پوری قوم انتہائی غم اور افسوس
سے دوچار ہے۔ حالات خاصے خراب ہیں۔ ہر نیا دن اک نئی مصیبت و مشکل کی نوید
دے رہاہے۔ کچھ کا کارن آسمانی آزمائش ہے تو کچھ کے پیچھے اپنی بد عقلی و
خراب حکمتِ عملی کا ہاتھ ہے۔ جہاں تک آسمانی آفت سیلاب کی بات ہے تو ہر کسی
کے علم میں باخوبی پیشگی جان کاری ہوتی ہے کہ بارشوں کے دنوں میں ہر سال ہم
نے سیلاب سے دوچار ہونا ہوتا ہے مگر ہر حکومت ہمیشہ اس امر کے یقینی طور پر
واقعہ ہونے سے نا واقف رہتی ہے۔ اور کسی قسم کے پیشگی ہنگامی اقدامت نہیں
اُٹھاۓ جاتے۔ جسکے سبب ہر سال بیچاری غریب و لاچار عوام کو بھاری جانی و
مالی نقصان برداشت کرنا پڑتاہے حکومتی خزانے پر بوجھ الگ سے پڑتا ہے۔ اس
طرح ہم آگے جانے کی بجاۓ پچھلی مرمت ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ بروقت
حفاظتی تدابیر کرنے سے حالات کو بڑی حد کت قابو میں کیا جاسکتا ہے مگر کون
اس بارے سوچے اور ہمیشہ کیلئے کوئی بہتر حکمتِ عملی وضح کرے ؟ نااہل جو
اکٹھے ہوۓ ہیں جن کی ترجیحات ہی کچھ عجیب قسم کی ہوتی ہیں، اپنا ہی قلعہ
پکے کرنے سے جو کچھ فرصت ملے تو اس بارے بھی سوچیں !
اپنے اقتدار اور کرسی کی خاطر تو حزبِ اختلاف کے پاؤں بھی پکڑے جا سکتے ہیں
معافیاں بھی مانگی جاستکی ہیں، کڑوی باتیں کیا ننگی گالیاں بھی سہی جا سکتی
ہیں مگر عوام کیلئے بھئی ان سے یہ سب ہرگز نہیں ہوتا نا ہوناہے-
آج کل ہماری پارلیمنٹ میں انہی سب باتوں پر مبنی کھیل پیش کیا جاتا
ہے۔جنھیں دیکھ کر کبھی تو خوب ہنسنے کو دل کرتا ہے اور کبھی کبھی تو خون
بھی کھولنے لگتا ہے کہ یہ سب کیا ڈرامے بازی چل رہی ہے۔ سارے کے سارے محبِ
وطن و ملکِ کے سکے اور سچے خیر خواہ ایک ہوگے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے
ایک ہونے کا ؟ پارلیمنٹ بچ جاۓ ہماری روزی روٹی اور دھندہ بچ جاۓ ہماری
تنخواہیں لگی رہیں باقی سب خیر ہے۔ انکی سنجیدگی ، خلوص، قرب اور حب الوطنی
کا اندازہ اس بات سے لگاجا سکتاہے کہ انکے نزدیک پارلیمنٹ کا جنگلہ ٹوٹنا
بڑا جرم ہے بجاۓ 72 دن بعد سانھہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کے کٹنے کے۔ اس
معاملے پر شائد ہی کسی رکنِ پارلیمنٹ نے لب کشائی کی جسارت کی ہو ! الغرض
قصہ مختصر سب کے چیدہ چیدہ مقاصد و مفادات ہیں ۔بس یہی ایک حکمت ہے انکے
ایکے کی ورنہ تو ان میں "اِٹ کتے کا ویر" ہے۔ میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں
کہ اگر آج پارلیمنٹ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ایجنڈہ رکھ لے تو یہی لوگ آپس
میں بغل غیر ہونے کی بجاۓ دست و گریباں ہوجائیں گے۔ یہی پارلیمنٹ جو آج
محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا دکھا رہی ہے کچھ دیر نا لگے کہ مچھلی
منڈی کا منظر پپیش کر نے لگے۔ پھر دیکھیئے گا کس طرح کوئی اپنی لاش پر سے
گزر کر کالا باغ ڈیم بننے دیتا ہے۔ یہ سب نظر کا دھوکہ، ڈھونگ اور دو نمبری
ہے۔ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ اس موقعہ پر
شاعر مشرق جنات حضرت علامہ اقبالؒ کا ایک شعر یاد آ گیا۔
ظاہر کی آنکھ سے نا تماشہ کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہِ دل وا کرے کوئی |