تحریر: کلیم اﷲ
پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے آزمائشوں سے گذررہا ہے۔ان دنوں بھارت کی جانب
سے چھوڑے جانے والے پانی بھی ایک بڑی آزمائش بن چکا ہے۔دہشت گردی کیخلاف
جنگ کے نام پر 13سال سے مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔جس کا سب سے زیادہ فائدہ
انڈیا نے اٹھایا ہے۔پاکستان میں بدامنی،معاشی وبجلی کے بحران کا ذمہ
دارہے۔جو کشمیرسے نکلنے والے دریاؤں کا پانی روک اپنے ریگستانوں کوسیراب
کرتا ہے اور پانی زیادہ ہونے پربغیراطلاع پاکستان کی جانب چھوڑدیتا
ہے۔انڈیا کی جانب سے کشمیرمیں بنائے گئے باسٹھ ڈیموں نے پاکستان کوآج اس
حال میں لاکھڑا کیا ہے کہ ہرسال ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگربھارت
کو اس آبی جارحیت سے نہ روکا گیا توآئندہ بھی پاکستان کومستقبل میں ایسے
خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ انڈیا کی جانب سے سیلابی پانی
چھوڑنا 1965سے بڑاحملہ ہے۔اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے۔پوری قوم سیلاب
متاثرین کی مدد کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ایوانوں اور سڑکوں والے سیاست
چھوڑ کر متحد ہوسیلاب زدگان کی مدد کریں اور حکومت پاکستان کوچاہیے کہ
انڈیا کی آبی جارحیت روکنے کیلئے کھری،کھری بات کرے اور اس مسئلہ کو سلامتی
کونسل میں اٹھایا جائے۔سیلاب سے ہونے والے نقصان کے باوجود اگرحکومت
ہندوستان سے دوستی کی بات کرتی ہے تواس کا مطلب ہے اسے دوست اور دشمن کا
شعور ہی نہیں ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شدید بارشوں کے باعث کشمیر اور
پنجاب کے بیشتر شہروں میں تباہی مچانے کے بعد سیلابی ریلا مظفر گڑھ میں
داخل ہو گیا ہے۔پنجاب کے مختلف علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے سیلاب کے ملتان
کے قریب پہنچنے پرہیڈ محمد والا پرسوفٹ چوڑا شگاف ڈال دیا گیاہے جس سے مظفر
گڑھ کا ملتان سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔دوسری جانب پاک فوج،
جماعۃالدعوۃ اور بحریہ کے جوان امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔شیر شاہ بند پر
بھی بارودی مواد نصب کر دیا گیا ہے۔دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے
لگی ہے اورکچے کا علاقہ خالی کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ملتان سے
موصولہ اطلاعات کے مطابق دریائے چناب کا سیلابی ریلا ہر طرف تباہی مچاتا
ہیڈ پنجند کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سیلابی پانی ملتان شہر کی آخری ڈیفنس لائن
سکندری نالے تک پہنچ گیا ہے۔ دریائے چناب میں ہیڈ محمد والا سے پانی کا
بہاؤ چار لاکھ 50 ہزار کیوسک ہے۔ پانی کا بہاؤ تیز ہونے کے باعث ہیڈ محمد
والا پر شگاف ڈال گیا ہے جس کے بعد پانی قریبی علاقوں میں داخل ہوگیا۔ پاک
فوج کے دستے اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکارہیڈ محمد والا بند پر پہنچ
چکے ہیں۔ ملتان میں بستی ممروٹ ، بستی سیال ، قاسم بیلہ اور نواب پور کی
مزید بستیاں ڈوب گئی ہیں۔ مظفر گڑھ میں سیلابی پانی لال پور، دوآبہ ، سنکی
، روہاڑی اور بھٹہ پور سمیت کئی علاقوں میں داخل ہو گیا ہے جہاں لوگوں کو
محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بستی ممروٹ ، بستی سیال
، قاسم بیلہ ، محمد پور گھوٹا ، دریائے چناب میں ہیڈ تریموں کے مقام پر
پانی کی سطح میں کمی ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود اٹھارہ ہزاری اور اردگرد
درجنوں آبادیاں پانی کی لپیٹ میں ہیں۔ پاک فوج اورفلاح انسانیت کے رضاکار
کشتیوں کے ذریعہ متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ
میں بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بڑا سیلابی ریلا سولہ اور سترہ ستمبر
کو سکھر پہنچنے کا امکان ہے۔ خطرے کے پیش نظر گھوٹکی ، کشمور، خیرپور ،
شکارپور اور لاڑکانہ میں کچے کے علاقے خالی کرنے کی ہدایت کر دی گئی
ہے۔ملتان شہر میں ممکنہ سیلاب کے خطرے کے پیش نظرسیکڑوں دیہات خالی کرا لئے
گئے ہیں اوردریائی علاقوں کے لوگوں نے محفوظ مقامات پر نقل مکانی کا سلسلہ
جاری ہے۔ہیڈ محمد والا میں شگاف کے باعث سیلابی ریلہ محمد پور گھوٹہ، بٹہ
سندیلا، بستی گرے والا اور دیگر نشیبی علاقوں سے ہوتا ہوا واپس دریا ئے
چناب میں گر جائے گا، شگاف ڈالنے سے جھنگ، کوٹ ادو اور مظفر گڑھ کا ہیڈ
محمد والا کی جانب سے ملتان سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے جبکہ ممکنہ
سیلاب کے پیش نظر ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پاک فوج اور سول
انتظامیہ کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات
عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ ملتان میں پاک فوج کا سیلاب سے متاثرہ
علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے، کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل عابد پر
ویز سیلابی آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ پاک فوج کے ریسکیو آپریشن میں
7 ہیلی کاپٹرز اور 100 کشتیاں حصہ لے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان نیوی کے
ترجمان کا کہنا ہے کہ پاک بحریہ کی جانب سے چینیوٹ اور جھنگ میں سیلاب
متاثرین کی مدد کیلئے آپریشن جاری ہے، نیوی کی جانب سے پنجاب کے سیلاب
متاثرین کیلئے ہیلی کاپٹر،کشتیاں اورخصوصی غوطہ کے ساتھ ریسکیو آپریشن کیا
جا رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق ضلع جھنگ کے علاقوں میں آپریشن کے پیمانے میں
توسیع کر دی گئی ہے اور پاک بحریہ کے طبی عملے نے متاثرین میں ضروری طبی
امداد فراہم کی اورکھانے پینے کی اشیا بھی فراہم کی گئی ہیں۔جماعۃالدعوۃ کے
رضاکار بھی کشتیوں کے ذریعہ لوگوں کومحفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔
دریائے سندھ میں کوٹری بیراج کے مقام پر 44ہزار 132کیوسک پانی چھوڑاجا رہا
ہے جبکہ سکھر بیراج سے97ہزار 663کیوسک کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، دریائے
سندھ میں گڈوبیراج پرپانی کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئندہ 24گھنٹوں کے
دوران پانی کی سطح میں 50 ہزار کیوسک اضافہ متوقع ہے، گدو بیراج کے مقام پر
15 اور 16 ستمبر کو اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے جبکہ سکھر کے مقام پر
16 اور 17 ستمبر کو اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزرے گا۔ حکومت سندھ نے
ممکنہ سیلاب کے خطرے کے پیش نظر فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور متعلقہ
حکام کو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہائی الرٹ رہنے کا حکم دے دیا
ہے۔جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمدسعید کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ
پاکستان میں انڈیا کا مسلط کردہ مصنوعی سیلاب تباہی پھیلارہا ہے جو پاکستان
پر 1965سے بڑاحملہ ہے۔اس پر حکومت پاکستان کی خاموشی کی وجہ سے بھارت ہرسال
پانی چھوڑکر پاکستان کوبرباد کررہا ہے۔ایوانوں اور سڑکوں والے سیاست چھوڑکر
متحد ہوں۔حکومت پردباؤڈالا جائے کہ وہ بھارت سے کھری،کھری بات کرے اور اسے
آبی جارحیت سے روکے۔قوم کا ہرطبقہ سیلاب متاثرین کی مدد کرے۔جماعۃ الدعوۃ
سیلاب سے متاثرہ ہر علاقے میں ریسکیو وبھرپورامدادی سرگرمیاں جاری رکھے
ہوئے ہے۔ انہوں نے ملتان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کے دورہ کے دوران جماعۃ
الدعوۃ کے مرکزی ریلیف کیمپ محمدپورگھوٹہ قاسم بیلامیں میڈیا سے گفتگو اور
بعدازاں سیلاب متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جماعۃ الدعوۃ کے
ریسکیورضاکاروں کے ہمراہ موٹربوٹ پر سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا اور
میڈیکل کیمپ کا بھی دورہ کیا۔انہوں نے کہاکہ سیلاب پرقابوپانے کا مستقل حل
ڈیم بنانا ہے۔پاکستان ایک ہی نہیں متعدد ڈیم بناکرپانی کومحفوظ کرے ۔جماعۃ
الدعوۃخدمت خلق کا کام سیاسی مفاد نہیں رضائے الہی کے حصول کیلئے کرتی
ہے۔اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 28ریلیف کیمپس اور درجنوں کشتیاں ،میڈیکل
کیمپس اور ہزاروں کارکنان متاثرین کا دکھ بانٹے میں مصروف ہیں۔روزانہ کی
بنیادوں پر متاثرین کوریسکیو،ہزاروں مریضوں کا علاج اور لاکھوں متاثرین کو
کھانا کھلایا جارہا ہے۔دیگرعلاقوں میں سیلاب کی متوقع آمد کے ساتھ جماعۃ
الدعوۃ نے امدادی کاموں کی تیاری مکمل کررکھی ہے۔یہ امدادی کام متاثرین کی
بحالی تک جاری رہے گا۔ |