میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات
میں ناہیں سبھ توں‘
فقرا کی زندگی کا پہلا اور آخری اصول ہوتا ہے۔ جو فقیر اس نظریے پر‘ فکری‘
قلبی اور عملی سطح پر قائم رہتا ہے‘ وہ ہی صالحین کی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔
عموما بلکہ اکثر‘ اختلاف اس کی تعبیر و تشریح پر ہوتا ہے۔
کچھ کا کہنا ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ ترک دنیا کے رویے
کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں
سے فرار کے مترادف ہے۔
ایک طبقہ اسے الحاد کی طرف بڑھنے کا رستہ سمجھتا ہے۔
کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر جا کر‘ خدائی کا دعوی سامنے آتا
ہے۔
اس کے علاوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریحات کی جاتی ہیں۔ جو اس ذیل میں تشریحات
سامنے آتی ہیں‘ ان کا حقیقت سے‘ دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔
عجز اور انکساری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجود ہوتا ہے‘ تو
دنیا‘ زندگی اور زندگی کے متعلقات سے‘ رشتہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف
شخصی حاجات‘ اپنی جگہ پراستحقام رکھتی ہیں۔ پاخانہ اور پیشاب کی حاجت پر‘
کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ سانس آئے گا‘ تو ہی زندگی کی سانسیں برقرار رہ
پائیں گی۔ لہذا ذات کا تیاگ‘ ممکن ہی نہیں‘ بلکہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر
سے انکار‘ سورج کو مغرب سے‘ طلوع کرنے کے مترادف ہے۔
میں ناہیں سبھ توں‘
درحقیقت انبیا کا طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرتا اور ناہی‘ اپنی
مرضی کا کلمہ‘ منہ سے نکالتا ہے‘ کیوں کہ اس کا کہا‘ اور کیا‘ زندگی کا طور
اور حوالہ ٹھہرتا ہے۔ نبی کا رستہ موجود ہوتا ہے‘ فقیر ہر حالت میں‘ اس
رستے پر چلتا ہے۔ اس رستے پر چلنا‘ الله کے حکم کی اطاعت کرنا ہے۔ جہاں
اپنا حکم نافذ کرنے خواہش جاگتی ہے‘ وہاں شرک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ گویا
الله کے سوا‘ کسی اور کا بھی حکم چلتا ہے۔ شخصی حکم میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں
سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ناانصافی اور ظلم ہے۔
آدمی کوئی بھی‘ اور کسی بھی سطح کا ہو‘ الله کے قانون سے باہر جانے کا‘
استحقاق نہیں رکھتا۔ قانون کے معاملے میں استثنائی صورت موجود ہی نہیں
ہوتی۔ استثنائی صورت نکالنا‘ شرک ہے۔ فقیر الله کے قانون کے معاملے میں‘
کیوں کیسے یا اس طور کی خرافات کے بارے میں‘ سوچنا بھی‘ جرم عظیم یا دوسرے
لفطوں میں‘ گناہ کبیرہ سمجھتا ہے۔ جو الله نے کہہ دیا‘ وہی درست ہے‘ اس کے
سوا‘ کچھ بھی درست نہیں۔
ہر تخلیق کار کو‘ اپنی تخلیق سے پیار ہوتا ہے۔ الله بھی اپنی مخلوق سے‘
بےگانہ اور لاتعلق نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخلوق سے پیار کرتا ہے‘ احسان کرتا
ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچتا ہے‘ انصاف کرتا ہے‘ گویا وہ الله کی محبت کا دم
بھرتا ہے۔ فقیر‘ الله کی رضا اور خوشنودی کے لیے‘ الله کی مخلوق پر احسان
کرتا ہے۔ وہ اپنے منہ کا لقمہ‘ الله کی مخلوق کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس
کرتا ہے۔ الله کی مخلوق کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخلوق کی
خیر اور بھلائی‘ اس کی زندگی کا اصول اور مشن ہوتا ہے۔ اپنا خیال رکھیے‘
کیا ہوا‘ یہ تو کھلی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک سب کا خیال رکھو‘ یہ سنت
الله ہے‘ تمہارا خیال رکھنے کے لیے‘ الله ہی کافی ہے۔ فقیر یہاں بھی‘ میں
ناہیں سبھ توں کو‘ اپلائی کرتا ہے۔ اسے کسی مادی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اسے الله کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب‘ اپنی ذات کی نفی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ جب
عقیدہ میں ناہیں سبھ توں‘ سے دوری اختیار کرے گا تو
الله پر ایمان سے دور ہو جائے گا۔
اپنی ذات کو مقدم رکھے گا۔
بانٹ میں خیانت کرے گا۔
وسائل پر قابض ہونے کو زندگی کا مقصد ٹھہرائے گا۔
درج بالا معروضات کے حوالہ سے‘ ذات کا تیاگ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘ اہل جاہ
اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکتا ہے۔ حق اور انصاف کی باتیں‘ اور الله کے
حکم کے خلاف انجام پانے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی بادشاہ یا اہل
ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظاہر پلایا
جائے گا۔ بادشاہ یا اہل ثروت بھول جاتے ہیں‘ کہ میں ناہیں سب توں‘ کے حامل
مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہلے ہی کب ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔ میں
کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخلوق ہے‘ تو مخلوق نہیں۔ |