تہذیب یافتہ ممالک تودھرنوں اور لانگ مارچوں سے تبدیلی کے
قائل ہے مگرمیرادیس.. ....؟؟
آج جس طرح لولی لنگڑی اور خاندانی جمہوریت کو ڈیل ریل کرنے اور آئین کا پھر
سے شیرازہ بکھیرنے والوں کی معاونت کرنے والے انقلابیوں ودھرنیوں اور آزادی
سے گاتے بجاتے اور رقص کرتے نیاپاکستان بنانے والے لشکریوں کے عزائم کے
سامنے پارلیمان کے دونوں ایوانوں والے دوروز سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن
کر کھڑے ہیں اور خداجانے یہ کب تک یہ ایساکرتے رہیں گے اور پارلیمان کے
اجلاسوں میں اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر گرماگرم تقریریں کرتے رہیں گے اِس کے
بارے میں کم ازکم ابھی تو کچھ نہیں کہاجاسکتاہے کیوں کہ جیسے جیسے دِن
بڑھتے جارہے ہیں دھرنی وزیراعظم سے استعفی ٰ لئے بغیر نہ جانے والی ضدپر
ڈٹتے ہی چلے جارہے ہیں اور دھرنی وزیراعظم سے استعفیٰ لئے بغیرجانے کو اپنی
زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھنے لگے ہیں اَب ایسے میں آج جولوگ ایوانوں میں
جمہوریت بچانے کے لئے لمبی لمبی تقریریں کررہے ہیں اور کیااِسی طرح یہ لوگ
کبھی توانائی کے بحرانوں سمیت مہنگائی ، کرپشن اور دہشت گردی اور قتل وغارت
گری جیسے سنگین مسائل میں گھرے پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے بھی کھڑے
ہوئے ہیں اور اِسی طرح کیا کبھی پارلیمان والے مُلک اور عوام کو مسائل کی
دلدل سے نکالنے کے لئے بھی اکٹھے ہوئے ہیں...؟آج جو یہ لوگ ایوانوں میں
اپنی مفادپرستانہ اور اپنی انگلیوں پر ناچتی جمہوریت کو بچانے کے لئے نکل
کھڑے ہوئے ہیں..؟یہ ہمارے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین کے لئے لمحہ
فکریہ ہوناچاہئے کہ آج جب عمران وقادری نے لشکرکشی کے انداز میں اِن کے
مفادات پر کاری ضربیں لگائی ہیں تو(سوائے چندایک جماعتوں کے مقررین کے) یہ
سب کے سب اپنے مفادات کے لئے کیسے ایک ہوگئے ہیں اورمگر جب یہ ایوانوں میں
بیٹھ کر عوامی مفادات کا گلاگھونٹ رہے ہوتے ہیں تب اِنہیں وہ جمہوریت یاد
نہیں آتی جو جمہوریت کی اصل تعریف اور اِس کی اصل روح ہے۔
اُدھرعمران وقادری نے جو اور جیسادھرنادیاہے، آج اِن کے دھرنوں پہ قوم یہ
ضرورسوچ رہی ہے کہ کیا کبھی علامہ طاہر القادری اور عمران خان نے مُلک اور
قوم کو توانائی کے بحرانوں،دہشت گردی ،کرپشن اور قتل وغارت گری سے نجات
دلانے کے لئے بھی کسی قسم کا جلسہ یا کو ئی جلوس منعقدکیا یا کوئی ریلی
نکال کر احتجاج کیا ہے، اَب جو اِن دونوں نے یکدم سے انقلاب و آزادی کی آڑ
لے کے نیاپاکستان بنانے اور عوام تک حقیقی جمہوریت کے ثمرات تک پہنچانے کے
لئے ایک ماہ سے مُلک میں سیاسی ہلچل پیداکررکھی ہے اور اسلام آبادکے مقدس
ریڈزون کو اپنے کارکنان سے مچھلی بازاراورمعصوم اِنسانوں عورتوں اور بچے
اور بچیوں اور نوجوانوں کے لئے مقتل گاہ بنا کررکھ دیاہے،یہ وہ سوالات ہیں
آج جن کے جوابات نہ دھرنیوں اور انقلابیوں اور مفادپرست حکمرانوں اور اپنی
قائم کردہ مفادپرست جمہوریت سے صرف اپنے لئے فائدے اُٹھانے والے دے سکیں
گے..؟اور نہ ہی کوئی ایساویساپسِ پردہ عزائم رکھنے والاکوئی گروہ یا
عناصرکوئی تسلی بخش جواب دے پائے گا۔
بہرحال ...!!اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں مُلک کے موجودہ سیاسی بحران
کے حل کے حوالے سے بلائے گئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے گرماگرم مشترکہ
اجلاس میں ایوان نے وزیراعظم نوازشریف کے حق میں حتمی فیصلہ سُناتے ہوئے
دوٹوک الفاظ میں کہہ دیاہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اوراِن کے قائدین اورمُلک
کے دونوں ایوان جمہوریت اور آئین کے ساتھ ہیں اور ساتھ ہی جمہوریت کے تحفظ
کے لئے حکومت کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دیاہے کہ
نوازشریف مستعفیٰ نہ ہوں،تمام جماعتیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ غیرمشروط
طورپرجمہوریت اور آئین کے ساتھ ہیں،اِنشاء اﷲ حکومت کا کچھ نہیں
ہوگا،لشکرکشی کامیاب ہوگئی توآئین اور جمہوریت کی دھجیاں اُڑجائیں گیں
اوربہت سے ایسے جذباتی جملے بہت سے واعظوں نے ا پنے خطابات میں کہئے کہ جن
پر مُلک کے مظلوم عوام شسسدرہیں اور آج یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ قومی
اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں جس طرح تقاریرکی گئیں ہیں اگرایسے خطابات
اراکین پارلیمان پہلے کرتے رہتے او ر خاندانی جمہوریت کے حکمرانِ الوقت
وزیراعظم نوازشریف کے سوئے ہوئے ضمیرکو جھنجھوڑ تے رہتے تو قوی اُمید تھی
کہ آج ایسی نوبت ہی نہ آتی جیسی کہ موجودہ حالات میں سامنے ہے، اَب کوئی
عمران اور قادری کو نظام کے خلاف باغی کہے یا اور کچھ... مگر یہ تو حقیقت
ہے کہ اِس کے ذمہ دار وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی خاندانی مفادپرستانہ
جمہوریت اور حکمرانی کے وہ اراکین ہیں جنہوں نے وزیراعظم کو بادشاہ بننے کے
لئے چڑھائے رکھااور اِنہیں اپنے اور اِن کے لئے بہت کچھ کرنے پراُکسایااور
عوام کو یکسرنظراندازکرکے اپنے ذاتی مفادات کے لئے وہ سب کچھ کرنے کا مشورہ
دیاآج جِسے وزیراعظم نوازشریف نے کیا اور یہ اپنے کئے ہوئے پر خود ہی اِس
میں پھنستے اور دھنستے چلے گئے ہیں۔
اگرچہ موجودہ سیاسی بحران میں اتناکچھ ہوجانے کے بعد یہ بات تو وزیراعظم
نوازشریف کو سوچنی چاہئے کہ آج یہ جس مینڈیٹ کی باتیں کرتے ہیں اِنہیں اور
اِن کے خاندان والوں کو یہ مینڈیٹ عوام نے دیاہے اور آج اقتدارمیں آنے کے
بعد وزیراعظم نوازشریف عوان کوہی بھول گئے ہیں اَب موجود سیاسی بحران کا جو
بھی( اچھایابُرا)نتیجہ نکلے گا اِس کا خمیازہ بھی وزیراعظم نوازشریف کو خود
ہی بھگتناہوگا۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مُلک کی موجودہ سیاسی ہلچل بازیوں اور مُلکی
تاریخ کے سب سے انوکھے اور فکرانگیز سیاسی بحران پر پارلیمنٹ میں جمہوریت
بچانے کے لئے وہی لوگ سب سے زیادہ چیخ رہے ہیں جنہوں نے جمہوریت کے حقیقی
ثمرات کو عوام الناس تک پہنچانے کے بجائے، عوام کے جمہوری حقوق پہ ڈاکہ
ڈالاہواہے، اور تمام جمہوری ثمرات اور حقوق اپنی ذات، اپنے خاندان اور اپنے
لوگوں میں بانٹ کر یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے جمہوریت کے تمام حقوق کے یہی لوگ
حقیقی وارث ہیں اوربس عوام کا کام تویہ ہے کہ اِنہیں بدعقل اور مسائل میں
گھری عوام ہر دو، چار یا پانچ سال بعد انتخابات میں ووٹ دے ،اوراِن جیسے
جاگیرداروں، سرمایہ داروں، خانوں، چوہدریوں اور وڈیروں کو ایوانوں تک
پہنچائے،ہمارے موجودہ جمہوریت پسندحکمرانوں ، سیاستدانوں اور جمہوریت کی
دیوی کے بڑے بڑے پنڈیتوں کا خیال یہ ہے کہ اِن کی اِس خودساختہ جمہوریت کی
تعریف یہ ہے اِن کی جمہوریت میں عوام کا صرف اتناہی حق ہے ، کہ عوام ایک
مٹھی بریانی کے چاول کھاکر اِنہیں ووٹ دے اور اِ نہیں مُلکی ایوانوں تک
پہنچادے ،اَب عوام کے ووٹوں سے ایوانوں میں جانے کے بعداِن جاگیرداروں،
سرمایہ داروں، خانوں، چوہدریوں اور وڈیروں کی مرضی ہے کہ یہ عوام کے لئے
کچھ سوچیں یا نہ سوچیں...؟؟کیوں کہ اِنہوں نے تو عوام کو ایک مٹھی بریانی
کھلاکر اِن کی خدمت پہلے ہی کردی ہے مگر اَب اقتدار میں آنے کے بعد اِن پر
یہ لازم ہوگیاہے کہ یہ قومی خزانے پر قابض ہوکر اپنے لئے وہ سب کچھ
اچھاسوچیں اور اچھاکریں،اِنہوں نے جس کے بارے میں سوچ رکھاہے اور منصوبے
بناکر ایوانوں میں قدم رنجافرمایاہے، آج اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ
ایسانہیں ہوتاہے درحقیقت یہی سچ ہے جو میں نے بیان کیاہے کیوں کہ ہماری
مُلکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کم ازکم ہمارے جمہوریت پسندسِول حکمرانوں نے
ہمیشہ یہی کیا ہے میں جو متذکرہ بالاسطورمیں،میں لکھ چکاہوں۔
جبکہ یہاں افسوسناک امریہ ہے کہ آج پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین کو
جمہوریت ڈی ریل ہونے کی فکرتو بہت ہے مگر کیا کسی نے سوچاکہ امریکہ اور
کینڈاسے اسکرپٹ لکھواکر آنے والوں نے جمہوریت اور آئین کا جیساتیساچہرہ
بگاڑنے کے لئے جو ڈرامہ اور جیساپتلی تماشہ اسلام آبادمیں سجایاہواہے، اِس
منظر اور پس منظر میں وہ حکمرانوں کو سمجھائیں کہ انقلابیوں اور دھرنیوں کو
راستے سے ہٹانے کے لئے اِنہیں طاقت کے استعمال سے گریزکرناچاہئے اور مُلک
بچانے اور آئین اور دستورکو درست حالت میں رکھنے کے لئے ہر صورت مذاکرات
کاراستہ اپناناچاہئے، اور اِس کوشش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑناچاہئے کہ
موجودہ سارے سیاسی بحران کا حل مذاکرات ہیں اور مذاکرات ہی کی صورت میں
وزیراعظم نوازشریف کا تاریخی و دائمی استعفیٰ ہی سب کچھ حل کرسکتاہے،اَب جب
کہ امریکااور کینیڈاکے اسکرپٹ کے ساتھ انقلاب اور نیاپاکستان بنانے والوں
کے عزائم عیاں ہونے شروع ہوگئے ہیں تو مُلک کے اکثرسیاسی مبصرین اور تجزیہ
نگاروں نے کھلے اور ڈھکے چھپے الفاظ کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کو یہ مشورہ
بھی دیناشروع کردیاہے کہ اغیارکی سازش کو کامیاب نہ ہونے کے لئے بہت ضروری
ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دے دیں اور سیاسی شہید بن جائیں اِس طرح نہ جمہوریت
ڈی ریل ہوگی اور نہ ہی آئین و پارلیمنٹ کا چہرہ کوئی مسخ کرپائے
گا،مگرایساکرنے پرکوئی یہ سمجھے کہ یہ وزیراعظم نوازشریف کی کمزوری ہے،تووہ
سخت غلطی پر ہوگا کیوں کہ آج جن دھرنیوں نے وزیراعظم نوازشریف کو استعفیٰ
دینے پر مجبور کیا ہواہے تو ایسی کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا انقلابی یا
دھرنی اپنی اصلاح کرلیں کہ تہذیب یافتہ اور حقیقی جمہوریت کے حامل ممالک تو
ایسے دھرنوں اور لانگ مارچوں کے زیرطابع آسکتے ہیں مگر ابھی میرے دیس کے
حکمرانوں اور باسیوں کو دھرنوں اور لانگ مارچوں سے انقلاب اور نظام کی
تبدیلی کی روح کو سمجھنے میں صدیوں لگیں گے،آج یا کل یا کبھی بھی وزیراعظم
نوازشریف نے اگرواقعی اپنااستعفیٰ دے بھی دیاتو کوئی یہ خیال نہ کرے کہ
دھرنوں کی ریت پڑجائے گی اورآئندہ کسی بھی حکومت کے خلاف اِ س طرح کے
دوچارہزارافراددھرنادے کرکوئی بھی نظامِ حکومت تبدیل کرسکتے ہیں،تو آج ایسی
سوچ بھی رکھنے والے افراد اپنی اصلاح کرلیں اَب ایساہرگزنہیں ہوسکے گاجب تک
کہ (اِن دھرنیوں کی طرح) کوئی کسی بیرونی قوت کے اشارے پر اپنے ضمیر کا
سودانہ کرلے آج جیساکہ کچھ کرچکے ہیں..اور مُلکی نظامِ حکومت کو اُلٹ پلٹ
کر دیناچاہتے ہیں، اَب آخرمیں چلتے چلتے اپنے اِن حکمرانوں سے بھی عرض
کرناچاہوں گاکہ خداراجمہوریت کو اپنے مفادات اور اپنے خاندان کے فوائد حاصل
کرنے کے لئے لونڈی بناکرنہ رکھیں، اِس کے حقیقی ثمرات عوام الناس تک بھی
پہنچائیں ،اور یہ بھی سمجھ لیں کہ آج عمران و قادری نے قوم کو حقیقی
جمہوریت کے ثمرات اور فوائد سے بھی آگاہ کردیاہے اور جمہوریت کی روحانی
تعریف بھی یادکروادی ہے،تواَب ہمارے حکمران قوم کو اپنی مرضی کی جمہوریت کی
تعریف نہیں سمجھاپائیں گے بلکہ جمہوریت کے سارے حقیقی ثمرات عوام الناس تک
بھی پہنچائیں اَب اگرایسانہ کیا تو پھر عوام خود اپنے حکمرانوں کا گریبان
پکڑکراپناحق چھین لیں گے۔ |