وزیر داخلہ سندھ محترم قبلہ بڑے
حکیم جناب ذوالفقار مرزا صاحب کی اطلاع اور انکی آنکھیں اور کان کھولنے کے
لیے ایک صاف مثال پیش خدمت ہے جس پر غور کریں تو مرزا صاحب کی کھلی آنکھوں
اور کان کی درستگی کی حقیقت بھی صاف عیاں ہوسکے گی اور ان کے شعور کے
دروازوں کی بند کنڈیاں بھی شائد عام عوام اور میڈیا کو نظر آجائیں گیں یاد
کیجیے گزشتہ کئی مہینوں سے جب متحدہ قومی موومنٹ سندھ اور خصوصاً کراچی میں
طالبائزیشن کے خطرے سے مسلسل آگاہ کر رہی تھی تو موصوف فرماتے تھے کہ نہیں
ایسا کچھ نہیں ہے اور متحدہ قومی موومنٹ بلاوجہ شور شرابہ کر رہی ہے۔
اور پھر موصوف ہی کی وزارت داخلہ کے ریکارڈز اور ملک کے قومی اخبارات کی
خبروں کا اور کراچی پولیس کے ریکارڈز اس بات کی شہادت، گواہی دینے کے لیے
کافی ہیں کہ کراچی سے طالبان اور شدت پسند عناصر کس طرح اور کتنی بڑی تعداد
میں شہر کے مختلف علاقوں سے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ گرفتار کیے گئے کہ جن
کے گرفتار نا ہوسکنے اور ان دہشت پسندوں کے منصوبے پورے ہوجانے کے نتیجے
میں ہونے والے نقصانات کا تصور ہی ہولناک ہے۔ اور ان تمام گرفتاریوں اور
چھاپوں کی اطلاع سی سی پی او کراچی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور
اخبارات و الیکٹرانک میڈیا مسلسل عوام کو دیتے رہے چنانچہ عوام کو اس بات
کا بخوبی اندازہ ہے کہ وزارت داخلہ کی آڑ میں اپنے کاروبار اور اپنے پرانے
کرتوت کرنے والوں کو کیا پتہ کہ وزارت داخلہ کا قلمدان کس قدر زمہ داری کا
متقاضی ہوتا ہے۔ اور میڈیا کی آنکھیں اور کان کھولنے کے دعوے داروں کی
حقیقت سب کے صرف سامنے ہے۔
دراصل ذوالفقار مرزا اور ان جیسی وڈیرانہ اور جاگیردارانہ سوچ رکھنے والے
افراد کسی بھی طور متحدہ قومی موومنٹ کی مڈل کلاس سے وابستگی کو ہضم نہیں
کر پارہی اور کبھی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے اور کبھی دوسرے حوالوں سے
ایم کیو ایم کے ٹھوس مؤقف اور راست اقدامات کے مطالبے کو مسلسل اور غیر
دانشمندانہ انداز سے نظر انداز کرنے کی سعی لاحاصل میں مصروف ہے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا جیسے سیاسی سوچ و کردار سے عاری
شخص جب میڈیا میں بیٹھ کر اس قدر غیر ذمہ دارانہ اور سطحی باتیں کر رہا تھا
تو ذوالفقار مرزا کے برابر میں ہی وزیر اعلیٰ سندھ اور شازیہ مری بھی
براجمان تھے جس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ دانستہ و نادانستہ پیپلز پارٹی
کی اعلیٰ قیادت پر سطحی اور سیاسی سوچ و فکر سے عاری لوگوں کا بہت حد تک
غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔
بہرحال اس طرح کے شعبدے باز اور شعبدے بازیاں عوام کو بنیادی مسائل سے نجات
نہیں دلا سکتے۔ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت ہونے کے باوجود غریب غریب سے
غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور کہیں اگر ہماری ریٹنگ اور
اسٹینڈنگ مستحکم ہوئی ہے وہ کرپشن کا شعبہ ہے جہاں مملکت پاکستان، جی ہی
ہماری مادر وطن کا نمبر اقوام عالم میں سینتالیسویں نمبر سے بیالیسویں نمبر
پر آگیا ہے یہ تحفہ دیا ہے ہم نے اپنی مادر وطن پاک وطن کو جس کے نعرے
لگاتے اور کھپے اور جیوے جیوے کہنے سے ہماری زبان نہیں تھکتی۔ کیوں نہیں یہ
منافقت اب بس کردیں ہم سب اور پاکستان کھپے اور جیوے جیوے پاکستان کہنے کے
ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی مملکت خداداد پاکستان کی حرمت اور عزت کے لیے
کچھ کام کیے جائیں۔ |