سٹیج پر عوام کو بڑا
حیران کئے ہوئے ہے۔انقلاب کے بالکل ساتھ مصطفی کھر سابق پی پی پی لیڈر کا
کھڑے ہونا۔اور دوسرے طرف آصف احمد علی۔سردار صاحب کوعمران خان کی طرف سے
ٹکٹ نہ ملااور چلئے اب وقت گزاری کے لئے دینی انقلابیوں کاہی ساتھ دے لیتے
ہیں۔چوہدری برادران عقلمند ہیں وہ قادری کی تقریر کے وقت دائیں بائیں کھڑے
نہ ہو کر لوگوں کو حیران نہیں کررہے۔میاں نواز شریف کو چاہیئے کہ فوج کو
اپنا کام کرنے دیں اور اسے سہولت کار کے فرائص بھی نہ سونپے جائیں۔اس سے
غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔اگر انقلابی لیڈروں سے مذاکرات کی ضرورت ہوتو
پارلیمنٹ میں موجود لیڈرز سید خورشید شاہ ،اچکزئی اور آفتاب شیر پاؤ کو وفد
میں شامل کیاجائے۔اپنے حکومتی کاموں کو عمومی انداز سے چلاتے رہیں۔سرکاری
عمارات کی حفاظت سیکیورٹی کرہی رہی ہے۔دھرنے والوں سے حکومت ٹکرانے سے گریز
کرے۔دھرنوں کوDiminishہونے کا موقع دیں۔یہ کام شروع ہوگیا ہے۔اسے قدرتی
انداز سے ہونے دیں۔دھرنوں کاطول پکڑنا ملکی معیشت اور ملکی Imageکے لئے
بہتر نہیں ہے۔لیکن دھرنوں کے خاتمے کا یہ سنہرا اصول ہے۔بلڈنگوں پر قبضے کے
لئے عمران خان تو نہیں جائیں گے۔البتہ دوسرا لیڈر یہ حماقت کرسکتا
ہے۔سیکیورٹی اس کام کے لئے تیار رہے۔فتح آئین اور جمہوریت کی ہی ہوگی۔اگر
پاکستانیوں نے یہ کام کرلیا۔تو آئیندہ اس طرح کے دھرنوں کے پروگرام پاکستان
میں اور کوئی نہیں بنا سکے گا۔قوم آئین اور جمہوریت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے۔ |