فصلوں کی انشورنس کے نام پر کب تک جھوٹ بولا جائے گا۔؟

پاکستان میں ایک بار پھر عوام سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ رہے ہیں۔ سیلابی بند ٹوٹ رہے ہیں۔ کہیں شہروں اور دیہات کو بچانے کے لئے حفاظتی بندوں میں شگاف ڈالے جا رہے ہیں۔ سیلاب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی ہے۔ پنجاب میں چار لاکھ ایکڑ رقبے پر موجود فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔سیلابی ریلا پنجاب سے نکل کر سندھ میں آنے والا ہے۔ سیلاب سے اب تک پنجاب کے دس اضلاع متاثر ہوئے جن میں سے جھنگ، چنیوٹ اور حافظ آباد میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ نہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس فعال ادارے ہیں ۔ اور نہ ہی نقصانات کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی مکینیزم ہے۔ چاہے بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش ہو یا سیلاب کی تباہ کاری کا اندازہ کرنے کے لئے اعداد و شمار ، ہم ہر کا کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس بار بھی وفاقی حکومت نے ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب کے سبب ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز سے کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے وسیع تر تجربے سے استفادہ کرنے کیلئے اس کے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر تخمینہ لگائیں تاکہ حکومت متاثرین کی بحالی کا کام شروع کرسکے۔حالیہ بارشوں اور سیلاب کے سبب ہونے والی حقیقی تباہ کاریوں کا تخمینہ تو پانی اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا۔ لیکن ہمارے یہاں جانی و مالی نقصانات کے بارے میں حقیقت پسندانہ اعدادوشمار پیش کرنے کی نہ تو روایت ہے نہ اس کی کوئی مساعی۔ ہر سال مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی ملک کے کئی دیہاتی اور زیریں علاقوں میں خوف کی ایک فضا قائم ہوجاتی ہے۔ بارشیں چاہے پاکستان میں ہوں یا بھارت میں۔ سیلاب کا خدشہ ہر وقت ہمارے پورے زراعتی نظام اور انفرااسٹرکچر پر تباہی بن کر نازل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کمزور ریاستی ڈھانچے اور ادارے اس کے خلاف کوئی موثر ڈھال بننے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے قیام سے اب تک ہمیں 20 بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔جن میں سے پچھلے چار سال میں سے تین سیلاب ہماری کمزور معیشت کو تباہ کر چکے ہیں۔ ان میں 2010، 2011 اور 2012 کے سیلاب شامل ہیں اور اس وقت 2014 کا سیلاب سے ہمیں ایک بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کیمطابق 2010 سے اب تک سیلاب کی تباہ کاریوں میں 3 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان ہوا جب کہ مالی نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالرز تک لگایا گیا ہے جب کہ پچھلے دو سے تین دہائیوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو جانی نقصان کا اندازہ تقریباً 11 ہزار جانوں سے زائد ہے جب کہ ملک کی معیشت پر اربوں روپے کا بوجھ پڑچکا ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کیمطابق ہماری قومی پیداوار (GDP) کو ان بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ہماری فی کس آمدنی کی نشوونما (Growth) سے بھی زیادہ ہے۔ جوکہ تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے ایک اندازے کے مطابق ان نقصانات کا تخمینہ ہماری قومی پیداوار کے 2 فیصد کے قریب ہے۔ 2005 کے زلزلے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام وجود میں آیا تھا۔ لیکن یہ ادارہ بھی ایک ناکامی کی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دھرنوں میں حکومتی اعداد وشمار کو چیلنج کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار مالیاتی بجٹ 15-2014 کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے وائٹ پیپر کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں ۔ ان کا دعوی ہے کہ اس سال کے بجٹ میں صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کے علاوہ زرعی شعبے کے فروغ کے لئے اقدامات بھی شامل ہیں جب کہ کاشت کاروں میں قرضوں کی تقسیم اور انہیں زرعی مصنوعات میں اعانت دینے کے لئے بجٹ میں 5 سو ارب روپے مختص کئے گئے۔ اسحاق ڈار نے کا کہنا ہے کہ لائیو اسٹاک اور فصلوں کی انشورنس اسکیمیں زرعی شعبے کی ترقی کے لئے بڑے اقدامات کئے گئے ہیں۔ان کے مطابق فصلوں کی انشورنس اور لائیو اسٹاک کی انشورنس کی اسکیم بھی شروع کی جارہی ہے۔ فصلوں اور زرعی انشورنس کا ہم گذشتہ بیس برس سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ دس سال پہلے پرویز الیہ نے بھی ملک میں پہلی بارفصلوں کی انشورنس کا اعلان کیا تھا۔ بینک آف پنجاب کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعلی پرویز الہی نے اس انشورنس اسکیم کے خد وخال کی وضاحت تو نہیں کی تھی۔ تاہم انھوں نے کہا تھا کہ اس انشورنس نظام کی وجہ سے خشک سالی، بارش ، سیلاب، طوفان اور ٹڈی دل کے حملوں جیسی آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے نتیجہ میں کسان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرویز الہی نے پنجاب بنک کو ہی تباہ کرڈالا۔ ان کا خاندان اربوں روپے کے مالی اسکینڈل میں ملوث ہوا۔گذشتہ سال ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے لائیو اسٹاک انشورنس اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا۔اسٹیٹ بینک،ایس ای سی پی،کمرشل بینکس، انشورنس کمپنیوں اور تمام صوبائی لائیو اسٹاک اور ڈیری محکموں کے تعاون سے متعارف کرائی جانے والی اس انشورنس اسکیم کا مقصد لائیو اسٹاک اور ڈیری کے شعبوں کو قرض کی فراہمی میں اضافے اورقدرتی آفات،حادثات و بیماریوں کے نتیجے میں مویشیوں کی ہلاکت کے باعث لائیو اسٹاک شعبے میں قرض لینے والے افراد کے رسک میں حتی الامکان کمی کرنا بتایا گیا تھا۔ ملک میں لائیو اسٹاک کا شعبہ ملکی زراعت کی مجموعی قومی پیداوار میں 55 فیصد جبکہ مجموعی قومی پیداوار میں11.4فیصد شراکت دار ی کا حامل ہے۔تاہم ان سب عوامل کے باوجود ملک میں بینکوں کی جانب سے13-2012کے دوران لائیو اسٹاک اور ڈیری کے شعبوں کو فراہم کیے جانے والے قرضے کا حجم محض56ارب روپے ہے جو فراہم کیے جانے والے مجموعی زرعی قرضوں336ارب روپے کا محض17فیصد بنتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق لائیو اسٹاک اور ڈیری کے شعبے میں قرضوں کے حصول میں عدم دلچسپی کی بڑی وجہ ان شعبوں میں رسک کی زیادتی بتائی جاتی ہے،لائیو اسٹاک اور ڈیری کے شعبے میں قرض حاصل کرنے کیخواہش مند قدرتی آفات، حادثات اور مختلف موسمی بیماریوں کے باعث مویشیوں کی ہلاکت کے تحفظات کا شکار رہتے ہیں اور یہی خوف انہیں لائیو اسٹاک اور ڈیری سیکٹر میں قرضوں کے حصول سے روکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی اسکیم کے مطابق لائیو اسٹاک انشورنس اسکیم کے تحت مویشیوں کی خریداری کیلئے50لاکھ تک کے لون پر بینک قرض حاصل کرنے والے فرد کے مویشیوں کو انشورنس فراہم کرینگے اور مویشیوں کی بیماری، سیلاب، طوفان،حادثات اور دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں ہلاکت پر قرض دار کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے مکمل رسک انشورنس فراہم کی جائیگی۔ اسٹیٹ بینک نے تمام کمرشل بینکوں کو فوری طور پر لائیو اسٹاک انشورنس اسکیم پر عملدرآمد شروع کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے اس اسکیم کے تحت چھوٹے فارمر زکے پریمئیم کی ادائیگی بجٹ سپورٹ فنڈ سے کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ لیکن اب تک اس پر عمل نہ ہوسکا۔ہمارے ملک میں زرعی شعبے کی معاشی شرح نمو زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی۔ زرعی شعبے کے ترقی نہ کرنے کی وجہ سے ملکی سطح پر اشیائے خوردنی کی قلّت پیدا ہونے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ ملک کی تقریباً 65 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جس کی اکثریت زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 23 فیصد ہے اور زراعت کے ترقی نہ کرنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے تو دوسری طرف اس شعبے سے وابستہ غریب دیہی آبادی کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی آبادی میں سالانہ دو اعشاریہ پانچ فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے اور ماہرین کے مطابق آئندہ 40 سالوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہوجائے گی جبکہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی نے ہماری موجودہ آبادی کے بڑے حصے کی قوت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہمیں اپنی زرعی فی ایکڑ پیداواریت بڑھانا ضروری ہے تاکہ عوام کو سستے داموں اشیائے خوردنی مہیا کی جاسکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک فصلوں کی انشورنس کے حوالے سے کوئی موثر اسکیم نہیں ہے۔موسمی تغیرات سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔ ہمارے زیادہ تر کسان موسمی تغیرات کا پیشگی علم نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر اپنی فصلوں اور لائیو اسٹاک کو شدید موسمی تغیرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ مارکیٹ کا فرسودہ میکنزم بھی کسانوں کے لئے نقصان دہ ہے۔ کسان اپنی زرعی پیداوار کو طویل عرصے کے لئے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ اس لئے غلے کے ضائع ہونے کے اندیشے اور فصل کی دوبارہ بوائی کے اخراجات کیلئے انہیں مجبوراً اپنا غلہ جلد از جلد فروخت کرنا پڑتا ہے۔سڑکوں کے ناقص نیٹ ورک اور ٹرانسپورٹ کے زیادہ کرایوں کی وجہ سے کسانوں کو اپنی فصلوں اورغلے کو مارکیٹ تک پہنچانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے جس کی وجہ سے کسان اپنی فصلوں کو مارکیٹ اور صنعتوں تک پہنچانے کے بجائے آڑھتیوں کو کھیتوں میں ہی سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ فصل کے آنے کے بعد مارکیٹ کے کھلاڑی طلب اور رسد کاکنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے کسانوں سے نہایت کم قیمتوں پر غلہ خرید کراسے ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ دو سے تین ماہ غلے کی ذخیرہ اندوزی کے بعد یہی ذخیرہ اندوز ان اجناس کو مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔2010 میں سیلاب کی وجہ سے ہماری فصلوں کی پیداوار خراب رہی اور صرف کاٹن کی فصل میں 20 لاکھ گانٹھوں کا نقصان ہوا۔اس بار پھر کہا جارہا ہے کہ فصلوں کی انشورنس ا سکیم شروع کی جارہی ہے۔ جس سے کاشتکاروں کے نقصان کا ازالہ کیاجاسکے گا،نیشنل انشورنس کمپنی آف پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فصلوں کی انشورنس ا سکیم سے کاشتکار و کسان بلاامتیاز استفادہ کرسکیں گے۔لیکن اس اسکیم پر اب تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی خبر اخبارات کی زینت بنی ہے کہ حکومت پنجاب نے رواں مالی سال کے بجٹ میں زراعت کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کیلئے 7 ارب 96 کروڑ روپے سے زائد مختص کئے ہیں تاکہ کاشتکاروں کو زرعی آلات، زرعی قرضوں اور فصلوں کی انشورنس پر سبسڈی فراہم کی جا سکے۔ وفاقی حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے وقت اعلان کیا تھا کہ فصلوں کو قدرتی آفات، موسمی تبدیلیوں، بیماریوں اور تباہی سے بچانے کیلئے انشورنس اسکیم کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور اسکیم کے تحت 25 ایکٹر رکھنے والے کسانوں کو قرضے دیئے جائیں گے۔اسکیم کے تحت 7 لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا اور منصوبے کیلئے 2 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ لیکن افسوناک بات یہ ہے کہ بجٹ دستاویز میں نئے مالی سال اس اسکیم کیلئے کوئی فنڈز نہیں رکھے گئے۔ وزیر خزانہ اس بات کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ نئے مالی سال میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھا کر 118 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ لیکن بجٹ دستاویز میں بی آئی ایس پی کیلئے نئے بجٹ میں 97 ارب 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ باقی 21 ارب روپے وزیراعظم کی خصوصی اسکیموں پر خرچ کیئے جائیں گے۔جو رواں مالی سال کے 25 ارب روپے کے مقابلے میں 4 ارب روپے کم ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستا ن بیت المال کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 2014-15 کے بجٹ میں پاکستان بیت المال کیلئے کسی قسم کے ترقیاتی فنڈز مختص نہیں کئے گئے بلکہ غیر ترقیاتی فنڈز کے نام پر ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں و دیگر اخراجات کیلئے دو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے اس حوالے سے ٹاسک فورس تشکیل دیدی ہے۔ بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات اور بجٹ دستاویزات میں تضادات سامنے آ گئے۔ فصلوں کی انشورنس اور چھوٹے قرضوں کیلئے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کب تک عوامکو دھوکہ دیتی رہے گی۔ امریکہ جیسے ملک میں حکومت کسانوں اور زراعت پیشہ افراد کو انشورنس کے سلسلے میں سبسیڈی سے مدد دیتی ہے۔ لیکن ہم نے اس اہم شعبے کو ایک بر طرح نظر انداز کر دیا ہے۔ ایک بار پھر پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں ہے، اور ہم انشورنس کے منصوبوں سے کوئی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419066 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More