محمد گلستان خان۔ ایک شخصیت ایک مطالعہ

پاکستان لائبریرین شپ کے سینئر لائبریرین محمد گلستان خان جنہیں پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی اولین کانفرنس منعقدہ ۱۹۵۷ء(اس کانفرنس کی صدارت پاکستان کے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی )میں شرکت اور اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا اعزاز حاصل ہے ۔ خان صاحب کی پیشہ ورانہ خدمات ۵۵ سالوں (۱۹۵۴ء ۔ ۲۰۰۸ء) پر محیط ہیں۔اس طویل عرصہ میں آپ نے پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک کے کتب خانوں میں بھی خدمات انجام دیں۔آپ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے علاوہ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ( قیام ۱۹۵۰ ء ) کے بانی اراکین میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ آپ اپنی عمر کی ۷۳بہاریں دیکھ چکے ہیں آپ کی لائبریری خدمات کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ لائبریری سائنس میں سرٹیفیکیٹ کورس سے اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کا آغاز کیا، ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس سے ایم اے کیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یونیسکو کے تعاون سے ہندوستان میں کتا بیات کی عملی تر بیت کے لیے گئے۔ پاکستان کی قومی کتابیات برائے سال ۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۱ء کی تدوین خان صاحب کا قابل ذکر کارنامہ ہے ۔ آپ نے اس کی تدوین میں شب و روز محنت کی ، مواد کو جمع کرنے سے اس کی فنی ترتیب تک کے مراحل آپ نے خوبصورتی سے سر انجام دیے ۔ لائبریری سائنس کے استاد کی حیثیت سے پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آپ لائبریرین شپ
میں کئی سال پڑھایا۔ ذیل میں ان سے ملاقات کی تفصیل ہے جو لائبریری و انفارمیشن سائنس کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی۔

س: آپ نے اپنی زندگی کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟
ج: میں ۲۰ مارچ ۱۹۳۵ء کو پنجاب کے شہر چکوال میں پیدا ہوا جہاں کی فضاء عسکریت کی خوشبو لیے ہوئے ہے کیوں کہ اس شہر کی ہر گلی میں کوئی نہ کوئی فوجی رہائش پذیر ہے۔ یہاں کے باسی مارشل ریس کہلاتے ہیں۔ کرنل محمد خان کے بقول یہ قلم سے نہیں اپنے خون سے تاریخ مرتب کرتے ہیں۔۱۹۴۸ء میں معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے قائد اعظم کے شہر جو شہر قائد کہلاتا ہے کو اپنا
مسکن بنا یا اور پھر اس شہر کا ہورہا ۔

س: وہ کیا محرکات تھے جن کے باعث آپ کو لائبریری سائنس کے پیشہ سے رغبت ہوئی؟
ج: ۱۹۵۴ء کے اوائل میں نے اپنی پہلی سروس کا آغاز ’’فریٔرہال پبلک لائبریری کی ملازمت سے کیا یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں تمام شعبے ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھے۔ عوام میں جذبہ حب الوطنی کی تازگی تھی۔لائبریری پروفیشن اختیار کرنے کی اہم وجہ مطالعہ کاشوق، علم و دانش کا حصول اور کتب خانے کا علمی ماحول تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان جس ماحول میں ہوتا ہے اُسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔

س: آپ نے لائبریری سائنس کی تعلیم کن ادروں سے حاصل کی اس دور میں کن اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔
ج: ۱۹۵۵ء میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن سے ابتدائی لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیت کورس پاس کیا ۔ اس وقت حسن علی اے رحمان صاحب جو ایس ایم لاکالج کے پرنسپل تھے کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کے صدر تھے ۔ لائبریری کلاس اسی کالج میں ہوا کرتی تھی۔ محمد شفیع مرحوم، جمیل نقوی مرحوم، سید ولایت حسین شاہ مرحوم، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے لائبریرین نورمحمد مرحوم اسا تذہ میں شامل تھے۔

کچھ عرصہ بعد کراچی میں امریکن سینٹر کے تعاون سے پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے تحت لائبریری اسکول کا آغاز ہوا اور لائبریری و کتابیات میں اسپیشل ڈپلومہ کورس تر تیب دیا گیا۔ پاکستان کے چارٹرڈ لائبریرین اس کورس کے نگراں تھے۔اس وجہ سے پاکستان کے بے شمار ورکنگ لائبریرینز نے اس کورس میں داخلہ لیا، امتحان کے بعد جو جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا اس میںMiss L. C. Morchچیف لائبریرین ، لائبریری آف کانگریس مہمان خصو صی تھیں۔ اس کورس میں میری اول پوزیشن تھی۔ صفحہ اول کی امریکن لائبریرین نے مجھے طلائی تمغے سے نوازہ۔ یہ میری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس کے پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ لیا ، اس وقت ڈاکٹر عبد المعید شعبہ کے سربراہ تھے۔ اس کورس میں میری فسٹ کلاس پوزیشن تھی۔ ۱۹۶۳ء میں مجھے یونسکو تعلیمی اوارڈ (award) ملایہ تعلیمی اوارڈ یونیسکو ریڈنگ مٹیریل سینٹر ساؤتھ ایشیا کو جانب سے تھا اس دو ر میں جناب اختر حسین رائے پوری اس ادارے کے سربراہ تھے ان کی کوشش سے مجھے ببلوگرافی کے فن میں مہارت پانے کے لیے ہندوستان بھیجا گیااور میں نے تین ماہ کے پروگرام کے تحت ہندوستان کے قومی کتب خانے سے کتا بیات کی عملی تربیت حاصل کی۔ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے شعبہ لائبریری سائنس ، جامعہ کراچی میں داخل ہوتے ہی ایسے استاد ملے جن کی بے لوث خدمات اور انتھک کوشش نے اس شعبہ کو اعلیٰ مقام پر پہنچا یا اور میرے جیسے فرد کوصلاحیت نکھارنے کا موقع ملا۔

س: آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کن ادراروں میں گزاری اپنی پیشہ ورانہ خدمات پر روشنی ڈالیئے؟
ج: میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی ۱۹۵۴ء میں فریئر ہال پبلک لائبریری سے شروع کی، لائبریری سائنس کا سرٹیفیکیت کورس کرنے کے بعد میں ۶۸۔۱۹۵۵ء کے دوران میں لیاقت نیشنل لائبریری سے منسلک رہا ۔ اس وقت اس لائبریری کے سربراہ سید ولایت حسین شاہ تھے ان کی زیر نگرانی میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، میرے ساتھیوں میں سیدابن حسن قیصر، عبیداﷲ سیفی، عبدالحلیم چشتی، سید نیاز احمد اور اشرف علی شامل تھے۔ان احباب کے ساتھ مجھے کئی برس کام کرنے کا شرف حاصل ہوا یہ احباب بعد میں لائبریرین شپ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور اپنی اعلیٰ کارکردگی اور صلاحیت کی بدولت پروفیشن میں نام پیدا کیا۔۱۹۶۸ء۔ ۱۹۷۹ء کے درمیاں میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کا لائبریرین رہا ۱۹۷۹ء میں سعودی عرب چلاگیا ، ریاض میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف پرسنل مینجمنٹ میں لائبریرین کی خدمات انجام دیں ، اس کے بعد کنگ سعود یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا جہاں پر میں نے بارہ برس خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۸ئء میں ریٹائر ہوکر وطن واپس آیا اور ہمدرد یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سے بطور لائبریرین منسلک ہوا اور آٹھ سال خدمات انجام دیں آج اپنی رہائش گاہ کے نذدیک قائم ایک نجی اسکول کی لائبریری میں خدمات انجام دے رہا ہوں۔ان اداروں کے علاوہ میں پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے اسکول آف لائبریرین شپ سے بھی وابستگی رہی۔ ۱۹۷۲ء میں گروپ کا سیکریٹری بنا اور اسکول کا انتظامی سربرا ہ بھی ، ساتھ ہی ایک استاد کی حیثیت سے لائبریری سائنس کی عملی تعلیم بھی دیتا رہا۔ سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد بھی میں اس اسکول سے منسلک ہوں ، بعض مشکلات کے باعث باقاعدہ کلاس تو نہیں لیتا لیکن کبھی کبھار اپنی یادوں کو تازہ کرنے چلا جاتا ہوں۔

س: آپ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ سے بھی منسلک رہے اور پاکستان کی قومی کتابیات (۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۱ء) کی ترتیب و تدوین میں شریک رہے ،کچھ اس کے بارے میں بتائیں کہ قومی نوعیت کا یہ کام کیسے پائے تکمیل کو پہنچا؟
ج: پاکستان میں کتابیا ت کی تدوین و اشاعت کیلئے پہلا کتابیاتی ادارہ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء میں عالمی تنظیم یونسکواور حکومت پاکستان کے تعاون سے کراچی میں قائم ہوا۔اس ادارے کے قیام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یونسکو نے کتا بیات کے موضوع پر ۱۹۵۰ء میں پیرس کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی ۔ جس کے اختتام پر ایک قرار داد منظور ہو ئی جس میں کہ گیا تھا کہ سیمینار میں شریک ممالک اپنے اپنے ملک میں کتابیات کی تدوین اور فروغ کے لئے ایک کتابیاتی ادارہ تشکیل دیں۔ یونسکو اس ادارے کی تشکیل اور مقاصد کے حصول میں معاون ومدد گار ہوگا۔پاکستان میں یو نسکو کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالمعید اور دیگر ہم پیشہ ساتھیوں جن میں فضل الٰہی ،سید ولایت حسین شاہ، محمد شفیع،قاضی حبیب الدین احمد، اے آر غنی،جمیل نقوی،فر حت اﷲبیگ، ابن حسن قیصر، نور محمد خان اور اختر ایچ صدیقی شامل تھے پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی بنیاد رکھی۔یونسکو کے علاوہ حکومت پاکستان نے بھی اس ادارے کے قیام میں معاونت کی۔پہلے کتابیاتی ادارے کے طور پر یہ گروپ ۱۹۵۰ء میں معرض وجود میں آیا۔ ابتدائی دو سالوں میں گروپ کی کارکردگی خط وکتابت کی حد تک محدود رہی۔ ۱۹۵۳ء میں گروپ کو از سر نو منظم کر نے کی کوششوں کا آغاز ہوا ڈاکٹر عبدالمعید نے اس ادارے کو فعال بنانے کے لئے لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والوں سے تجاویز طلب کیں۔۱۳ اگست ۱۹۵۳ء کو کراچی یونیورسٹی لا ئبریری میں ایک میٹنگ سید ولایت حسین شاہ صاحب کی صدارت میں منعقد ہو ئی جس میں ڈاکٹر عبدالمعید ، فرحت اﷲ بیگ، ڈبلیو اے جعفری، اختر ایچ صدیقی نے شرکت کی۔ شریک اراکین نے گروپ کو از سر نو منظم کر نے کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لیا، ڈاکٹر عبدالمعید نے گروپ کی تشکیل نو کے سلسلے میں پاکستان کے مختلف حصوں سے موصول ہو نے والے لائبریرین حضرات کے خطوط پڑھ کر سنائے ۔ اس میٹنگ میں گروپ کو فعال بنانے کی حتمی منظوری دی گئی۔گروپ کی اسی میٹنگ میں ایک دستور ساز کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو ڈاکٹر عبدالمعید، محمد شفیع، سید ولایت حسین شاہ اسر فر حت اﷲ بیگ پر مشتمل تھی۔وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کمیٹی میں ردو بدل بھی ہوا۔ ۱۷ نومبر ۱۹۵۵ء کو گروپ کی ایک میٹنگ میں ایک اور دستور ساز کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ڈاکٹر عبدالمعید، قاضی حبیب الدین اور ایک غیر ملکی ماہر ایل سی کی (L.C. Key)شامل تھے۔یہ میٹنگ گروپ کے صدر ڈاکٹر امداد حسین کی صدارت میں منعقد ہو ئی۔ دستور سازی کا عمل طویل عرصہ تک جاری رہا ۔کمیٹی کے تیار کر دہ دستور کے مسود ے کو آسٹریلین ماہر لا ئبریری سائنس ایل سی کی(Mr. L. C. Key) نے آخری شکل دی۔گروپ کے دستور کی منظوری قاضی حبیب الدین کی صدارت میں منعقد ہو نے والی میٹنگ منعقدہ ۴ جون ۱۹۵۶ء میں دی گئی۔میٹنگ میں شریک دیگر اراکین میں ڈاکٹر عبدالمعید، اے آر غنی، مہدی حسن،ابن حسن قیصر، اختر ایچ صدیقی کے علاوہ مسٹر ایل سی کی(Mr. L. C. Key)، اے ایل گارڈنر (Mr. A. L. Gardner) اور جے سی شارپ(J. C. Sharp) شامل تھے۔گروپ پاکستان لائبریرین شپ کا واحدادارہ ہے جس کے دستور کو پاکستانی ماہرین کے علاوہ بیرون مما لک کے تین ماہر لا ئبریری سائنس کی، گارڈنر اور شارپ نے آخری شکل دی۔گروپ نے مسٹر ’کی‘ کی خدمات کے اعتراف میں جو انہوں نے گروپ کے دستو ر کی تدوین کے لئے فراہم کیں ایک پارٹی کاا ہتما م کیا، اس پارٹی کے انعقاد کا فیصلہ گروپ کی میٹنگ منعقدہ ۲۰ ستمبر ۱۹۵۶ء میں کیا گیا۔

گروپ کی پہلی مجلس منتظمہ کا انتخاب جامعہ کر اچی کی لا ئبریری میں منعقد ہو نے والی میٹنگ منعقدہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۴ء میں ہوا جس کی صدارت سید ولایت حسین شاہ نے کی۔ صدارت کے لئے حکومت پاکستان کے ڈپٹی ایجو کیشن ایڈوائیزر ایم ایس محی الدین پر اتفاق کیا گیا جب کہ دیگر عہدیداران میں ڈاکٹر عبدالمعید اور محمد شفیع نائب صدر، سید ولایت حسین شاہ سیکریٹری، جمیل نقوی جوائنٹ سیکریٹری، فرحت اﷲبیگ خازن اور اراکین میں اے آر غنی ، ابن حسن قیصر اختر ایچ صدیقی شامل تھے۔ بعد ازآں ڈاکٹر امداد حسین گروپ کے صدر مقرر ہو ئے۔۱۹۵۴ء میں یونسکو کے زیر اہتمام پیرس میں بین الا قوامی کتابیاتی مشاورتی کمیٹی (International Bibliographical Advisory Committee) کے اجلاس میں ڈاکٹر عبدالمعید نے پاکستان کی نمائندگی کی جو اس وقت گروپ کے نائب صدر تھے۔ڈاکٹر صاحب نے پیرس میں گروپ اور یونسکو کے درمیان ہو نے والے ’’ ببلو گرافیکل پروجیکٹ‘‘ کو آخری شکل بھی دی جس کے تحت گروپ نے ملک میں کتابیات کی تدوین و اشاعت میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔یونسکو کے اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالمعید کی بطور نمائندہ کا فیصلہ گروپ کی ایک میٹنگ منعقدہ ۱۷ مئی ۱۹۵۴ء میں کیا گیا ۔ اس سے قبل وزارت تعلیم حکومت پاکستان نے گروپ کے نائب صدرڈاکٹر عبدالمعید کو یونسکو کے لئے پاکستان کا Correspoding Memberمقرر کر دیاتھا ، معید صاحب کے بعد ولایت صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔گروپ اغراض و مقاصد میں پاکستان میں کتابیاتی ضروریات کی تکمیل،کتابیات کی تالیف و تر تیب،حوالہ جا تی مواد کی ترتیب و تالیف،کتابیات و دستاویزات(Documentation)سے متعلق سائنس نقطہ نظر کا فروغ اورپاکستان میں کتابیات کی تدوین اور لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کا اہتمام کر نا شامل تھا۔

پاکستان میں کتابیات و حوالہ جاتی ماخذکی تدوین واشاعت کی ابتدا گروپ کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ۱۹۵۳ء میں گروپ کے دو حوالہ جا تی ماخذ شائع ہو ئے ان میں خواجہ نور الٰہی ، عبدالمعید اور اختر صدیقی کی مر تب کر دہ پاکستان میں شائع ہونے والے حوالہ جاتی ذرائع ، رسائل وجرائڈ اور اخبارات کی گائیڈ شائع ہو ئے۔۱۹۵۶ء میں گروپ نے پاکستان کی لائبریریز، سائنسی و تعلیمی اداروں ، میزیم و آرٹ گیلریز پر مشتمل ایک ماخذ شائع کیا جس کا ترمیم شدہ ایدیشن ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا جس میں لائبریر ینز کی سوانح کا اضافہ بھی کیا گیا۔ایک سال بعد ایک کتابیات کی کتابیات شائع ہو ئی۔۱۹۶۱ء ہی میں گروپ نے پاکستا نی کتب خانو ں میں موجودسماجی علوم کے رسائل کا یونین کیٹلاگ شائع کیا جسے فضل الٰہی اور اختر صدیقی نے مر تب کیا تھا ۔یہ یونین کیٹلاگ یو نسکو کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔

پاکستان میں کاپی رائٹ قانون کی غیر موجودگی میں گزشتہ (Retrospective)قومی کتابیات کی تدوین ایک مشکل کام تھا۔حکومت نے اس دور کی قومی کتابیات کی تدوین کاکام پاکستان ببلو گرفیکل ورکنگ گروپ کو سونپ دیاجسے گروپ نے انتہائی مہا رت اور محنت کے ساتھ ایک قومی فریضہ تصور کر تے ہو ئے پہلے جناب اے آر غنی اور بعد میں جناب رئیس احمد صمدانی کی نگرانی میں پائے تکمیل کو پہنچایا۔یونسکو نے قومی کتابیات کی اہمیت کا احساس کر تے ہو ئے اپنے (Reading Materials Project)کے تحت گروپ کو مالی امدادفراہم کر نے کے لئے باقاعدہ ایک معاہدہ کیا جو نومبر ۱۹۹۶۱ء کو گروپ اور یونسکو کے درمیان طے پایا۔یونسکو نے اس سلسلے میں انڈین نیشنل لائبریری ،کلکتہ میں گروپ کے دونمائندوں کو انڈین نیشنل ببلوگرافیکل یونٹ کے ساتھ تین ماہ کی تر بیت کے تمام تر اخراجات کی بھی پیش کش کی جسے عمل درآمد کی صورت میں گروپ کے نمائندے کی حیثیت سے مجھے کلکتہ بھیجا گیا جہاں پرمیں نے کتابیات کی تدوین کی عملی تر بیت حاصل کی۔گروپ نے قومی کتابیات کی تدوین پر کام کا آغاز کیا ۔ پاکستان کی قومی کتابیات برائے سال ۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۱ء کی ترتیب و تنظیم میں میری خدمات شامل رہیں۔ مجھے جناب اے آر غنی کی سربراہی میں ملک کی قومی کتا بیات کی تر تیب کا موقع ملا،اس کتابیات کے حصہ اول کے مدیران میں میرے علاوہ سید ولایت حسین شاہ، ابن حسن قیصر، عبدالحلیم چشتی، اے اے بسواس، اختر صدیقی شامل تھے۔کتابیات کے دو حصے (جنرل ورک تا اسلام، ۰۰۰ تا ۲۹۷) اور سوشل سائنس تا لسانیات، ۳۰۰ تا ۴۰۰) ۱۹۷۲ء میں نیشنل بک سینٹر نے ۱۹۷۲ء میں شائع کئے۔ اس کتابیات کے تیسرے حصے کی اشاعت حکومت پاکستان کے شعبہ کتب خانہ جات کے جانب سے ۱۹۹۹ء میں عمل میں آئی۔ جو سائنس تا تاریخ و سوانح ، ۳۰۰ تا ۹۰۰) تک موضوعات پر مشتمل ہے ۔ اس حصے کے مدیر اعلیٰ رئیس احمد صمدانی ہیں مجھے اس حصے کے اداراتی بورڈ میں بھی شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔قومی کتابیات کی یہ جلد حکومت حکومت پاکستان کے محکمہ کتب خانہ جات نے ۱۹۹۹ء میں شائع کی۔

۱۹۵۹ء میں گروپ نے انڈر گریجویٹ لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے لئے ایک لائبریری اسکول قائم کیا۔ پہلا سیشن ۱۹۶۰ء میں مکمل ہوا۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۱ء تک جاری رہنے والا پروگرام (Diploma in Bibliography and Special Librarianship)کہلاتا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں پاکستان لا ئبریری ایسو ایشن کی درخواست پر کورس کا نام تبدیل کر کے(Higher Certificate in Library Science) کر دیاگیا جو اب بھی جاری ہے۔چھ ماہ کا یہ سرٹیفیکیٹ کورس حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم، ڈیپارٹمنٹ آف لائبریریزسے باقاعدہ منظور شدہ ہے جس کاگزیٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا۱۹۸۶ء میں جاری ہوا۔ انڈر گریجویٹ لائبریری ایجو کیشن کو حکومتی سطح پر تسلیم کیاجانا ایک حوصلہ افزا امر ہے جس کے لئے عبدالحفیظ اختر بجا طور پرقابل ستائش ہیں ۔ کورس کے اولین ڈائریکٹر فضل الٰہی مر م تھے۔ان کے بعد سید ولایت حسین شاہ، الحاج محمد زبیر ، پروفیسر اخترحنیف اس عہدے پر فائز ہو ئے ۔اب رئیس احمد صمدانی اسکول کے ڈائریکٹر ہیں۔میں۱۹۷۲ء ۔ ۱۹۷۹ء تک اسکول کے انتظامی امو ر کا نگراں اور گروپ کا سیکریٹری تھا۔

س: آپ کو پیشے میں کن امور سے خصو صی دلچسپی ہے؟
ج: اشاریہ سازی اور کتا بیات سازی میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔میں نے کئی کتابیات اور اشاریے مر تب کیے۔ کراچی کے ایک اشاعتی ادارے رائل بک کمپنی کی شائع کردہ بے شمار کتب کے اشاریے میرے ہی مرتب کردہ ہیں۔ کتابیات کی تدوین کا شوق مجھے اپنے ایک استاد اختر ایچ صدیقی کو دیکھ کر پیدا ہوا وہ پاکستان کے صفحہ اول کے کتابیات سازہیں انہوں پچاس سے زیادہ کتابیات تن تنہا مرتب کیں۔ پاکستان کی قومی کتابیات (۱۹۴۷ء ۔۱۹۶۱ء ) کی تفصیل میں آپ کو پہلے ہی تفصیل سے بتا چکا ہوں۔

س: موجودہ دور میں کتاب کلچر ناپید ہوتا جارہا ہے ۔ مطالعہ میں رجحان کی کمی کے کیا اسباب ہیں؟
ج: مطالعہ میں رجحان کی کمی کی کئی وجوہات ہیں دوتین دھائیوں میں ہماری طرز زندگی میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ پہلے انسان مغرب تک واپس گھر آجایا کرتا تھا، وقت گزارنے کے ذرائع محدود تھے، کتاب کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ایسا نہ تھا جسے کتاب کا نعمل بدل کہا جاسکے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بے شمار آپشن مل گئیں جیسے ریڈیو، ٹی وی، انٹر نیٹ، کیبل کے ذریعہ بے شمار چینل تک رسائی ، کمپیوٹروغیر وغیرہ شامل ہیں ۔ ان چیزوں نے ہمیں کتاب سے دور کر دیا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد’’ معاشرے نے ہماری طرز زندگی بدل دی ہے پہلے تبدیلیاں اخلاقیات اور تربیت کی بنیاد پر آتی تھیں اب معاشیات کی بنیاد پر آتی ہیں‘‘۔اس کے علاوہ گھر اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔مطالعہ کا رجحان کم ہی نہیں بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔کتابوں کی قیمتیں لوگوں کی قوت خرید میں نہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے انسان مصروف ہوگیا ہے۔ہر شخص کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افادیت کا خواہشمند ہے ۔ کمپیوٹر سے اطلاعات کی رسائی نہ صرف آسان ہے بلکہ فوری ممکن ہے۔انٹر نیٹ کے ذریعہ معلومات تک رسائی کے باعث قاری لائبریری میں نہیں جاتا ۔ ہمیں یہ رجحان بدلنے کے لیے کتب خانوں میں کمپیوٹر اور
انٹر نیٹ کی سہولت مہیا کرنا ہوگی تاکہ لائبریری فروغ معالعہ کا رجحان پیدا کیا جاسکے۔
(مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد ۳۹، شمارہ ۳، جون ۲۰۰۸ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440704 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More