پاکستانی رائے دھندہ (ووٹر) کی اہلیت ۔۔۔

انتخابی اصلاحات

پاکستانی رائے دھندہ (ووٹر) کی اہلیت ۔۔۔

ہر پاکستانی جو اٹھارہ (١٨) سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہو اور وہ نادرہ کا غیر منسوخ شدہ شناختی کارڈ کا حامل ہو وہ ہر سطح کے عوامی نمائندوں کے چناؤ کے لئے ہونے والے انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکتا ہے۔

برازیل، نکاراگوا، کیوبا اور اسٹریا میں یہ عمر سولہ (١٦) سال ہے جبکہ ریپبلک آف کوریا میں ١٩سال، کیمرون، جاپان اور تائیوان میں بیس (٢٠) سال ۔۔۔ گیبون، سینٹرل افریقن ریپبلک، سعودی عرب، لبنان، عمان، ملیشیا، فیجی، سولومن جزائر میں اکیس (٢١) سال ہے اور متحدہ عرب عمارات اور مغربی سحارہ میں تو عمر کی کوئی قید ہی نہیں۔ اٹھارہ سال کم از کم عمر امریکہ، کینیڈا یورپی اور دیگر ترقی یافتہ مملک میں ہے اور بہت سے ترقی پزیز اور غریب ممالک میں بھی ۔۔۔۔۔۔ دیگرممالک نے تو ٢١ سے ا٨ سال کچھ سوچ سمجھ کے کی ہوگی لیکن ہمارے ہاں اس کو ٢١ سے ١٨ کیا جانا یا تو ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید یا پھر عوام کے منتخب نمائندوں کے اداروں اور ایوانوں میں بیٹھے افراد کے ذاتی مفاد کا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ انہیں ملک کی دولت کو لوٹنے کے لئے نت نئے طریقے ڈھونڈنے اور پھر ان پر عمل درآمد کرنے سے ہی فرصت نصیب نہیں ہوتی اس طرح کے فضول معاملات پر قومی مفاد میں سوچنے کے لئے وقت کہاں سے لائیں۔

اس معاملہ پر ہم کیوں بات کرنا چاہ رہے ہیں آئیں اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں -

بہت سے لوگ خود گاڑی چلانا پسند نہیں کرتے یا ان کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ڈرائیور رکھیں ۔۔۔۔ فرض کرلیں کہ آپ بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جس کو اپنی انتہائی قیمتی جدید نئی گاڑی کے لئے ایک ڈرائیور درکار ہے۔ تو اس کے لئے آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ ۔۔۔۔۔۔ یقینا آپ جاہیں گے کہ وہ انتہائی تجربہ کار اور مستند ڈرائیور ہو اور آپ یہ بھی چاہیں گے کہ اس کا کوئی ضامن بھی ہو ۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے آپ کیا کریں گے؟ ظآہر ہے کسی سے مشورہ کریں گے اور اسے ڈرائیور تلاش کرنے کے لئے کہیں گے ۔۔۔۔۔۔ تو کس کو کہیں گے؟ کیا آپ اپنے محلہ کے موچی کو کہیں گے؟ محلہ کے سبزی فروش سے مشورہ کریں گے؟ ۔۔۔۔۔۔ محلہ میں خاکروب سے رجوع کریں گے؟ یا کسی ایسے شخص سے رابطہ کریں گے جس کے پاس گاڑی ہو اور وہ ڈرائیور رکھتا ہو یا رکھنے کا تجربہ رکھتا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ اس معاملہ میں کسی اٹھارہ سالہ لڑکے کی رائے کو ترجیح دیں گے یا کسی پختہ عمر کے تجربہ کار شخص کی رائے کو؟ ۔۔۔۔۔ یقینا آپ اس معاملہ میں محتاط رہتے ہوئے ایسے شخص کو کہنا اور رائے لینا پسند کریں گے جو اس بات کا شعور رکھتا ہو کہ ایک قیمتی گاڑی کے لئے ڈرائیور کے انتخاب میں کیا کیا احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہئیں ۔۔۔۔۔ یقینا اس کے لئے آپ پختہ عمر کے ایسے شخص کو ترجیح دیں گے جو ان معاملات کا تجربہ رکھتا ہو اور ایک اچھا ضامن بھی ثابت ہو۔

اگر آپ ڈرائیور کو منتخب کرنے کے لئے فرد کے انتخاب میں کوتاہی برتتے ہیں تو کیا ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔ اگر ڈرائیور اناڑی نکلا تو گاڑی سے ایکسیڈنٹ کی صورت میں نہ صرف گاڑی کو بلکہ گھر کے ہر فرد کی جان کو خطرہ ۔۔۔۔۔ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی صورت میں بھی آپ کو خطرہ اور نقصان ۔۔۔۔۔ گاڑی کے سسٹمز اور کارکردگی خراب ۔۔۔۔۔ اور اگر بدمعاش، چور ڈاکو ہوا تو گاڑی سمیت گھر کی اشیاء کو خطرہ ۔۔۔۔۔ خود آپ اور آپ کے گھر والوں کے جان اور عزت و آبرو کو خطرہ ۔

ممالک بھی اقوامِ عالم میں گاڑیوں کی طرح ہیں جن پر سوار قومیں ترقی کی شاہراہ پر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ڈور میں شریک ہیں۔ ترقی کی شاہراہ پر کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس ملک کی گاڑی کا ڈرائیور کیسا ہے؟ ۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھنے کے لئے اتنے سخت اور جامع قوانین بنا رکھے ہیں کہ غلط اور نااہل لوگ اس تک آ ہی نہیں سکتے اور اس کے بعد بھی نگرانی اور احتساب کا ایسا نظام لاگو ہے کہ غلط لوگ اگر کسی طرح اس سیٹ تک پہنچ بھی جائیں تو تا دیر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور اگر قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کریں تو ٹھیک ورنہ قانون حرکت میں آ جاتا ہے اور انہیں سیٹ سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

ہمارے ملک میں خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقوامِ عالم میں بے عزتی سے بچنے کے لئے ہم نے اس کو بھی خواندہ ظاہر کر رکھا ہے جو فقط دستخط ہی کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔ اِن ان پڑھ جاہلوں کی اکثریت انسان کہلانے کی بھی حق دار نہیں یہ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں اپنے نفس اور پیٹ کی آگ بچھانے کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں ۔۔۔۔۔ انہیں وطن سے زیادہ اپنی ایک وقت کی روٹی زیادہ عزیز ہے ۔۔۔۔۔۔ دس روپے کی خاطر اپنی ماں کو بیچ دینے والے لوگ، اقوامِ عالم میں اب یہی ہماری پہچان ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگوں کو اپنی گاڑی کے ڈرائیور سے تو دلچسپی ہو سکتی ہے لیکن ملک کے ڈرائیور سے نہیں۔

اس اہلیت کی بنیاد پر جو لوگ رائے دہی کا حق حاصل کرتے ہیں یعنی ووٹر بنتے ہیں وہ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی واضح اکثریت یہ نہیں جانتی کہ :

ووٹ کی اہمیت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ وطن کیا ہے اور آزادی کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ جمہوریت کیا ہے اور آمریت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ کونسل، صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کیا ہوتی ہیں؟ عوام کے منتخب نمائندوں کے فرائض کیا ہیں؟

یہ وہ لوگ ہیں جو:

جاگیرداروں اور وڈیروں کے سامنے پیر میں جوتی پہن کر نہیں جاتے ۔۔۔۔۔ اپنے نمائندوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتے بلکہ ان کے پیر یا جوتیاں چھوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اپنے نمائندوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں یا اجازت ملنے پر زمین پر بیٹھتے ہیں انہیں چارپائی یا کرسی پیش نہیں کی جاتی ۔۔۔۔۔ ایک وقت کے دیگ کے چاول پر اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اپنے حاکموں کو رب سمجھتے ہیں اور ہر مصیبت پر جو کہ ان کی ہی نازل کردہ ہوتی ہے چٹی دے کر ان سے ہی مداوا چاہتے ہیں اور حد یہ ہے کہ ان کا بڑے سے بڑا جرم اور زیادتی صرف اس بنیاد پر معاف کردتیے ہیں کہ ووٹ لینے کے لئے ان کا وڈیرہ، خان یا سائیں ان کے گھر چل کر جو آ گیا ۔۔۔۔۔ اپنے آقاؤں کی مرضی کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتے۔

کیا یہ رائے دہی کا حق رکھتے ہیں؟

حقیقی رائے کے لئے آزاد سوچ ضروری ہوتی ہے جس کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے جو شعور پیدا کرتی ہے اور پھر یہی شعور سوچ کو غلامی سے آزاد کرتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ جاہل غلام اپنے ذاتی معاملات میں فیصلہ کرنے کے لئے آزاد نہیں تو کیا ایسوں کے ہاتھ قوم کے مستقبل کے لئے حکمران منتخب کرنے جیسے حساس معاملات دئے جانے چاہیئیں؟ ۔۔۔۔۔۔ صد افسوس زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ملک کی تقدیر ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور اسی وجہ سے ملک ترقیِ معکوس کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ پڑھے لکھے اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی رائے ان بھیڑ بکریوں کے آگے صفر ہوجاتی ہے اور اسمبلیوں میں ان ہی کے من پسند منتخب افراد عدل و انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور کوئی کچھ کر نہیں سکتا۔ ہر انتخابی عمل میں وہی پرانی تاریخ دہرائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ ہر مرتبہ قوم ایک امید لگا کر انتخابات میں حصہ لیتی ہے کہ شاید اس پار تقدیر بدل جائے اور قوم اور ملک کے حالات کچھ بہتر ہوجائیں لیکن ہمیشہ مایوسی ہی مقدر رہتی ہے کہ یہ بھیڑ بکریاں انہیں آزمودہ آقاؤں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیچ دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مخلص و با ضمیر شخص ان جدی پشتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے مقابلے میں ہمت کرکے کھڑا ہو بھی جائے تو اسے ووٹ نہیں ملتے کہ یہ بھیڑ بکریاں تو انہی کے قابو میں ہوتی ہیں اور اپنے آقاؤں کے مرضی کے خلاف سوچنے کی صلاحیت اور ہمت نہیں رکھتیں۔

یہ تو تھیں وہ باتیں جو رائے دہندہ کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے تھیں جس کا ایک ووٹر کی اہلیت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اب آئیے عمر کے حوالے سے کچھ بات کر لیتے ہیں۔ جو کہ ٢١ سال کم از کم سے کم کرکے ١٨ سال کر دی گئی ہے ۔ یہ چلن تو ترقی یافتہ ممالک کا ہے جہاں تعلیم کی شرح ٩٩ فیصد سے بھی زیادہ ہے اور تعلیم بھی وہ جو انسان میں شعور پیدا کرتی اور درست فیصلے کرنے کا اہل بناتی ہے ۔۔۔۔۔ ایمانداری سے فیصلہ کریں ۔۔۔۔۔ کیا ہمارے ہاں ١٨ سال کی عمر ایک پختہ عمر تصور کی جاتی ہے؟ کیا کسی سنجیدہ اور حساس نوعیت کے کام کے لئے آپ ١٨ سالہ لڑکے یا لڑکی پر اعتماد کریں گے؟ آج کے دور میں اتنی کم عمر کے لڑکے کو کوئی لڑکی دینا پسند نہیں کرتا کہ اس عمر میں ذہن کچا اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ تو کیا یہ ملک اور اس کی قسمت کے حساس نوعیت کے فیصلوں کی اہمیت کسی ملازم کے رکھے جانے اور شادی بیاہ جیسے معاملات سے بھی گئی گزری ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اس عمر کے لڑکے لڑکیوں کو عموما بچہ تصور کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کا عام زندگی کے مسائل سے واسطہ نہیں پڑا ہوتا یہ تو کھیلنے کودنے کی عمر شمار کی جاتی ہے۔ کیا اس نا سمجھی کی عمر میں ان بچوں پر ملک کے مستقبل پہ اثر انداز ہونے والے فیصلوں کا بوجھ ڈالنا اس ملک کے ساتھ سنگین مزاق نہیں ۔۔۔۔۔ ایک طرف تو ریاست اس عمر کے شہریوں کو غیر ذمہ دار قرار دے کر ان سے اسکولوں اور کالجز میں (طلبہ سے) یونین سازی کا حق چھینے ہوئے ہے جو کہ یونین کونسل سے بھی کہیں کم درجہ کا سیاسی عمل ہے اور دوسری طرف اس کو قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کرنے کا اختیار بھی دے رکھا ہے یہ دو عملی نہیں ۔۔۔۔۔ منافقت نہیں؟

تجویز :

وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں رائے دہندہ کے لئے اہلیت کی شرائط کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور اس میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں انتخابی اصلاحات کے طور پر درج ذیل سفارشات کو زیرِ غور لایا جاسکتا ہے۔

!) رائے دہی کے لئے عمر کی کم سے کم حد اٹھارہ سال سے بڑھا کر اکیس سال کردی جائے۔
٢) رائے دہندہ کے لئے کم از کم تعلیم کی حد مقرر کی جائے۔ جو ترجیحا انٹر میڈیٹ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو میٹرک کو معیار مقرر کیا جائے۔

ممکنہ ردِ عمل:

اس بدقسمت ملک کی عوام جس کی اکثریت بھیڑ بکریاں ہیں ان کی طرف سے تو کسی خاص ردِ عمل کی توقعہ نہیں کی جاسکتی۔ جب وہ بجلی، پانی، تن کے کپڑے، سر کی چھت اور منہ سے نوالہ چھن جانے پہ کچھ نہیں بولتے تو ووٹ کے حق سے محروم ہونے سے ان کو کیا فرق پڑ جانا ہے ۔۔۔۔ اصل فرق تو ان جونکوں کے مفاد پہ پڑنا ہے جو اس ملک کا خون اِک عرصہ سے چوس رہی ہیں اور ردِ عمل بھی ان ہی کی طرف سے آنا ہے لیکن یہ وقت ہے کہ اس وقت احتجاجی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ ترامیم کروانا ممکن ہے۔

فوائد :

١) جاگیرداروں اور وڈیروں سے چھٹکارہ

جب ووٹر با شعور ہوگا اور جاہل بھیڑ بکریوں سے چھٹکارا مل جائے گا تو ان جاگیرداروں اور وڈیروں کو ووٹ دینے والے بہت کم ہوں گے اور اچھی اور مخلص قیادت سامنے آئے گی۔


٢) خواندگی میں اضافہ

رائے دہی کے لئے تعلیم کی شرط لگ جانے سے تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوگا۔ جو تعلیم حاصل کرسکتے ہیں وہ تعلیم حاصل کریں گے کہ ساری زندگی کے لئے اس حق سے محروم نہ رہیں۔ اور جو اس حق سے محروم ہوں گے وہ اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے کہ ان کی اولاد دوسرے درجے کے شہری کی سی زندگی بسر نہ کرے۔ اصل میں تو ان لوگوں میں اتنا شعور ہے ہی نہیں کہ وہ اس بات کو محسوس کرسکیں کہ ان سے حقِ رائے دہی چھین لیا گیا ہے کیونکہ انہیں آج تک کوئی حق ملا ہی نہیں سوائے اپنے وڈیروں اور جاگیرداروں کی غلامی کرنے کے ۔۔۔۔۔ یہ تو پہلے ہی بڑی بڑی انسانی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں تو اس حق سے محرومی ان میں شاید ہی کوئی تحریک پیدا کرے ہاں ان کے آقاؤں میں یہ خیال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کی تعداد بڑھانے کے لئے اپنے علاقوں میں تعلیم کو عام کریں۔ اس طرح شرح خواندگی لازما بڑھے گی۔

٣) بچت اور سہولت

جب ان اصلاحات کی صورت میں ووٹرز کی تعداد کم ہوگی تو انتخابات کی مد میں آنے والے اخراجات بھی لا محالہ کم ہو جائیں گے اور عملے کو نتائج مرتب کرنے میں سہولت پیدا ہوگی اور زیادہ سرعت کے ساتھ ان کا اعلان کیا جا سکے گا۔

ہمارے ہاں امیدواروں کے لئے تعلیم یافتہ ہونے کی شرط تو ہے لیکن ان کو جو لوگ منتخب کرتے ہیں وہ جاہل ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جاہلوں کے منتخب کردہ تعلیم یافتہ سے تعلیم یافتہ لوگوں کا منتخب کردہ جاہل بہتر ہے۔
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 53 Articles with 44381 views https://www.facebook.com/pages/BazmeRiaz/661579963854895
انسان کی تحریر اس کی پہچان ہوتی ہےاس لِنک کو وزٹ کرکے بھی آپ مجھ کو جان سکتے ہیں۔ویسےکراچی
.. View More