دھما دھم مست قلندر

طاہرالقادری نے دھرنے کے شروع میں بھی ڈیڈ لائن دی اور آخر میں بھی 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی جو بروز بدھ کی شب پوری ہوگی، میں یہ کالم تصادم کے بعد لکھ رہا ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی زبردست لائن کو ڈیڈ لائن کیوں کہتے ہیں۔ بہت زیادہ ایمان دار آدمی کو آنسٹ کہتے ہے، بات تو ٹھیک ہے کہ آنسٹ ہمارے ہاں ڈیڈ ہوچکے ہیں، یعنی مرچکے ہیں، کوئی آنسٹ زندہ نہیں رہا۔ کرپشن کا دور دورہ ہے، ہمارے ہاں کا جمہوری دور حکومت جیسا ہے؟ زرداری چلا گیا کرپشن نہیں گئی، نواز چلا جائے گا، کرپشن نہیں جائے گی، عمران آجائے گا تو کرپشن بڑھ جائے گی بلکہ جاری و ساری رہے گي، عمران خان قادری نواز کے خلاف ڈٹے پڑے ہیں، دونوں نے خوب دھواں دھار بے حد جذباتی تقریریں کیں، عوام اپنے لیڈروں کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں-

عوام کا اپنے ان دو لیڈروں کے پیچھے چلنا قدرتی امر ہیں، سولہ روز سے جاری دھرنے نے پہلے ڈی چوک پر قیام کیا سولہ روز تک پھر ریڈ زون کی جانب پیش قدمی کی پھر ہفتے کی شب وزیر اعظم ہائو‎س کی جانب پیش قدمی کیں جس کے نتیجے میں دھما دھم مست قلندر ہوا جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا وہ ہوا، حکومت نے طاقت کا استعمال کیا ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کیں، عوام پر اندھا دندھ آنسو گیس فائرنگ لاٹھی چارچ کیا گیا جس کے نتیجے میں خاتون سمیت کئی افراد جاں بحق سنیکڑوں زخمی ہوئے، شیر خوار بچے بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بنے، حق آواز کو بلند کرنے پر نجی ٹی وی چینلوں کو ان پر صحافت کرنے والے صحافیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا انکے سروں پر ڈنڈے برسائے گئے، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، غلیل والوں کے خلاف بولنے والے چینل نے پارلیمنٹ کی جانب بڑھنے والی عوام کو بلوائیوں کا لقب دے ڈالا،
پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہی شرکاء کو فوج نے روکنے کو کہا عوام روک گئے، دھرنے کے شرکاء نے فوج کے حکم کی تکمیل کی، اس افرا تفری کے عالم میں وزیراعظم نواز شریف فوری طور پر پرائم منسٹر ہائوس کی اہم فائلیں اور اپنے اہل خانہ کے ذریعے رائےونڈ چلے گئے، دھرنے کے شرکاء اور پولیس کے درمیان دھما دھم مست قلندر کا سلسلہ جاری و ساری ہے، حکومت سے ہونے والے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ نواز شریف نے استعفی نہیں دیا، اور نہ قادری کے مطالبہ پر ماڈل ٹائون سانحے کی ایف آئی ار درج کی گی، اگر یہ ایف آئی آر پہلے درج ہوجاتی تو پہلے ہی کارروائی ہوجاتی، اور اب کارروائی کا فیصلہ نہ ہونا خطرناک ہے-

خواہ مخواہ شہباز شریف کو بھٹو کے نقش قدم پر چلایا جارہا ہے، شہباز شریف کو بھٹو بننے کا بڑا شوق ہے، بھٹو تو ایک قتل کی ایف آئی آر میں پھانسی پر چڑھ گئے تھے، اس ایف آئی آر کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی اور کیوں وہ فیصلہ آتا جیسے عدالتی قتل کہا گیا، اب عدالتی مارشل لا کی بات ہورہی ہے، یہ اصطلاح پہلے زرداری نے استعمال کی تھی، تب زمانہ افتخارچودھری کا تھا، انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے عمران خان نے انہیں للکارہ تھا۔ پھر توہین عدالت کے مقدمے میں عمران خان نے نرم رویہ اختیار کیا، جو معافی سے ملتا جلتا تھا، تب عمران ڈٹ گیا ہوتا تو یہ وقت پہلے آچکا ہوتا۔ مگر عمران خان یوٹرن لینے کا بہت ماہر ہے، اس نے سوچا کہ ایک ریٹائرڈ اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے،عمران سیاست میں کچھ اور ہوتا ہے، اور عدالت میں کچھ اور ہے، بنی گالہ میں کچھ اور ہوتا ہے، اور وزیراعظم ہائوس کے باہر کچھ اور ہوتا ہے-

دھرنے میں کسی صحافی نے بیمار باغی جاوید ہاشمی سے سوال کیا مگر اس کا جواب شیری مزاری نے دیا، یہ جواب عدالت میں عمران کو دیکھائے بغیر بیجھ دیا گیا، یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ تحریک انصاف میں کوئی کام عمران خان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس کے دھرنے میں سر مستیاں ہوئی حسن اور جوانی سے بھر پور لڑکیاں اس کی مرضی کے بغیر ناچ بھی نہیں سکتیں، پھر نہ جانے کیسے پتہ چلا عمران خان کو کہ خواتین کا شور و غل ذرا کم ہوگیا ہے، اس نے کراچی سے شہزاد رائے کو بلانے کا اعلان کردیا، تحریک انصاف کے رہنما اور گلو کار ابرارالحق کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، اس کے گانوں میں اب وہ جان نہیں رہی جو لڑکیوں کو جوش دے سکے، عطااللہ عیسی خیلوی بھی وہاں موجود ہے، اس نے گایا خوب ہے پر کمایا کچھ نہیں، جبکہ اس کے گیت سن کر خواتین و حضرت روتے بھی تھے اور ناچتے بھی تھے-

اب رونے کا مقام شروع ہوچکا ہے، جہاں محفلیں سجائی جارہی تھی پندرہ روز سے جہاں دن ویران اور راتیں آباد ہورہی تھی 15 روز سے وہاں اب افراء تفری کا عالم ہے، انتشار کی فضا کا راج ہے، آنسو گیس فائرنگ کے سلسلے چل رہے ہیں،، بارود کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ایک دوسرے پر ڈنڈے برسائے جارہے ہیں، سولہ دنوں سے بول بول کر گا گا کر ناچ ناچ کر خواتین و حضرت ہلکان ہوچکے تھے، اب بھاگ دوڑ کر آنسو گیس ڈنڈوں اور دھکم پیل سے زخمی ہورہے ہیں، ہلکان ہورہے ہیں، ہلکان ہلاک سے نکلتا ہے، اب عوام پارلیمنٹ پی ٹی وی پر چڑھائی کرچکی ہیں، مگر پی ٹی وی پر توڑ پھوڑ کرنے والوں کا تعلق دھرنے کی عوام سے بالکل نہیں ہے، عمران قادری اسکی واضحات کرچکے ہیں۔ اب، اسلام آباد میدان جنگ کا منظر پیش کررہا ہے، اللہ خیر کرے، بقول ڈاکٹر اجمل نیازی کے خان صاحب پتل کو سونا بنا سکتا ہے، وزیراعظم کو وزیراعظم نہیں بنا سکتا، اس پر نواز شریف اور عمران خان کو غور کرنا چاہیے، سوئے ہوئوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگے ہوئے کو جگانا نا ممکن ہوتا ہے، نواز شریف آرمی چیف سے 9 ویں بار ملاقات کرچکے ہیں، نتیجہ وہی پہلی ملاقات والا؟ اس سیاسی بحران کو سیاستدانوں کو خود حل کرنا چاہیے، فوج سے امداد لینے کا کیا جواز بنتا ہے، مگر ہمارے سیاسی سودا گر اتنے اہل نہیں ہے، کہ وہ اس مسئلے کو سیاسی بصیرت سے حل کرسکے-

اب حکومت اور اپوزیشن دونوں آرمی چیف سے مدد کے خواہاں ہے،، مگر جنرل ظہیراسلام ر‍ضا مند نہیں ہیں، اب نواز شریف کو چاہیے کہ پرویز رشید کو غلیل والے بھائی کے پاس بھجیں، شاہد وہ مان جائے، دلیل والے تو نواز شریف کی مدد کررہے ہیں۔ مگر اب ان کے پاس دلیل نہیں ہے، اور وہ یہ کام پرویز رشید کے کہنے پر کررہے ہیں، پرویز رشید کسی میڈیا کے چینل کو روک نہیں سکتا کہ وہ عمران اور طاہرالقادری کی اتنی کوریج نہ کرے۔ اب پرویز رشید کے دل میں کیا ہے، یہ چودھری نثار سے پوچھنا پڑے گا، اگر نواز شریف اپنے طوطی سمدھی اسحاق ڈار کو وزیراعظم بناتے ہیں تو عمران رضا مند نہیں ہونگے، اسکا بہترین حل یہ تھا کہ چودھری نثار کو پرائم منسٹر بنا دیا جاتا تو دم دما دم مست قلندر نہیں ہوتا، اب یہی دھرنے والے حکومت کے خلاف دھما دھم بد مست قلندر کررہے ہیں، حکومت ڈٹی ہوئی ہے، تو دھرنے کی عوام بھی حکومت کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے-
Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61186 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More