یار لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تم بزرگی کا دعویٰ کردو۔ کیوں
مجھ میں ایسی کیا خوبی پیدا ہو گئی ہے کہ میں ’’ پیر‘‘ ہونے کا دعوی کردوں؟
انکی دلیل یہ ہوتی ہے کہ تم جو کہتے ہو حالات ویسے ہی ڈھل جاتے ہیں……کیاکوئی
دلیل شلیل ہے تمہارے پاس ؟ میرے استفسار پر کہتے ہیں،ابھی تم نے رات کو کہا
کہ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں انقلابی مظاہرین کے خلاف حکومت سے ’’
ہتھ ہولہ‘‘ رکھنے اور معاملات کو بنا ایک لمحہ ضائع کیے سدھار لینے کا
مطالبہ ہوگا۔ویسا ہی فوج کی تشویش پر مبنی بیان سامنے آیا……پھر تم نے (سولہ
اگست 2014)کوکہا کہ اسلام آباد پر یلغار کرنے والے اپنے مقاصد پورے بغیر
واپس نہیں لوٹیں گے……عمرا ن خاں اور طاہر القادری کی تقاریر اور عمل نے
تمہاری باتوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ تم علم نجوم کے
بھی ماہر ہو۔
میں نے انہیں اپنے پیر یا ماہر علم نجوم ہونے کے بارے میں صفائیاں دے دے کر
تھک گیا ہوں ،مگر یار لوگ ہیں کہ میری صفاٗیوں کو اسی طرح رد کر رہے ہیں جس
طرح اپنے انقلابی اور آزادی مارچ والوں کے قائدین حکومت کی ہر پیشکش کو
ٹھکر دیتے ہیں۔ خیر اب میں اپنے اصل موضوع کی جانب لوٹتا ہوں ……کورکمانڈر
کانفرنس اور وزیر اعطم نواز شریف سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد آنے والے
دنوں میں ہونے جا رہا ہے ،اس کے خدوخال واضع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔انقلابیوں
کا پی ٹی وی پر قبضہ کرناا ور پارلمنٹ ہاوس میں گھس کر بیٹھنا سب کچھ عیاں
کر رہا ہے۔
مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ اسلام آباد میں فوج کو 245 کے
اختیارات دینے کا کیا فائدہ ہوا ہے؟اہم عمارات کی حفاظت کی ذمہ دار ی کیوں
پوری نہیں کی گئی؟ بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہقومی سلامتی کے ذمہ دار
اداروں پر بے جا تنقید کی جا رہی ہے۔ تنقید کا بری منانے کی بجائے اپنی ذمہ
داریاں نبھانے پر غور کیا جائے تو ملک کو اس غیر یقینی صورت حال سے نکالا
جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد میڈیا پر ایسی خبروں
کا چلنا کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیدیا…… ایسا
تاثرکیوں پیدا ہوا؟ حالانکہ اس ملاقات میں آرمی چیف نے کور کمانڈر کانفرنس
کے فیصلوں پر بریفنگ دی۔
میرے دوست سید طہماسپ علی نقوی نے میڈیا پر وزیر ہاوس کے ترجمان کی طرف سے
وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی خبروں کی تردید دیکھ کر کہا ایسی تردیدیں اسی
وقت آتی ہیں جب اندر کچھ موجود ہو…… پھر وقت نیوز کے حاجی طارق اقبال کا
فون آیا کہ اس خبر کی آئی ایس پی آر نے تردید کردی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ
وزیر اعظم ہاوس سے تو تردید آ گئی ہے۔ مگر آئی ایس پی آر کی جانب سے ابھی
کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ آئی ایس پی آر نے
آرمی چیف کی جانب سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دئیے جانے کی خبروں
کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے۔
آج پارلیمنٹ کا جوائینٹ سیشن ہو رہا ہے۔جس میں ابھی تک کی صورت حال پر وزیر
اعظم کھل کر باتیں کریں گے اور ہاوس کو اعتماد میں لیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ
مشترکہ طور پرکچھ فیصلے بھی کیے جانے کی توقعات ہیں ۔پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ
جمہوریت کے تحفظ اور غیر آئینی اقدامات سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا
فیصلے کرتا ہے۔یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں محسوس کر رہا ہوں کہ آنے
والے چند دن فیصلہ کن ہوں گے۔عمران خاں اور طاہرلقادری مارنے اور مارنے کی
باتیں ایسے نہیں کر رہے ۔مجھے تو خدشہ ہے کہ کہیں ہمارے ان دونوں قائدین کی
زندگی خطرے میں پڑ جائے۔جس کے خدشات موجود ہیں اور کچھ حلقوں کی جانب سے اس
اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔اﷲ خیر کرے ۔
اسلام آبد کی صورت حال کے تمام ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ ایسا طرز عمل
اختیار کرنے اور ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کریں جس سے ملکی وقار پر حرف
آئے۔اور جمہوریت کا وجود خطرات میں گرجائے۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ
ہمیں ملک کی قومی سلامتی کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا
۔ہمارے عزیز اور عظیم دوست ملک چین کے صدر پاکستان کے دورے پر آنے والے ہیں۔
خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شائد چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوجائے۔یہ
صورت حال کسی طور بھی ملک کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں ہے۔تمام فریقین کو
محتاط رویوں کا مظاہر کرنا ہوگا۔ اور ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے سیاستدان ذمہ
دار ہیں اور انہیں اپنی ذمہ داروں کا پوری طرح احساس بھی ہے۔مجھے امید ہے
کہ ہمارے ہردل عزیز رہنما عمران خاں اور علامہ طاہر القادری سمیت دیگر لوگ
بھی قومی سلامتی کی علامت پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے اجتناب برتیں
گے۔اور انہیں برتنا بھی چاہیے۔
|