حق،باطل ،کسوٹی، اختیار
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
دنیا میں بہت سے مذاہب اور مکتبۂ
فکر ہیں اور ان سے وابستہ لوگ اپنے اپنے طریقوں کے مطابق عبادت کرتے ہیں
اور اپنے مذہبی جذبہ کی تسکین کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں
بھی کسی پرانی تہذیب کے کھنڈرات دریافت ہوتے ہیں تو ان میں کسی نہ کسی
عبادت گاہ کی چار دیواری ضرور موجود ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگ عبادت کیوں کرتے ہیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو کیا فرق
پڑتا ہے؟ زندگی میں اور بھی تو بہت سی مصروفیات ہیں پھر کون انھیں ایسا
کرنے پر مجبور کرتا ہے حتّی کہ لوگ اس جذبہ عبادت میں اس قدر متشدّد ہیں کہ
مذہب کی بنیاد پر قتل و غارت گری، اور جنگیں تک لڑی جاتی ہیں؟
در اصل اس جذبہ پرستش کی ایک بنیاد ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ)’’اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے انکی
اولاد کو نکالا اور ان سے خود ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا
رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ہم سب گواہ ہوئے تاکہ تم قیامت کے
روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو
ہمارے باپ دادوں نے کیا اور ہم انکے بعد انکی نسل سے ہوئے سو کیا ان غلط
راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈالے گا‘‘(الاعراف:۱۷۳)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر بچہّ فطرت صحیحہ(دین اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر
اسکے والدین اسے یہودی ، مجوسی یا نصرانی بنا لیتے ہیں(بخاری و مسلم)۔یہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں آنے تک بچہّ اسی قول و قرار پر رہتا ہے جو وہ
’’یوم الست‘‘ کو اپنے رب سے کر کہ آیا تھا اور جس دن لوگوں کے دلوں میں
توحید و ایمان کی تخم ریزی کی گئی تھی۔لہٰذا عبادت کرنے اور کسی مافوق
الفطرت ہستی کے آگے جھکنے اور اس کے آگے جبین نیاز خم کرنے کے جذبہ کی
بنیاد یہ واقعہ ہے بقول اقبالؒ ......
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجا ز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
یہاں تک یہ بات واضح ہوئی کہ لوگ عبادت کیوں کرتے ہیں اس لئے کہ یہ جذبہ ان
میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے مگر عام طور پر لوگ عبادت اپنے آباء و
اجداد کے طور طریقوں پر کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہم جس طریقہ پر
عبادت کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے کہ نہیں؟ اور صحیح طریقہ عبادت وہ ہے کہ
جس کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے کسی شخص کے نجات یافتہ اور جنتی ہونے
کافیصلہ صادر فرمانا ہے اور بقیہّ طریقوں کو غلط قرار دینا ہے کیونکہ جو
فیصلہ اس نے کر دینا ہے اسے ہی حق اور سچ تسلیم کیا جائے گا اور اس کے خلاف
کوئی یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ ہم نے جس طریقہ عبادت کو صحیح سمجھا اور
جس پر اپنے آباء و اجداد کو پایااسے ہی اختیار کیا لہٰذا اس میں ہمارا کیا
قصور ہے ؟
سوا ل یہ ہے کہ اس طریقہ عبادت کی بلاتکلف پہچان کیا ہے تاکہ ہر شخص جو راہ
حق کا طالب ہے اسے آسانی سے سمجھ سکے اور کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی روشنی
اور کسوٹی عطاکی ہے کہ جس سے وہ کسی حقیقت کہ پہچان کر سکتا ہے اور اسکے
صحیح و غلط یا حق و باطل ہونے کے بارہ کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ مذہبی اصطلاح
میں اس روشنی کو ’’دل‘‘ اورعام طو رپر ضمیر (Conscience)کہا جاتا ہے۔ارشاد
باری تعالیٰ ہے’’ اور قسم ہے انسانی جان کی اور اسکی جس نے اس کو درست
بنایا اور پھر اسکو اسکی نیکی و بدی سمجھائی‘‘(الشمس:پ۳۰)اور فرمایا’’اور
دکھلادیں اسکو دو گھاٹیاں‘‘(البلدپ۳۰)
معروف عالم دین علاّمہ شبّیراحمد عثمانیؒ ان آیات کی تفسیر میں رقمطراز
ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر اور برے بھلے کی پہچان کیلئے ایک
استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھ دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے
فرمایا یعنی نفس انسانی کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فجور و تقوٰی دونوں
کے مادے رکھ دئے ہیں تو اس طرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر
سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کیلئے انبیآء علیہم السّلام اور آسمانی
کتابیں آئیں جو انکو بالکل واضح کر دیتی ہیں‘‘۔
مولانا محمد شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں’’ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو بنایا
پھر اس کے دل میں فجور و تقوٰی دونوں کا الہام کر دیا۔ مراد یہ ہے کہ نفس
انسانی کی تخلیق میں حق تعالیٰ نے گناہ و طاعت کے دونوں مادے و استعداد رکھ
دی ہے کہ وہ اپنے قصد و اختیار سے گناہ کی راہ اختیار کرے یا طاعت کی ، اور
جب وہ اپنے قصد و اختیار سے ان میں سے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے تو اسی پر
اسکو ثواب یا عذاب دیا جاتاہے‘‘۔(تفسیر معارف القرآن جلد۸ )
قرآن پاک کی آیات اور تفاسیر کی روشنی میںیہ واضح ہو ا کہ دل اور ضمیر
انسان کے اندر وہ روشنی و کسوٹی ہے کہ جس سے انسان کسی چیز کی سچائی اور
جھوٹ کو پرکھ سکتا ہے اور برے بھلے کی پہچان کر سکتاہے اور وہ اس روشنی میں
چار چیزوں کا علم بخوبی رکھتا ہے(۱) حق(۲)باطل(۳)کسوٹی(۴)اختیار، یعنی حق
کیا ہے، باطل کیا ہے،ان دونوں کو پرکھنے کی کسوٹی اور پھر دونوں میں سے کسی
ایک پر چلنے کا اختیار۔
انسان خود کو پیش آنے والے حقائق کو اس روشنی میں جانچتا ہے اور اسے یہ
معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ چیز،عقیدہ یا مذہب کس حد تک صحیح ہے
اور کس حد تک غلط! یا اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ؟ ا س کا ثبوت
یہ ہے کہ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ چوری کرنا،دہوکہ دہی اجناس میں ملاوٹ،
زناکاری، کسی کو ناحق قتل کرنا یا اسے تکلیف دینا کیسا ہے؟ تو وہ فوراً بلا
کسی ہچکاہٹ کے یہ جواب دے گا کہ یہ سب کام غلط اور غیر اخلاقی ہیں اور ان
سے بچنا چاہئے۔ اس کے برعکس اگر اس سے یہ پوچھا جائے کہ عبادت کرنا، کسی کی
مدد کرنا، کسی قرض دار کی گردن قرض سے چھڑانا،والدین کی اطاعت اور کسی کے
دکھ درد میں شریک ہونا کیسا ہے؟ تو وہ فوراً جواب دے گا کہ یہ سب کام اچھے
ہیں، نیکی کے زمرے میں آتے ہیں اور کرنے چاہئیں۔
ان سوالوں کے جوابات میں وہ یہ ہر گز نہیں کہے گا کہ میری سمجھ میں نہیں
آتا کہ یہ کام کیسے ہیں کرنے چاہئیں یا نہیں؟میں ان کے بارہ میں اپنی مذہبی
کتب(جس سے وہ تعلق رکھتا ہے) مثلاً گیتا،رامائن،گورو گرنتھ
صاحب،ژنداوستہ،تورات، بائبل مقدس یا قرآن دیکھ کر بتاتا ہوں یا اپنے مذہب
کے کسی عالم سے مسئلہ پوچھتا ہوں۔ بلکہ قدرت نے اسے نیک و بدی کی پہچان کی
جو سمجھ عطا کی ہے اس کی روشنی میں وہ بلا تا خیر دو ٹوک فیصلہ سنا دے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’پس آپ( اے نبی پاکﷺ) یکسو ہوکر اپنا منہ دین (اسلام)
کی متوجہ کر دیں اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے،
اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کو بدلنا نہیں یہی سیدہا دین ہے لیکن اکثر لوگ
نہیں سمجھتے۔ ‘‘ (الرّوم:۳۰)
تفسیر میں لکھا ہے کہ’’دین حق، دین حنیف اور دین قیّم وہ ہے کہ اگر انسان
کو اسکی فطرت پر مخلّی با لطبع (خالی ذہن) چھوڑ کیا جائے تو وہ اپنی طبیعت
سے اسی کی طرف جھکے تمام انسانوں کی طبیعت اللہ نے ایسی ہی بنائی ہے جس میں
کوئی تفاوت و تبدیلی نہیں۔ فطرت انسانی کی اسی یکسانیّت کا یہ اثر ہے کہ
دین (اسلام )کے اصول مہمّہ کو کسی نہ کسی رنگ میں سبھی تسلیم کرتے ہیں گو
ٹھیک ٹھیک اس پر قائم نہیں رھتے‘‘۔
لہٰذا اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ جس کی ضو فشانی سے دل اور دماغ روشن ہے
اور جسکی تڑب ہر شخص اپنے دل میں محسوس کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وقتی
حالات یا والدین کی اتباع میں وہ کسی اور مذہب و ملّت کی طرف راغب ہو جائے
مگر اسکا دل جس چیز کیلئے بے چین ہے وہ صرف دین اسلام ہی ہے اسی سے اسکے
مذہبی جذبہ کی تسکین اور ابدی نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ |
|