لَبَّیْک اَللَّھُمَّ لَبَّیْک…… کیوں

حج ایک عظیم عبادت ہے۔ اﷲ کی عبادتِ عظمیٰ ہے جس میں بے پناہ اسرار و فضائل ہیں۔ اس تعلق سے ضروری باتیں آپ تک پہنچ رہی ہیں۔ کوشش ہوگی کہ حج کے اسرار آپ تک پہنچیں ۔ حج کا احرام باندھتے ہی ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ لَبَّیْک اَللَّھُمَّ لَبَّیْک جسے تلبیہ کہتے ہیں یعنی میں حاضر ہوں اے اﷲ میں حاضر ہوں۔

تلبیہ کہنا کیوں ضروری ہے آخیر حاجی صاحب کو کس نے آواز دی ہے اور کس کی آواز سنا کہ احرام باندھتے ہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں والا جواب دینے لگے ۔ پیارے پیارے مومنوں قرآن میں مولائے رحیم کا یہ ارشاد ہے وَ اَذِّنْ فِیْ النَّا سِِ با الْحَجِِّ یَا تُوْکَ رِجَا لاًوَّ عَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍیَّا تَیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍٍٍٍٍّ عَمِیْق
سورہ الحج آیت 27 ترجمہ: اور لوگوں میں عام منادی (اعلان) کردولوگ پیدل چل کر اور ہر پتلی دُبلی اونٹنی پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے تمہارے پاس (حج کیلئے) اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول تفسیر روح البیان میں یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہیں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا اے اﷲ میری آواز کہاں تک پہنچے گی۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراھیم تمہارا کام صرف اعلان کرنا ہے اور پہنچانا میرا کام ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام صفا پر چڑھے تو وہ مقام پہاڑ کے برابر ہوگیا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنی انگلی کانوں میں ڈالی اور دائیں بائیں اور آگے پیچھے زور سے پکارا ’’ اے لوگو خبر دار تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اورحکم فرمایا ہے کہ تم اس گھر کی زیارت کیلئے آؤ اور حج ادا کرو تاکہ تمہیں اس کا ثواب عطا فرمائے اور جنت سے نوازے۔ اور دوزخ سے نجات بخشے ‘‘ آپ کی اس آواز کو آسمان و زمین کے درمیان والوں سب نے سنا۔اور جواب دیا لَبَّیْک اَللَّھُمَّ لَبَّیْک گویا احرام باندھتے ہیلَبَّیْک اَللَّھُمَّ لَبَّیْک کی صدا جو حاجی دے رہا ہے اس حاجی نے عالمِ ارواح میں حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی آواز سنی تھی اس لئے اس کے مقدر میں لکھا تھا لبّیک کہنا وہ احرام باندھتے ہی تلبیہ شروع کردیتا ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت مجاھد رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا کہ جس نے ایک بار جواب دیا اُسے (ایک بار سعادتِ حج لبیک) کہنانصیب ہوگاجس نے دو بار جواب دیا اس کو دو بار نصیب ہوگاا لغرض جس نے جتنی بار جواب دیا اس کو اتنی بار حج نصیب ہوگا۔

حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو سوار ہو کر حج کو جاتا ہے اسکو سات سو نیکیاں نصیب ہونگی جس کی ہر نیکی حرم شریف کی نیکی کے برابر ہوتی ہے۔ عرض کیا گیا یا رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرم کی نیکی کا کتنا ثواب ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہاں کی ایک نیکی غیر حرم کی ایک لاکھ نیکی کے برابر ہوتی ہے ( تفسیر روح البیان)

پیارے مومنوں پہلے اَدیان کے راہب سیر و تفریح کو جاتے تھے ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کیا ہمارے لئے سیر و تفریح کے لئے اجازت ہے یا نہیں۔ آپ مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے سیر و تفریح کا نعم البدل حج کعبہ کا سفر عطا فرمایا ہے کہ اس سے سیر و تفریح بھی ہوگی اور عبادت و اطاعت کے اجر و ثواب بھی۔ (روح البیان) مومنین پرا ﷲ تعالیٰ کا یہ احسان عظیم ہے کہ حج کے ساتھ عمرہ بھی عطا فرمایا ہے تاکہ اس طرح سے زیارت حرمین طیبین سے اﷲ کے بندے دنیاو اخرت دونوں کی سعادتیں حاصل کرتے رہیں وہ بڑا کم نصیب ہے جو صاحبِ حیثیت ہو کر حج و زیارت سے محروم ہے اﷲ تعالیٰ سارے مومنین مرد و عورت کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ کی زیارت نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔

تفسیر روح البیان میں ایک ایسے ہی بدنصیب کا عبرت آموز واقعہ ذکر کیا ہے جو حج کرنے سے کتراتا تھا آخیر میں خوش بختی نے اس کے قدم چومے۔ واقعہ دلچسپ ہے غور سے پڑھیں۔ حضرت شیخ اکبر (محی الدین عربی رحمتہ اﷲ علیہ) نے فرمایا کہ مجھے ایک عارف نے فرمایا کہ ایک دنیا دار شخص تھا جس کا کعبہ کو جانے کا جی نہیں چاہتا تھا دولت جمع کرنے کی حرص میں مبتلا تھا۔ خدائی طور پر اس پر جرم کا ایک الزام لگا ۔ اسے بیڑیاں پہنا کر امیر مکّہ کے پاس لایا گیا اورجرم بھی اتنا سنگین تھا کہ اسے امیر مکہ کے یہاں قتل کرنے کے لئے پیش کرناتھا۔ معلوم ہوا کہ امیر مکہ مناسک حج کے لئے گئے ہوئے ہیں۔اور عرفات میں مقیم ہیں۔مجرم کو گلے میں لوہے کا طوق ڈال کر بیڑیاں پہنا کر ۹؍ ذی الحجہ کو میدان عرفات میں لایا گیا جونہی مجرم پیش ہوا۔ امیر مکہ نے اس سے معذرت چاہی اور کہا کہ یہ تو میرا دوست ہے تمہیں اسکی گرفتاری میں غلط فہمی ہوئی ہے چناچہ امیر مکہ اس سے معذرت کی ، بیڑیاں اور طوق ہٹائے گئے اور نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے گئے۔ احرام بندھوایا اور حج کے مناسک ادا کرائے اسطرح اسے حج نصیب ہوا امیر مکہ نے اعزاز و اکرام سے نوازا اور وہ ظاہر اور باطنی طور پر بہت بلند مرتبہ پر فائز ہوا۔

اس واقعہ کو درج کرکے صاحبِ روح البیان فرماتے ہیں یہ اس کا کرم ہے کہ بندوں سے جس طرح چاہے کرے ایسے ہی قیامت کے دن پا بہ زنجیر بندوں کو اپنے کرم سے جنت میں لے جائے گا اور یہ اﷲ تعالیٰ کے اسرار و رموز کا ایک عجیب کرشمہ ہے ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشار ہے کہ ’’ اَلْحَا جُ وَ فَدَ للّٰہُ یُعْطِیْھِمْ مَا سَاْ لُوْ وَ یَسْتَجِیْبُ لَھُمْ مَا دَعُوْ ط ‘‘ (حدیث پاک) ترجمہ: حج کرنے والے خدا کے قاصد ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے اور جو دعا کرتے ہیں اﷲ قبول فرماتا ہے۔

لیکن جو مقامِ خلقت کا طالب ہوتا ہے وہ صرف پناہ چاہتا ہے ۔ نہ کچھ مانگتا ہے نہ کوئی دعا کرتا ہے بلکہ حالت تسلیم و رضا پر قائم رہتا ہے وہ صرف اﷲ کی خوشنودی چاہتا ہے جیسا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کیا۔

وَ اِذْ قَالَ لَہُ رَ بَّہُ اَسْلِم قَا لَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَا لَمِیْن (القرآن) جب خدا نے ان سے فرمایا کہ سر جھکاؤ تو عرض کیا ۔ میں نے رَبُّ العالمین کے حضور تسلیم خم کر دیا جب حضرت ابراھیم علیہ السلام مقامِ خلقت پر فائز ہوئے تو انہوں نے تمام تعلقات سے مُنہ موڑ کر دل غیر اﷲ سے بالکل خالی کر دیا اس وقت اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے جلوے کی بر سر عام نمائش کر دیا ارشاد باری ہوا ۔ سَلَا مُ‘ عَلیٰ اِبْرَاھِیْم وَ تَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاَ خِرِیْن سلام ہو ابراھیم پر اور میں اس کی یادکو قیامت تک باقی رکھا۔ یہی یاد قیامت تک جاری و ساری رہے گی اور لا تعداد لوگ حج کی سعادت سے سرفراز ہوتے رہیں گے

حاجی جب لَبَّیْک اَللَّھُمَّ لَبَّیْک کہنا شروع کرے تو خیال کرے اﷲ تعالیٰ کی نِدا کا جواب ہے۔ اسی طرح قیامت میں بھی نِدا آئے گی ۔۔ سفرِ حج کو سفرِ آخرت سمجھے دل کو اﷲ کی یاد سے لبریزرکھے۔ سب سے تاریک گھر وہ ہے جو گھر محبوب کی یاد سے خالی ہو۔ اﷲ سفر حج پر جانے والوں کے حج کو قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
شکر خداآج گھڑی کس سفر کی ہے
جس پر نِثار جان فلاح و ظفر کی ہے
Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 195805 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.