سارے کے سارے اللہ کے پیارے

وہم جب حد سے آگے بڑھ جائے تو چھوٹا موٹا پتھر بھی پہاڑ نظر آتاہے۔ معمولی سا درد، مرض الموت معلوم ہوتا ہے۔ دل کا دھڑکنا ڈھول بجنے کے مترادف لگتا ہے۔ وہم کے مریضوں کو کہیں پردواء میسر نہیں۔ پرانے طبیب اس مرض ِلادواء کے سامنے بے بس تھے اور آج کی جدید ٹیکنالوجی بھی لاچار دکھائی دیتی ہے۔ ہاں!ڈاکٹروں نے ہتھیارڈال دیئے۔ حکیموں نے پہلے ہی ہار مانی تھی۔ برعکس اسکے "پیرصاحبان'اس لاعلاج بیماری کے علاج کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے جوں جوں وہم بڑھتاجائے گا۔ پیروں اور فقیروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ ویسے بھی آج کے دور میں 'پیرصاحبان"کی کوئی کمی نہیں ہے۔کسی بھی بستی میں چلے جائیے۔ کوئی نہ کوئی انوکھا اور نرالا پیر باباآپ کو درشن ضروردے گا۔ جس کے ماتھے پر قضاء وقدر کی تمام داستانیں تحریر ہوں گی۔جس کے چہرے کے عجیب وغریب نقش ونگار آثار قدیمہ کے گراں بہابت سے کسی قدر کم جاذبِ نظر نہ ہوں گے۔ جس کی زلف ِدراز، رشک ِزلفِ ایاز ہوگی۔

کیوں نہ پیر بابا اکثرلوگوں کے محبوب ہوں گے؟ موت کے سواہربیماری کا علاج ان کے یہاں موجود ہے۔ ایسا کوئی دکھ درد نہیں ہے جس کے واسطے انکے پاس دواء نہیں؟ تکلیف روحانی ہو یا جسمانی، باطنی ہو یا ظاہری، بغیر ملاحظہ پیچیدہ سے پیچیدہ مرض کا علاج کرلیتے ہیں۔یہاں نہ ایکس رے(X-Ray)کی جھنجٹ، نہ الٹراساونڈ(Ultra Sound)کی پریشانی، اور نہ کسی ٹسٹ(Test)کی گرانی کا سامنا ہے۔ بلکہ لاکھ دکھوں کی ایک دواء یعنی تعویذ کا دھواں پینانا گزیر ہے۔چاہیے مریض "استھما"کی بیماری ہی میں مبتلاء کیوں نہ ہو۔ ہے نا!ہربیماری کا آسانی اور سستا علاج؟ اس پر لطف یہ کہ پیربابا بننا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ بس کسی بزرگ پیر(Senior Peer)کی شاگردی میں رہے۔نہ کسی تعلیمی قابلیت کی ضرورت، نہ کسی ڈپلوما کی مانگ !یہی ایک دروازہ ہے جو ان پڑھ بے روزگار افراد کے لیے ہنوز کھلا ہے یہ بات اورہے کہ اسی ان پڑھ پیر باباسے عقیدت مندوالدین ا پنی اولاد کی کامیابی کی ضمانت مانگ کرلاتے ہیں۔ اور پھر اپنی اولاد کے ہاتھ تھما دیتے ہیں تو وہ بچارے محنت سے پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔ پیر بابانے تعویذکے ساتھ ساتھ سوفیصدی وشواس(بھروسہ) جودیا۔ بہت خوب! اولاد سے محروم نہ جانے کتنے لوگ ایسے پیروں سے اولاد طلبی کا برملااظہار کرتے ہیں جو خود بھی لاولد ہونے کے مرض میں مبتلاء ہیں۔ اپاہج پیر سے جسم کی صحت وسلامتی کی درخواست کی جاتی ہے اور پیربابا بھی اپنی ناتوانی اور نااہلی کو نظر انداز کرکے بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں۔"کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوگا۔ چاہوں تو اپنے مایوس مرید کی جولی درجنوں بچوں سے بھردوں"۔ایک اور آسانی تعویذ لکھنے میں یہ ہے کہ یہاں کسی خاص عبارت کو پیش نظر رکھنا لازم نہیں ہے۔الٹی سیدھی لکیروں کے مجموعے کا نام تعویذہے۔ جس طرف بھی چاہے پیر بابا قلم کو گماپھراسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعویذ لکھتے وقت وہ اپنی لکھائی کی طرف دھیان نہیں رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں"پیرہ وان"یعنی پیر کی دوکان سجانے کے لیے بہت کم سامان درکار ہوتا ہے۔ ایک سیاہی کی بوتل، سفید کاغذکے چندشیٹ اور فونٹین پین(Fountai Pen)؛(آج کل بال پن بھی چلتا ہے)۔سننے میں آیا ہے کہ آج کل کچھ ماڈرن پیر حضرات نے فوٹو سٹیٹ مشینوں کو بھی اپنی خدمات کا شرف بخشاہے ۔مریدوںکی بیڑھ اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ پیر صاحب کا تیز رفتار ہاتھ بھی مریدوں کی ڈیمانڈ پورا کرنے سے قاصر ہے ۔ اسی ڈیمانڈ کے پیش ِنظر تعویذ کی فوٹو سٹیٹ کاپی فراہم کی جاتی ہے۔تاثیر کے لحاظ سے یہ فوٹو سٹیٹ کا اصلی تعویذ سے کم نہیں ،بشرطیکہ پیر سے تصدیق شدہ (attested)ہو۔علاوہ ازیں ان پیروںکوقرآن کی تلاوت آتی ہوتو سونے پر سہاگاہے۔ البتہ تجوید، قرآن پڑھنے کے احکام ،زیر،زبر، پیش وغیرہ کی رعایت سے مذکورہ پیر صاحبان مستشنیٰ ہوتے ہیں۔

نوکری کا مسئلہ ہویا رشتے کامعاملہ، گھر کا جھگڑاہویاباہر کی لڑائی، افسرکی سختی ہو یاماتحت کی چالاکی۔والدین اور اولاد میں دراڑڈالناہویاشوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کے بیج بونا ۔یہ سب ایک تعویذ کی تاثیرکے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ یہ حضرات اگر جادو اور سحر کرنے پر آجائیں تو سامری کا جادواماں مانگتا ہے۔ یہاں کسی بھی معاملے کو سلجھانے سے انکار نہیں۔پیر باباسخت سے سخت کام کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ کام بنے یا نہ بنے پھر بھی ابتداء ہی میں یہ لوگ اپنے مریدوں کو یقین و اعتماد سے مالامال کردیتے ہیں۔ جب بھی کوئی گھمبیر مسئلہ(Serious case)انکے پاس آجاتا ہے تو یہ کسی سوچ و بیچار میں پڑنے کے بجائے مرید کو ہی شش و پنج میں ڈال دیتے ہیں۔مثال کے طور پر کوئی ایسا عمل مرید کے حوالے کردیا جس کا کرنا ناممکن نہ سہی وحشت ناک اورتکلیف دہ ضرورہو۔ جیسے سات کیل زندہ مرغ کے جسم میں ٹھوکنا۔ کالی اندھیری رات میں تعویذ کو کسی پرانی اور خستہ حال قبر میں دفنانا وغیرہ وغیرہ۔ بچارے مرید کو اس طرح کا نسخہ دے کر پیر صا حب اُسے یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے معاملے کو سلجھانے میں دلچسپی اور سنجیدگی سے کام لیا۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ لازمی ہے کہ جو چیز زمانے کے ساتھ نہیں چلتی اُسے زمانہ بچھاڑدیتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ اصول کارگر نہیں۔صدیاں گذرگئیں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ نہ پیروںکا انداز بدلا ، نہ"جِنوں" کے مزاج بدلے۔ آج سے سو سال قبل بھی جن، بھوت پریت کو بھگانے کے لئے جن زدہ شخص کے سامنے دھواں رکھا جاتا تھا اور ابھی تک یہی نسخہ قائم ہے۔معمولی سی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ پیرو مرید دونوں اسی پرانی ڈگر پر گامزن ہیں۔ اسکے باوجود ماشااﷲ آمدنی میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔آمدنی کے لحاظ سے پیر صاحب کسی رشوت خور سرکاری افسر سے کم نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سرکاری افسر کو رشوت کے طور پر رقم دیتے وقت خود پر ہورہے ظلم کو لوگ محسوس کرتے ہیں اور یہاں ہرکوئی خوشی خوشی پیر صاحب کے دربارمیں بغیر ہچکچاہٹ نذرانہ ڈال کر بدلے میں اطمنانِ قلب حاصل کر لیتا ہے۔نیز اس بات پر نازاں خالی جیب گھر لوٹتاہیں کہ ان کے نذرانے کو پیر بابا کے دربار میں شرفِ قبولیت بخشا گیا۔ ایک بات جو بڑے بڑے ڈاکٹروں اور پیرصاحبان میں مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ڈاکٹر بھی مختلف بہانوں سے مریض کا آنا جانا تادیربرقرار رکھتے ہیں اور پیر بھی اپنے مریدوں کے آون جاون کو برقرار رکھنے کے لئے نئے نئے حیلوں سے کام لیتے ہیں۔وہاں بھی مریضوں کی بیڑھ لگی رہتی ہے اور یہاں بھی مرید قطاراندر قطار صبح سے لیکر شام تک راشن گھاٹ کے صارفوں کی طرح اپنی باری کا انتطار کیا کرتے ہیں-

خدا کے ان پیاروں کے دربار میں آکر ہر دکھ زدہ شخص بغیر کسی انٹرول(Interval)کے اپنی پوری دکھ بھری داستان سناتا ہے، کوئی اپنے ظالم ہمسایہ کے بے شمار زیادتیوں کو گنواتا ہے۔ تو کوئی ماں باپ کی شکایت کرتا ہے۔ کسی کواولاد کی نافرمانی کا گلہ ہے تو کسی کوبہو کی بغاوت کا غم کھائے جارہاہے۔ سماج کے ستائے ہوئے، گھر والوں کے ٹھکرائے ہوئے دو دل ہم آہنگ ساز اور اآواز میں ایک ساتھ اپنی پریم کہانی کا ایک ایک انگ بغیر کسی کانٹ چھانٹ کے اپنے اس محسن کے سامنے رکھتے ہیں۔دراصل یہ بچارے سوچتے ہیں کہ ان سے چھپانا کیا ؟یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ یہاں ہرپوشیدہ سے پوشیدہ معاملہ بھی عیاں ہوتا ہے ۔گذرے ہوئے واقعات انہیں ازبر ہوتے ہی ہیں آئندہ پیش آنے والے حادثات پر بھی اپنے مخصوص علم کے ذریعے نظر رکھتے ہیں ۔مستقبل کے بارے میں پیش پیش گوئی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ البتہ موجودہ حالات سے اسقدر بے نیازہتے ہیں کہ اگر کسی سے پوچھاجائے کہ امریکا کے موجودہ صدر کون ہے تو ممکن ہے کہ جواب ملے،منموہن سنگھ!

عاشق حضرات باربار آگے اپنا حال دل پیر صاحب کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اظہارِ عشق کا واحد مرکز جومل گیا۔ آزادی اظہار کا یہی رواج اگر معاشرے میں رائج ہوگیا تو جوانی اور بڑھاپے کی تفریق مٹ جائے گی۔ نوجوان دن بھر کی تمام کرتوت شام کو بزرگوں کے روبروگھر والوںکو سناسکتے ہیں۔

ان کے کمالات کا کوئی حساب نہیں۔ سب سے بڑا کمال یہ کہ سرکش اور آوارہ"جن"کو اپنے تابع کرکے کام پر لگادیا۔ شیطان کا سر شرم سے جھک جاتا ہوگا۔ جب وہ اپنی ہی برادری کے جنات کو اسی انسان کے سامنے غلام کی حیثیت سے دیکھتا ہوگا۔ جسکے سامنے جھکنے سے اُس نے "روز ازل "ہی انکار کی جرائت کی تھی۔ حالانکہ ان غلام جنات سے بھی اکثر وہی کام لیا جاتا ہے جو شیطان کا پسندیدہ ہو جب بھی'جن'کسی انسان کے سر پرسوارہوتا ہے۔ تو"جن"کوبھگاتے وقت پیر صاحبان کا لہجہ گرجدار اور رویہ بہت ہی کڑا ہوتا ہے۔ بعض اوقات دھوکے میں کسی علیل بیمار کو'جن زدہ"سمجھ کرزدہ کوب کیا گیا۔ چنانچہ جن وبھوت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لہذا"جن"کے بدلے جان ہی نکل گئی۔

مشاہدے میں کچھ اس طرح کاواقعہ بھی گزراہے کہ"تعویز پیر"کے پاس ایک شخص آگیاجس نے اپنے دشمن ہمسایہ کی بربادی کا سامان پیر صاحب سے حاصل کر کے اُسکے صحن میں دبادیا اور پھر تین دن کے بعد وہ ہمسایہ بھی اُسی پیر کے پاس آکر اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کرنے لگا۔ تو جواباًپیر صاحب نے فرمایا کہ تمہارے صحن میں فلاں جگہ ، فلاں چیز دفن ہے۔ اُسکو نکال کر اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا پاؤ۔چنانچہ اس بچارے نے اُسی پیر کی کارستانی جب اُسی جگہ دفن دیکھی۔ تو اُسکے یقین واعتماد میں بے حد اضافہ ہوگیا اور اس نے نہ صرف پیر کے علمِ غیب کا اعتراف کیا بلکہ اور وں میں بھی اس کے چرچے کا سامان بن گیا۔
بنظرِ غائردیکھا جائے تو پیروں کو مرید کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی تو ہے نہیں! مگر مایا کی خاطر وہ لوگوں میں دشمنی اور نفرت کی دیواریں کھڑی کردیتے ہیں اور بعد اذاں انہیں فنا کرنے کے کرتب دکھاتے ہیں۔یہ کرتب اُن لوگوں کے لیے معجزے بن جاتے ہین۔ جن کے ہوش وحواس اڑانے میں پیرکامیاب رہا ہوتا ہے۔ بے ہوشی کے عالم میں وہ پیر کے مایا رام بن جاتے ہیں۔ پیر بھی آباد، مرید بھی ابدل آباد، اور چیلے چانٹے، زندہ باد۔

بحثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سارا کھیل ایک پیشہ ہے۔ جسمیں اقتصادی اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح دوکاندار (Customer) خریدار پر، اور خریدار، دوکاندار پر انحصار رکھتا ہے اُسی طرح مرید، پیر پر اور پیر، مرید پر دارومداررکھتا ہے۔یہ پیشہ بھی مختلف شعبوں پر مشتمل ہے۔ ہر پیراگر چہ کلی طور تمام شعبوںپردسترس رکھتا ہے۔لیکن ہر پیر میں کوئی نہ کوئی مخصوص گن ہے اور اُسی گُن کے مطابق وہ کسی ایک شعبے کا ماہر(Specialist)ہے کوئی ماہرِ سحر ہے تو کئی ردِسحر کا ماہر، کوئی انسان پر "جن"سوار کرنے کا ،توکوئی"جن"کوبھگانے کا۔ یہی پہلو اقتصاد کے میکانیزم یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی کو وجود میں لاتا ہے۔ ظاہر ہے ردِ سحر کا ماہر جب ہی کسی مرید سے دکشنا لیکر اپنے فن کے کرتب دکھا سکتا ہے۔ جب ماہر ِسحر کسی شخص پر اپنا فن آزمائے۔ یہ عمل اور ردعمل کا سلسلہ بچارے مرید کو(Volley ball)کی مانند ایک جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ کبھی اُس کو ٹ میں تو کبھی اس کوٹ میں! پیر صاحب کا مستقبل ماشااﷲ تابناک ہے۔ وہ مرید کو بحثیت ِخشت وسنگ قصر ِمستقبل میں استعمال کرکے اور رنگ وروگن کے بجائے اُن کے خون سے کام چلا سکتے ہیں۔ بچارے مریدوں کے مصائب و مشکلات میں کوئی کمی واقع ہوگی ان کے مسائل حل ہوں گے یا نہیں ۔ اسکا جواب اﷲ کے ان پیاروںیعنی پیروں کے پاس شاید ہو۔
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 54722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.