ڈیموں کی اشد ضرورت ہے

ہر سال کی طرح اس بار بھی پاکستان سیلاب کی زد میں آچکا ہے ہم ہر سال یہ کہانی دہرانے کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہم تمام آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔حالیہ بارشوں نے پنجاب ،آزاد کشمیراور کے پی کے اور دیگر علاقوں میں نظام زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیاہے ۔دریاؤں میں سیلابی صورتحال اور بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑے جانے کی اطلاعات بھی گردش میں ۔محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی کے مطابق بارشوں کا حالیہ سلسلہ مزید دو دن جاری رہنے کا امکان ہے۔اب تک سو سے زائد افراد جان بحق ،لاکھوں ایکڑ ز پر کھڑی فصلیں اور کثیر تعداد میں مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ چکے ہیں۔حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری اور منصوبہ بندی تو درکنارحکومت ابھی تک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ہمیں آزاد ہوئے 67برس بیت چکے آج تک ہم برصغیر کے موسموں کی طرح غیر مستقل مزاج ہیں۔جس طرح موسم بدلتے رہتے ہیں ٹھیک اُسی طرح ہم مزاج،سوچ اور وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔افسوس کے لوگ سیلابی اور بارشی پانی میں گھرے حکومتی امداد کے منتظر ہیں لیکن حکومت تو حکومت ہوتی ہے اپوزیشن بھی مصیبت زدہ عوام کے حق میں بولتی نظر نہیں آتی ۔ہمارے محترم سینٹر ،معروف قانون دان دھاندلی زدہ حکومت کا ساتھ دینے پر تو مجبور ہوسکتے ہیں مگر اپنی ذات پر تنقید کی صورت میں حکومت اور اسمبلیاں ختم کرسکتے ہیں یعنی ملک و قوم کے ساتھ ہوتا ہوا ظلم تو برداشت کرسکتے ہیں ،اپنی ذات پر تنقید کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے ۔سچ تو یہ ہے کہ با حیثیت قوم ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں ملک و قوم کی بہتری کے علاوہ ۔ابھی ابھی خبر آئی کہ سیالکوٹ میں ریسکواپریشن کے دوران ایک فوجی جوان ڈوب کر شہید ہوگیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ یہ کوئی نئی خبر یا بات نہیں فوجی جوان تو ہمیشہ ملک وقوم پر اپنی جان قربان کرتے رہتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی یہ خبر سنی کہ کوئی سیاستدان عوام کے جان ومال کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگیا؟نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا ۔6ستمبر1965ء کے دن بھی افواج پاکستان نے غیر ملکی جارحیت کے خلاف بے شمار قربانیاں پیش کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا تھااور آج 6ستمبر 2014ء کے دن بھی سیلاب میں گھرے انسانوں کی جان بچاتے ہوئے افواج پاکستان کے بہادر سپاہی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ۔راقم سلام پیش کرتا ہے افواج پاکستان اوراُن ماؤں کو جن کے بچے اپنے ملک وقوم پر جان قربان کرتے ہیں۔ پاک افواج کو سلام پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ راقم جمہوریت کے خلاف ہے۔راقم جمہوریرت کا شدید حامی ہے مگر موجودہ جمہوریت اور جمہوریت کے دعویدار حکمران و سیاست اپنی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ملک اندورنی و بیرونی مشکلات میں دھنستا چلاجارہا ہے ۔حالیہ بارشوں اور دریاؤں میں سیلابی صوتحال، شدید توانائی بحران،بے روزگاری،مہنگائی ۔بدامنی ،صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان اور حالیہ سیاسی غیر یقینی صورتحال نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے جبکہ کوئی ایونوں میں مردہ ضمیروں کی منڈی سجائے بیٹھا ہے توکوئی ایونوں کے باہر دھرنا دیئے بیٹھا ہے۔جن پر حکومت کرنے کی تمنا سب سیاست دانوں کو ہے وہ عوام مریں یا جئیں اس بات سے اُن کو کوئی غرض نہیں۔کوئی ان کو سمجھائے کہ اگر حکمرانی کرنی ہے تو مخلوق کے دلوں پر کرو جو کبھی ختم نہیں ہوتی یہ ملکوں اور ریاستوں کی حکمرانی تو عارضی ہے۔ آئے دن دنیا کے حکمران بدلتے رہتے ہیں ،جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ محبت کرتے ہیں،اُس کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں وہ اور اُن کی حکمرانی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ہمارے حکمران آپس توہر لمحہ لڑتے رہتے ہیں لیکن کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ بھارت ہر سال دریاؤں میں فاضل پانی چھوڑ دیتا ہے جو پاکستان میں داخل ہوکر شدید تباہی مچادیتاہے جبکہ عالمی قوانین کے خلاف خشک سالی کے وقت ان دریاؤں کا پانی روک کر پاکستان کو قحط سے دوچارکرنے کی کوشش کرتاہے۔بھارت کی اس ازلی دشمنی اور آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو چھوٹے بڑے بہت سے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے کبھی کسی حکمران یا سیاستدان نے اس معاملے پر احتجاج یا دھرنا دیا؟یہاں گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے جتنا زور ڈیم بنانے میں لگانے کی کوشش میں لگنا چاہئے اُس سے کہیں زیادہ ڈیموں کی تعمیر روکنے میں لگایا جاتا ۔بھارت تو بھارت ہم آپس میں بیٹھ کر آج تک کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل نہیں کرسکے۔راقم یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم کا علاقہ بھارت کی سرزمین پر ہوتا 50سال پہلے ہی کالا باغ ڈیم تعمیر ہوچکا ہوتا ۔ڈیم بنانا تو دور کی بات ہے انتطامیہ کے بلند و بلا دعوؤں کے باجود پنجاب کے دارلخلافہ اندرون لاہور میں بارش کے پانی نے نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔اگر نہایت محنتی اور ہونہار وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کہ دور حکومت میں اندرون لاہور بارش کے پانی میں ڈوب سکتا ہے تو پھر پورے پنجاب اور دیگر صوبوں کی صورتحال کیا ہوگی یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ۔حکمرانوں خُدارا سوچوں مٹ جائے گی خلق خُدا توکس پر حکومت کروگے؟
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.