غریب لوگ ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر سیلاب سے ہونے والی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں لیکن جو کام کرنے کا ہے‘ وہ کوئی نہیں کر رہا۔جب مصیبت آ جائے تو اس وقت بھاگ دوڑ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا‘ قارئین آپ خود ہی بتائیں کہ کیا ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر سیلاب کا نظارہ کرنے سے بلا ٹل سکتی ہے۔ سیلابی اور برساتی پانی تو تباہی پھیلا رہا ہے‘ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھاگ دوڑ کر رہے ہیں‘ سرکار کا کیا ہے‘ وہ ہیلی کاپٹر میں تیل پھونکے گی‘ سرکاری عملے کو مصیبت میں مبتلا کرے گی۔ پھر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو گا‘ اس پر بھی قوم کا مال خرچ ہو گا‘ اس دوران عوام کا کیا حشر ہو گا‘ یہ آپ اور میں ٹی وی اسکرین پر بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے ارد گرد نظارہ کر رہے ہیں۔

بارشیں خصوصاً پنجاب کے بالائی اور وسطی علاقوں میں جس قدر ذوق و شوق کے ساتھ برس گئیں اس پورے علاقے کو اس کی زمینوں اور گھروں سمیت نہال کر دیا۔ اوپر آسمان اور بادل اور نیچے زمین پر بادلوں کی حکمرانی۔ ہر طرف پانی ہی پانی۔ پنجاب کے بارانی علاقوں خصوصاً وادی سون میں بارش نہیں ہوئی، گاؤں والوں نے کہا ہے کہ حال ہی میں اتنی بارشیں ہوگئی ہیں کہ فی الحال مزید بارشوں کی ضرورت نہیں اس طرح وادی سون والوں نے بارش سے تازہ محرومی کی شرمندگی مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن جن علاقوں میں بارش ہوئی ہے اور بارش بھی غضب کی وہ جہاں ایک ناگہانی آفت میں پڑ گئے ہیں خوش بھی ہیں کہ انھوں نے اپنے محبوب حکمرانوں کو جی بھر کر دیکھا ہے جو بارش زدگان کی دیکھ بھال اور ان کے ساتھ عملاً ہمدردی کر رہے ہیں۔

اگر ہمارے حکمران اپنے ووٹروں کے ساتھ یہی برادرانہ اور مشفقانہ سلوک شروع سے کرتے جو ان سے متوقع تھا تو آج ہم اسلام آباد میں دو دو دھرنے نہ دیکھتے۔ یہ دھرنے ان عوام کا نام ہیں جو ان سے حکمرانوں کی بے اعتنائی اور بے توجہی کی وجہ سے نالاں تھے۔ ہمارے وزیراعظم کو تعجب ہے کہ اسمبلی تک میں نہیں گئے اور سینیٹ کے کسی اجلاس میں تو شاید اب تک نہیں گئے حالانکہ کسی کا وزیراعظم بن جانے کا نشہ تو پارلیمنٹ میں جا کر ہی دہکتا ہے۔ ہمارے بڑے اور چھوٹے حکمران کو اس وقت پنجابی زبان میں جو ’’پھسوڑی‘‘ پڑی ہوئی ہے اس کی نوبت ہی نہیں آنی تھی لیکن وزیراعظم تو شاید پچھتا رہے تھے کہ وہ وزیراعظم کیوں بن گئے ہیں۔

طوفانی بارش آئی اور چلی گئی لیکن اپنے پیچھے بہت سی المناک لیکن سبق آموز داستانیں چھوڑ گئی۔ کچے گھروں میں بسنے والے بیسیوں غریب انسان کمزور اور کچی دیواریں گرنے سے جان سے چلے گئے جو بچ گئے‘ ان کے بستر اور سامان برباد ہو گیا۔کئی بیٹیوں کا جہیز بھی پانیوں میں بہہ گیا۔ اس بے رحم بارش کا مزہ یقیناً ہمارے ان ’’سویٹ‘‘ پارلیمنٹیرینز نے نہیں چکھا ہو گا جو ائر کنڈیشنڈ ہال جسے اسمبلی فلور کا نام دیا جاتا ہے‘ میں سوٹ ‘ ٹائیوں ‘ شیروانیوں اور واسکٹ میں ملبوس عمران خان اور طاہر القادری پر گرج برس رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ عوام کے یہ منتخب ’’لاڈلے‘‘ نمایندے اپنا ٹی اے ڈی اے لینا نہیں بھولے ہوں گے‘ ان کی اسلام آباد میں رہائش اور طعام کا بندوبست بھی مجھ جیسے عامیوں کے ٹیکسوں کی رقم سے ہوا ہو گا۔ ان کی زبانوں سے جو پھول جھڑے‘ اس کی خوشبو سے پورا پاکستان مہک رہا ہے‘ ان کی’’ شیریں زبانی‘‘سے کوئی محفوظ نہ رہا حتیٰ کہ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔اس معاملے میں سب ایک ہیںیعنی کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ ہمارے پارلیمنٹیرینز نے عوامی نمایندگی کا حق ادا کر دیا۔دھرنے والے تو بیچارے باہر بارش میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن چمچماتی گاڑیوں میں آنے والے پارلیمنٹیرینز بارش میں نہیں بھیگتے۔
شاعر محسن نے کیا خوب کہا ہے

"محسن"غریب لوگ بھی تنکوں کے ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258237 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More