امیروں کے مسائل

یہ بات ایسی ہی ابدی حقیقت ہے جیسے کہ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں غروب ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر انسان، امیر ہو چاہے غریب ،مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔آج تک کی معلوم شدہ انسانی تاریخ سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ دنیا میں امیر ہمیشہ اقلیت میں اور غریب اکثریت میں رہے ہیں۔چونکہ اکثر عالم فاضل، مصنف،اسکالر،مقرر، واعظ،ادیب،شاعر، محقق، مدبر وغیرہ غریب لوگ تھے اس لئے غریبوں کی وکالت زیادہ ہوئی ہے اور امیروں کے مسائل منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔

یہ بات بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا اور دوسری بات کہ بعض لوگ ہر حال میں خوش رہ سکتے ہیں۔اطمینان اور بے اطمینانی یا خوشی اور غم غالباً دل اور ذہن کی وراثت ہیں نہ کہ جسم کی۔ امیری اور غریبی تو صریحاً جسم سے منسلک ہونے والی صفات ہیں۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جسم سے دل اور دل سے جسم تک اثرات کا آنا اور جانا ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ چیزیں اپنا مقام و مسکن دل و دماغ کو اور کچھ چیزیں اپنا مقام و مسکن جسم کو رکھتی ہیں۔

انسان کا ذہن اور انسان کا جسم قدرت کے عجوبات میں شمار ہوتے ہیں،دونوں کو سمجھنے میں صدیاں بیت گئی ہیں لیکن دانشورانِ دہر کو ابھی تک شاید ایک بھی بات سمجھ نہیں آسکی۔اپنے آپ کو سمجھنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ کسی اور کو سمجھنا۔جسے اپنی سمجھ آجائے اسے اور کیا چاہئے۔اسے تو حکمت کا خزینہ مل گیا اور جسے حکمت مل گئی اسے بہت کچھ مل گیا۔کیا ہم کبھی ایک لمبی مدت کے لئے خوش اور مطمئن ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔اور کیا ہم ایک بہت لمبی مدت کے لئے کسی غم میں مبتلا رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہم خوش بھی ہوتے ہیں اور غم زدہ بھی لیکن ایک محدود مدت کے لئے اس کے بعد فطرت اپنا ایکشن کرتی ہے زخم اس طرح بھرتی اور سیتی ہے کہ ان کا نشان بھی باقی نہیں رہنے دیتی۔ہاں بعض اوقات نشان باقی رہ جاتا ہے لیکن درد دور ہو جاتا ہے۔کوشش کر کے بھی رونا نہیں آتا اس غم پر جس پر کبھی رونا رکے نہیں رکا کرتا تھا۔انسان اس قدر عجیب ہے کہ کچھ مدت بعد بچھڑنے والوں کو اس طرح بھلا دیتا ہے جیسے وہ کبھی ملے ہی نہ تھے۔اسے بے وفائی کہیں، غداری کہیں،بے رخی کہیں، وقت کی کروٹ کہیں یا فطرت کا طلسم کہیں۔ کچھ بھی کہہ لیں لیکن حقیقت یہی ہے۔

میری ان باتوں کا مقصد آپ سمجھ رہے ہوں گے، در اصل میں اپنی بات کے لئے زمین ہموار کر رہا ہوں۔ کوئی بھی بات کہنے یا سمجھنے یا سمجھانے سے پہلے بنیاد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم بنیاد پر اتفاق کر جائیں تو باقی عمارت یعنی کسی تھیوری یا نظرئیے پر اتفاق کرنا مشکل نہیں رہتا اور ہم اختلافات کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ پنجابی زبان کی ایک ضرب المثل ہے:سو سیانا اکو مت۔ مطلب یہ کہ ایک بات کو سمجھنے والے جتنے بھی لوگ ہوں گے ان کی رائے مشترک یا یکساں ہو گی۔کیونکہ وہ اس بات کو جانتے ہوں گے۔ اکثر لڑائیاں نو جوان کرتے ہیں کیونکہ وہ اکثر باتوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔

جب ہم اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان کے جذبات چاہے وہ کیسے بھی ہوں تا دیر اس کاساتھ نہیں دیتے اور کچھ ہی وقت کے بعد وہ پھر پہلے والی کیفیت سے دوچار ہو چکا ہوتا ہے،تو ہمیں امیروں کے مسائل سمجھنے میں آسانی ہو گی۔

امیروں کے مسائل سمجھنے کے لئے اس ابدی حقیقت کا ادراک بھی ازحد ضروری ہے کہ انسان کو جوچیز مل جاتی ہے اس کی خواہش کافی ماند پڑجاتی ہے اور کچھ مدت بعد اس کا لطف ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے کیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ مثلاً ایک شخص کو کھانے میں ہر دفعہ مٹن دیا جائے جسے کھانے کی اس کے اندر زبردست خواہش ہو۔ وہ شخص ضرور پہلی دفعہ بہت محظوظ ہو گا، دوسری بار وہ لطف کم پڑ جائے گا، تیسری بار اور کم اور چوتھی پانچویں بار تو شاید وہ منع کر دے کہ اسے مٹن کا کھانا نہ دیا جائے۔ جو لوگ روزانہ مٹن کھاتے ہیں انہیں بھلا مٹن کا کیا مزا آتا ہو گا۔ ان کے لئے مٹن کھانا ایسا ہی ہے کیسے کوئی عام سا کھانا کھا لینا۔ان کے لطف کا لیول کہیں اور چلا جاتا ہے اور وہاں چلا جاتا ہے کہاں وہ اسے بار بار حاصل نہیں کر پاتے۔ جس چیز کی فراوانی ہو جائے اس کا لطف ماند پڑ جائے گا ۔ جیسے پانی کی فراوانی ہے تو ہم اپنے مہمان کو س سوڈا واٹر پیش کرتے ہیں جو وہ بار باریا اکثر نہیں پیتا۔ اس لئے وہ اسے مزا دیتا ہے اور پانی پیش نہیں کرتے کیونکہ پانی وہ اکثر اور باربار پیتا ہے۔یعنی جو چیز ہر وقت دستیاب رہے وہ اپنا لطف کھو بیٹھتی ہے۔

انسان کا اپنے اوپر ضبط رکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتناناخنوں یا بالوں کو بڑھنے سے روکنا۔کیونکہ انسان کا اندر اس کا باغی ہے۔اس کی بکل کے اندر ہی چور چھپا بیٹھا ہے۔ اس چور کو قابو کرنا مشکل اور محال ہے۔اس باغی کی زد میں ہر انسان آتا ہے۔یہ باغی انسان کو سکون نہیں لینے دیتا۔اور اسے ہر وقت عجیب و غریب قسم کی الجھنوں میں پھنسائے رکھتا ہے۔غالبؔ نے فرمایا ہے:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ہیں ایک
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

اس شعر میں انسان کا ذکر ہے کسی امیر یا غریب کا نہیں،یعنی امیر بھی مرتے دم تک غم سے نجات نہیں پا سکتے۔کیونکہ زندگی اور غم ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں۔تو امیر اس سے دامن کیسے بچا سکتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ غریب لوگوں کے سامنے روتے ہیں اور امیر لوگوں سے چھپ کر روتے ہیں لیکن روتے دونوں ہی ہیں۔

امیروں کے مسائل پر بحث کرنے سے پہلے میں آپ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ غریبوں کی طرح امیروں کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ قائل ہو گئے ہیں تو میں بات آگے بڑھاتا ہوں۔ اور اگر نہیں ہوئے تو میں ایک دو اور مثالیں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کیا کہا ہو گئے ہیں۔چلیں ٹھیک ہے ۔ ہم اب اگلی بات پر آتے ہیں۔
امیروں کے مسائل:
۱۔بہت سارے لوگوں سے دور رہنے کا مسئلہ
۲۔کچھ لوگوں کو قریب رکھنے کا مسئلہ
۳۔جدید تریں فیشن سے باخبر رہنے اور اپنانے کا مسئلہ
۴۔دوستوں پر سبقت لے جانے کا مسئلہ
۵۔دولت کو چھپانے اور اس کا اظہار کرنے کا مسئلہ
۶۔رنگوں اور شیڈوں کے مسائل
۷۔ڈاکوؤں اور بد معاشوں سے بچنے کا مسئلہ
۸۔مذید دولت سمیٹنے اور پراپرٹی بنانے کا مسئلہ
۹۔اولاد کی اونچی فیملیوں میں شادیوں کا مسئلہ
۱۰۔شہرت بنانے اور برقرا ررکھنے کا مسئلہ
۱۱۔سیاسی لوگوں سے قریبی تعلقات بنانے یا خود سیاست میں حصہ لینے کا مسئلہ
۱۲۔بہتریں کوٹھی یا مکان کو دور سے ہی نظر آتا اور نظر کو بھاتا ہو کا مسئلہ۔
۱۳۔خوبصورت کار یا کاروں کے ہونے کا مسئلہ
۱۴۔کسی شہرت یافتہ شخص سے تعلقات رکھنے کامسئلہ
۱۵۔کسی شاعر یا ادیب سے تعلقات تا کہ ان کی قصیدہ خوانی ہو سکے کا مسئلہ
۱۶۔کچھ غریبوں سے تعلقات جو آتے جاتے ان کو سلام کریں کا مسئلہ
۱۷۔مہنگے سے مہنگا موبائل رکھنے کا مسئلہ
۱۸۔ہر وقت نئے سوٹوں میں ملبوس ہونے کا مسئلہ
۱۹۔دور دراز کی سیروتفریح کا مسئلہ
۲۰۔کسی بڑے شہر میں بھی کوٹھی یا کوٹھا ہونے کا مسئلہ
۲۱۔چھوٹے ملازمیں مثلاً پٹواری، کچہری کے کلرک، میٹر ریڈر وغیرہ سے تعلقات کا مسئلہ
۲۲۔گاڑی چلانے کے لئے ڈرائیور رکھنے کا مسئلہ
۲۳۔غریب رشتہ داروں سے بچنے اور ان کو دور رکھنے کا مسئلہ
۲۴۔نیند نہ آنے کی صورت میں نیندآور گولیوں کے کھانے کا مسئلہ
۲۵۔کسی قریبی مسجد کی انتظامیہ میں ممبرشپ بلکہ صدارت لینے کا مسئلہ
۲۶۔کسی گلی محلے یا سڑک کے کنارے پتھر کی سل پر اپنا اسمِ گرامی لکھوانے کا مسئلہ
۲۷۔اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے کوئی مسئلہ پیدا کروانے کا مسئلہ
۲۸۔بہت سارے یا ہر سال حج یا عمرہ کرنے کا مسئلہ
۲۹۔پرہیزی کھانا کھانے کا مسئلہ
۳۰۔لوگوں کے اجتماع میں اپنی پھوں پھاں بنانے کا مسئلہ
۳۱۔بڑی ضیافتیں ارینج کرنے کا مسئلہ
۳۲۔گھر ،سٹور، فیکٹری وغیرہ کی حفاظت کے لئے سکیورٹی گارڈ رکھنے کا مسئلہ
۳۳۔کاروبار یا زمیں کی آمدنی اور خرچ کے حساب کتاب کے لئے منشی یا کلرک رکھنے کا مسئلہ
۳۴۔اولاد کو خانہ خرابی اور عیاشی سے بچانے کا مسئلہ
۳۵۔بیماریوں سے اکثر تعلق رہنے کی صورت میں کوئی بااعتماد فیملی ڈا کٹر رکھنے کا مسئلہ
۳۶۔نظر خراب ہونے کی صورت میں شاندار چشمے کا مسئلہ
۳۷۔اپنی خوبصورتی برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لئے مہنگی مہنگی کریموں اور کاسمیٹکس کا مسئلہ
۳۸۔ امیر مگر ماتحت رہنے والے دوستوں کا مسئلہ
۳۹۔گھر کی صفائی ستھرائی کے لئے ایسی نوکرانی جو جھاڑجھپاڑ سن سکتی ہو کے ڈھونڈنے کا مسئلہ
۴۰۔ایسے ہمسائے جو زیادہ غریب نہ ہوں اور تعریف کرنا جانتے ہوں کے ہونے کا مسئلہ
۴۱۔ایک دن میں تین چار بار کپڑے بدلنے کا مسئلہ
۴۲۔گھر میں ہر سیز ن میں کوئی ناولٹی یعنی نئی چیز لے کے آنے کا مسئلہ
۴۳۔مہنگے ہوٹلوں میں ضیافتیں کرنے یا کروانے کا مسئلہ
۴۴۔کسی غیر ملک کا وزٹ کرنے کا مسئلہ
۴۵۔اپنی اولاد کو مہنگے مہنگے اداروں میں تعلیم دلوانے کا مسئلہ
۴۶۔اولاد کی شادیوں کے مسئلہ
۴۷۔نئے ماڈلز کی طلب کا مسئلہ
۴۸۔خالص جذبات کی عدم ستیابی کا مسئلہ
۴۹۔کمزور فزیک کا مسئلہ
۵۰۔نظرلگنے کا مسئلہ

یہ ان مسائل کی ایک سرسری سی فہرست ہے جسے ایک عام شخص اندر کے معاملات سے با خبر ہوئے بغیر بیان میں لا سکتا ہے۔ اندر کو نہ جانے کتنے اور مسائل منہ کھولے انسان کو سالم ہڑپ کر جانے کا سوچ کر بیٹھے ہوں گے۔

ان مسائل پر اگر چھوٹے چھوٹے پیروں میں گفتگو نہ کی گئی تو شاید یہ سمجھا جائے کہ مذاق کیا گیا ہے اور معاملہ مضمون نویسی کا شوق پورا کرنے کے لئے نوکِ قلم پر لایا گیا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ مضمون کو طوالت سے بچاتے ہوئے کچھ مذید بات کی جائے۔

پہلی بات کہ کچھ لوگوں کو دور رکھنا ایک امیر آدمی کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی امارت کا کیا فائدہ اگر اس نے غریبوں میں ہی اٹھنا بیٹھنا ہے تو دولت کس کام کی۔وہ بہت سارے غریب لوگوں حتیٰ کہ غریب رشتہ داروں سے بھی الگ ہو جانا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کی دولت سے حسد میں مبتلا رہتے ہیں،اندر ہی اندر جلتے ہیں۔اس لئے ان کو دور رکھنا خود ان کی صحت اور زندگی کی آسانی کے لئے ضروری ہے۔اب انسان ایک معاشرتی حیوان بھی ہے وہ بالکل اکیلا بھی نہیں رہ سکتا لہٰذا کچھ روحوں کو اسے پاس رکھنے کی انسانی ضرورت بھی ہوتی ہے جسے وہ کسی نہ کسی طرح سے پورا کر لیتا ہے۔
جدیدترین فیشن سے باخبر رہنا اتنا ہی ضروری ہے جنتا کہ خود زندہ رہنا ۔اگر فیشن کا پتہ نہ چلے تو زندہ اور نازندہ میں کیا فرق رہ گیا۔ اس لئے ایک امیر آدمی پر لازم ہے وہ دورِحاضر کے فیشن پر کڑی نگاہ رکھے اور جیسے ہی وقت کی کوکھ سے فیشن جنم لے سب سے پہلے اسے ہی سلام کرنے آئے۔ورنہ اسے غریبوں کی تقلید کرنا پڑے گی جو کہ زندہ سلامت در گور ہونے والی بات ہے۔

امیر آدمی کو ایک مسئلہ دوستوں پر سبقت لے جانے کا بھی درپیش ہوتا ہے۔دوستوں میں اگرچہ بے تکلفی ہوتی ہے لیکن امیر آدمی اس بے تکلفی کو اپنے مفاد اور موڈ پر قربان ہونا مانگتا ہے۔اسے ایسے دوست چاہیئں کو دوست کم اور حاشیہ بردار زیادہ ہوں تاکہ اس کی ہر بات دادِ تحسین سمیٹی ر ہے۔اور کسی قسم کی ذہنی اور لسانی پریشانی سے بچا جا سکے۔

دولت کو چھپانا اور ظاہر کرنا امیر آدمی کے مسائل میں سے ہیں۔دولتکو چھپانا اس لئے ضروری ہے کہ کہیں لٹ نہ جائے اور ظاہر کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے کہ دولت کے فوائد سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ اگر دولت سے لطف نہیں اٹھانا تو کمانے کی کیا ضرورت تھی۔اس مسئلہ سے وقت کے اندر ہونے والے تجربات ہی آہستہآہستہ نکالتے ہیں۔

یہ بات محدودِ چند لوگ ہی جانتے ہیں کہ امیر آدمی کی نفسیات بہت حساس اور شدید ہو جاتی ہے۔ اسے کوئی کلر پسند نہیں ہے تو اسے برداشت کرنا اس کے لئے ایسے ہی ہے جیسے کسی دشمن کو اپنے گھر رہنے کی اجازت دینا مشکل ہے۔لہٰذا جب اسے کوئی کلریا شیڈ پسند نہیں آتا تو اس کے لئے یہ معاملہ اتنا ہی شدید ہو جاتا ہے جیسے کسی کے گھر پردشمن قبضہ کر لے۔یا کوئی نیا کلر یا شیڈ پسند آجائے تب بھی بات یہی ہے۔

ڈاکوؤں اور بدمعاشوں سے بچنا جنتا مشکل ہے اتنا ضروری بھی ہے۔اور چور ڈاکوں رہتے بھی امیروں کی تاک میں ہیں غریبوں سے انہیں کیا ملنا ہے۔امیر آدمی خوف وہراس کی جس چاردیواری میں سوتا ہے ،چاہے گولیاں کھا کرہی، اس میں غریب کو تو ایک ماہ تک نیند نہ آئے گی۔ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کا ہر وقت کا خطرہ امیر آدمی کا بہت بڑا مسئلہ ہے جو نہ کبھی ختم ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا۔

انسان فطرتی طور پر ترقی پسند ہے۔وہ ہر زمانے سے گزرا ہے اور آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا ہے۔یہی کیفیت امیر آدمی کی بھی ہے کہ وہ اپنی دھن دولت اور جائیدا کو مذید بڑھانا چاہتا ہے۔وہ چلتے پھرتے، سوتے جاگتے اکثرو بیشتر یہی سوچتا ہے کہ اس کی دولت مذید کیسے بڑھے گی۔وہ ہر وقت ایسے منصوبے اور کام سوچتا رہتا ہے جو اس کی دولت کو کئی گنا بڑھا دیں۔ اس کی سوچیں اس وجہ سے بھی بے چین رہتی ہیں۔

اولاد کی شادی ہر صاحبِ اولاد کی بنیادی فکروں میں سے ہے۔لیکن ایک امیر آدمی کو یہ مسئلہ زیادہ تنگ کرتا ہے کہ اس کا انتخاب بہت اونچا ہو جانے سے بہت سے رشتے اس تک پہنچ نہیں پاتے اور امیر آدمی کی مشکلات میں خاطرخواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

دولت کمانے کے بعد امیر آدمی کا ایک بڑا مسئلہ شہرت پانا ہوتا ہے اور اگر شہرت نہیں ہے تو دولت کا حصول ایسے ہی ہے جیسے کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کہ نے دیکھا۔دولت کی پیاس بجھانے کے بعد انسان شہرت کی پیاس کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس کے لئے اسے کئی جتن کرنے پڑتے ہیں۔جن میں سے آجکل کے حالات میں ایک جتن سیاست میں آنا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاست میں شہرت کے ساتھ ساتھ رسوائی بھی بہت ہوتی ہے۔لیکن یہ مشہور ہونے کا ایک بہترین طریقہ یا رستہ ہے۔

اگر سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی سیاسی لوگوں سے قریبی تعلق یا میل جول رکھنا ایک امیر آدمی کی سماجی مجبوری اور حکمتِ عملی ہے جس کے بغیر اس کا ستحکام اور بقا ہی خطرے میں ہے۔سیاسی لوگوں کی آؤ بھگت کرنا اپنے آپ کو سلامتی دینا ہے ایک امیر شخص کے لئے۔اور ایسا اسے کرنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی امیر آدمی کے مسائل میں سے ہے۔

امیر لوگوں کے لئے خوبصورت مکان کا رکھنا بہت ضروری ہے،مکان کا دیدہ زیب ہونا ان کے اپنے دیدہ زیب ہونے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کو تو کسی کسی نے دیکھنا ہے لیکن مکان یا کوٹھی کوتو ہر کسی نے دیکھنا ہے۔مکان کی عمارت ان کی امارت کی آئینہ دار ہوتی ہے اس لئے امیر لوگوں کو ان کا خیال رکھنے کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

آدمی امیر ہو لیکن اس کے پاس کار نہ ہو تو اس کی دولت بیکار ہے۔اس لئے امیر لوگ کار دار ہوتے ہیں اور بے کار لوگوں کو دور ہی رکھتے ہیں یا کبھی کبھار اپنی قیمتی کار سے غریبوں کو چھینٹے ضرور دال دیتے ہیں تا کہ وہ کار سے بالکل ہی محروم نہ رہ جائیں۔اکثر امیر گھرانوں کا ایک کار سے گزارہ نہیں ہوتا اس لئے ان کے پاس متعدد کاریں ہوتی ہیں، اور خوبصورتی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے خاص طور پر جدید ترین ماڈل کی کارکا ہونا تو ایسے ہی ضروری ہے جیسے جسم کے اندر روح کا ہونا ضروری ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ دولت حاصل کرنے کے بعد شہرت کا مرحلہ آتا ہے۔ جو دولت مند خود شہرت یافتہ نہیں بن پاتے وہ کسی شہرت یافتہ آدمی سے تعلق بناتے ہیں تا کہ شہرت پانے کی خواہشِ نامرا د کی کسی حد تک تسکین ہو سکے۔

کسی شاعر یا ادیب سے تعلق بھی امیر لوگ اپنی مدح سرائی کی خواہش کے تحت استوار کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ شاعر ان کی تعریف کرے چاہے جھوٹی ہی ہو اور ادیب قسم کے لوگ ان سے متعلق جھوٹ سچ کی آمیزش سے کچھ لکھیں تا کہ ان کا ایک تو نام باقی رہے، دوسرا یہ کہ لوگ کہیں کہ دیکھیں اس کی تعریفیں پڑھے لکھے لوگ بھی کر رہے ہیں۔

امیر آدمی کے لئے ضروری قرار پاتا ہے کہ وہ سارے غریبوں کو جھٹک کر پرے نہ پھینک دے بلکہ چند مخلص اور سلام کرنے والے غریبوں کو اپنے ساتھ منسلک بھی رکھے جو جہاں بیٹھیں اس کی تعریف کریں، جہاں ملیں اسے سلام کریں۔اور اس کی بیٹھک اور ڈیرے کی رونق برقرار رکھیں اور چھوٹے موٹے کام بھی آتے رہیں۔

امیر آدمی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس اس کا ہمزاد یعنی موبائل کافی مہنگا ہو،اور جدید ترین ورائٹی کا ہو تا کہ جو دیکھے متاثر ہو۔امیر آدمی کے پاس سستا موبائل مذاق اور تمسخر کا باعث بنتا ہے۔جس طرح باقی چیزیں منفرد اور مہنگی ہونی چاہئیں ایسے ہی مو بائل بھی کافی مہنگا ہو کہ لوگ اس کی بات کریں کہ اس کے پاس اتنا قیمتی موبائل ہے۔

امیر آدمی کا لباس انتہائی مہنگا ہو اور ہر وقت اچھی کیفیت میں ہو تا کہ غریب یا دوسرے لوگ جب بھی دیکھیں انہیں اس کی نفاست اور عمدگی محسوس ہو۔لباس انسان کی بیرونی شخصیت ہے اس کا خیال اندرونی شخصیت سے بھی زیادہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اندرونی شخصیت سے تو کوئی مشکل سے واقف ہوتا ہے لیکن اندرونی شخصیت تو بن بولے بولتی ہے۔

امیرآدمی کے مسائل میں سے ایک نازک سا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ دور دراز کا سفر بھی کرے اور ان جگہوں کے متعلق کافی کچھ جانتا ہو جن میں عام لوگوں کی دلچسپی ہو لیکن اکثر نے وہ جگہ دیکھی نہ ہو۔ایسا کرنا اس کی برتری برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔وہ عام لوگوں یا دوستوں میں بیٹھ کر اس بات کا بار بار تذکرہ کرے تا کہ اس کی برتری کا گراف اونچائی کی طرف مائل رہے۔

امیر آدمی کا ایک پرابلم یہ بھی ہے کہ اس کا صرف اورصرف ایک ہی گھر نہ ہو،بڑے شہروں میں اور خاص کر دارلخلافہ یا صحت افزا مقامات پر گھر کا ہونا اس کے ٹھاٹھ باٹھ کے لئے بہت ضروری ہے۔کبھی کبھی دوستوں اور معزز رشتہ داروں کو ادھر لے جانا اور پھر اکثر اس کی باتیں کرنا اس کی شان و شوکت کے لئے ضروری قرار پاتا ہے۔

امیر آدمی کے عام مسائل میں چھوٹے ملازمیں کے ساتھ تعلقات رکھنا جن میں کچہری، واپڈا، ایکسائز،بلدیہ وغیرہ کے ملازمیں زیادہ اہم ہیں انتہائی ضروری ہے۔اگرچہ اس کا چھوٹے لوگوں سے تعلقات رکھنے کو دل نہیں چاہتالیکن یہ لوگ اس کے چھوٹے موٹے مسائل کے حل میں بڑے ملازمین سے زیادہ کارگر ثابت ہو سکتے ہیں ۔اس لئے اس کو یہ مسئلہ بھی فیس کرنا پڑتا ہے،اور با دلِ ناخواستہ بھی کچھ لوگوں کو قریب رکھنا پڑتا ہے۔

ڈرائیوررکھنا ایک امیر آدمی کا شخصی اور سماجی مسئلہ ہے، شخصی اس لئے کہ اس کا تعلق اس کی اپنی ذات اور فیملی سے براہِ راست ہوتا ہے اور سماجی اس لئے کہ اس سے یعنی ڈرائیور رکھنے سے اس کا سماجی سٹیٹس بڑھ جاتا ہے۔ اور ایک غریب آدمی کی دعائیں بھی اس کے شاملِ حال ہو جاتی ہیں۔وہ بہت سے کاموں پر خود جانے کی بجائے اپنے ڈرائیور کو بھیج کر کام یا ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ڈرائیور کی عمر، تجربہ، شکل و صورت،فیملی، بیک گراؤنڈ وغیرہ کو مدِ نظر ضرور رکھنا چاہیے۔اور اس پر کڑی نگاہ بھی رکھی جائے کہ وہ کس حد تک سچ یا جھوٹ بولتا ہے۔

امیر آدمی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ غریب رشتہ داروں کو کیسے مناسب فاصلے پر رکھا جائے۔ غریب رشتہ دار عام طور پر امیر رشتہ دار کے آس پاس رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی فیملی میں رشتے بھی لینا اور دینا چاہتے ہیں،لیکن امیر آدمی بس کسی اور امیر آدمی کا ہی طلب گار ہوتا ہے۔رشتہ داری کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اسے چھوڑا یا توڑا نہیں جا سکتا،اور اس کے ساتھ رہا بھی نہیں جاسکتا۔اس طرح امیر آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

نیند انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ہے،انسان کے لئے سونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مرنا۔لیکن امیر شخص اس مسئلے سے بھی دوچار ہوتا ہے کہ اسے رات کو اکثر نیند نہیں آتی۔نیند نہ آنے کی کوئی ایک یا متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔احساسِ کمتری یا احساسِ برتری دونوں نیند نہ آنے میں برابر طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔گھریلو پریشانیاں، خوف، خوراک کا غیر متوازن ہونا، جسمانی صحت کا معیار کے مطابق نہ ہونا وغیرہ اس سلسلے میں زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اکثر امیر لوگ نیندآور میڈیسن لیتے ہیں تا کہ آرام کی نیند سو سکیں،لیکن یہ میڈیسن بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔بعض اوقات معمول سے زیادہ میڈیسن لینا پڑتی ہے اور نیند پھر بھی مرضی سے آتی ہے۔

مساجد،چرچ، مندر وغیرہ عبادت کے مقصد سے تعمیر کیے جاتے ہیں اور انہیں چلانے کے لئے روپے پیسے کی ضرورت تو ہوتی ہے، اکثر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار کوئی امیر شخص جو کہ مذہبی ذہن رکھنے والا ہو بھی مسجد،مندر وغیرہ کی انتظامیہ میں جگہ بنا لیتا ہے اور دوسرے لوگ اسے مناسب قدر بھی دیتے ہیں اس کی ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہے۔اس کا مناسب احترام بھی کیا جاتا ہے اور اکثر انتظامیہ کا صدر بھی منا دیا جاتا ہے۔ اس سے اس کے کئی ایک مسائل حل ہو جاتے ہیں۔لہٰذا مسجد کی انتظامیہ کی ممبر شپ یا صدارت امیر آدمی کے مسائل میں سے ہے۔

کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔یہی بات امارت سے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔اس مقصد کے لئے گلیوں محلوں وغیرہ کی نکروں پر اس کے نام کی تختیاں لگنا بہت ضروری ہے۔ کوئی چھوٹا موٹا فلاحی کام کروا کے وہاں اپنے نام کی تختی لگوا لی جائے جو دوسروں کو باور کرواتی رہے کہ یہاں کا امیر شخص کون ہے۔تختی لگنی چاہئے چاہے اس کے آس پاس کی فضا ٹھہرنے کے لئے موزوں نہ ہی ہو۔

اس بات سے انکار کی اتنی گنجائش نہیں کہ کسی شخص کی اہمیت اس کی ضرورت سے منسلک ہوتی ہے۔ ایک امیر آدمی کو چاہیے کہ اپنے آس پاس کے باشندوں کو اپنی ضرورت کا احساس دلاتا رہے۔ضرورت انسان کی مجبوری بن جاتی ہے۔وہ مجبور انسان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جب خود کو ناکس پائیں گے تو لازمی کسی کا سہارا تلاش کریں گے۔اس صورتِ حال میں امیر آدمی اپنی خدمات پیش کرے۔کیونکہ موقع ضائع کرنے کے لئے نہیں ملتا۔ یہ بات کسی امیر آدمی کی شہرت اور نیک نامی میں اضافے کا سبب بنے گی۔اور ایسا کرنا یا کرنے کی خواہش رکھنا امیر آدمی کا مسئلہ ہے۔

مذہب اور امیر آدمی بظاہر قریب قریب نظر آتے ہیں۔امیر شخص مذہب کی مخالفت سرِعام نہیں کرتا۔وہ کسی نہ کسی فرقے میں آتا ہے اور اس کی مالی امداد بھی کرتا ہے ۔ ہمارے یہاں کے امیروں کے لئے سال میں ایک بار عمرہ یا حج کرنا ان کی نیک نامی اور بزرگی پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے یا کروانے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔امیر شخص کو باقی معاملات کے ساتھ ساتھ اس بات کا دھیان بھی رکھنا پڑتا ہے یا اسے اخلاقی اور مذہبی طور پر رکھنا بھی چاہیے۔

قدرت تضاد پسند ہے۔اکثر و بیشتر امیر لوگ صحت کی کسی نہ کسی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس میں ان کی اپنی غفلت بھی ہو سکتی ہے اور قدرت کا متضاد رویہ بھی۔ وہ بہت کچھ کھا سکنے کے باوجود بہت کم ہی کھا سکتے ہیں۔ ان کو اپنی صحت اور زندگی کے لئے بہت ساری چیزیں کھانے سے ان کے ڈاکٹر منع کردیتے ہیں اور یہ امیر بے چارے بہت ہی سادہ کھانے کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ا ن کی دولت کے انبار ان کے کسی کام سے نہیں رہتے۔ اگر سوچا جائے تو یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے جس کا اکثر امیروں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لوگوں کے گروہ میں اپنی ذات یا اپنی بات یا اپنا آپ منوانا ہی تو امیر آدمی کا اصل مسئلہ ہے۔یہاں وہ اکثر ایسی بات کرے گا جو سب کو یا اکثریت کا قابلِ قبول ہو ۔ وہ لوگوں کی عزت اس لئے کرے گا کہ خود اس کی عزت کی جائے۔گروہ یا ہجوم کو اپنے پیشے لگانا امیر شخص کی آنکھوں نہیں بلکہ دل کا خواب ہوتا ہے۔اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ اس کے لئے کافی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک امیر آدمی کی عزت اس کے بڑا ہونے میں ہوتی ہے۔بڑا ہونے میں بڑا کھانا کھلانا بڑا رول پلے کرتا ہے۔ کسی سے اپنی تعریف کروانی ہو تو اسے خوب کھلایا پلایا جائے۔جب کوئی کانا ہو جائے تو تعریف بھی کرے گا۔بڑی دعوتیں کرنا امیروں کا صدیوں سے وطیرہ رہا ہے۔ اس میں بڑے لوگوں کے ساتھ ساتھ کچھ چھوٹے لوگ بھی بلائے جائیں تا کہ وہ بعد میں تعریف کریں ۔بڑے لوگ تو ایک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں اس لئے وہ کم ہی تعریف کرنے کا مشکل کام کم ہی انجام دیتے ہیں۔ یہ کم امیر لوگ ہی ہوں گے جو کسی امیر کی ضیافت کی ثناء کریں گے۔اس لئے امیر آدمی کو اس مسئلے سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔

سیکیورٹی انسان کا فطرتی مسئلہ ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی حفاظت کی فکر کرتا ہے اور اسے کرنی بھی چاہئے ورنہ پھر نا قابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔لیکن امیر شخص کو یہ فکر ایک عام انسان کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ وہ افورڈ کرتا ہے، وہ اپنی، اپنے گھر کی، اپنی فیکٹری وغیرہ کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈ رکھ لیتا ہے۔ یا اسے رکھنا ہی پڑتا ہے۔ انسان کا ہر کام اس کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ ایسے ہی سیکیورٹی گارڈ رکھنا امیر آدمی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔اسے انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ وہ کسے اپنی جان و مال کی امانت سونپے۔ اس مقصد کے لئے ایک انتہائی با اعتماد شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ عام طور پر نہیں ملتا۔اب آپ خود ہی سوچیں کہ جس ہمدم کی ضرورت ہو اور وہ نہ ملے تو یہ کتنا بڑا مسئلہ ہو گا جس سے عام غریب لوگ کبھی بھی واقف نہیں ہو پا تے۔

سیکیورٹی گارڈ سے ملتی جلتی ایک اور پرابلم جس کا امیر انسانوں کو اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اپنے مال ودولت، آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب رکھنے والا منشی یا کلرک کا رکھنا ہے۔سیکیورٹی گارڈ جان کی اور منشی یا کلرک مال کی حفاظت پر معمور ہوتا ہے دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کی اتنی وقعت باقی نہیں رہتی۔کلرک کا بااعتماد ہونا بھی بہت ہی ضروری ہے۔اور اس کے کام کی جانچ پڑتال کرنا بھی بہت ہی اہم ہے ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔اورزیادہ غفلت برتنے کی صورت میں امارت کی پوری عمارت ہی دھرم سے زمیں بوس ہو سکتی ہے۔ جبکہ امیر لوگ مزاج کے سست واقع ہوتے ہیں۔اور حساب کی پڑتال کرناان کے لئے زندہ رہنے جیسا ضروری کام ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ امیر انسان کتنی مشکل میں ہوتا ہے جب اپنے مال ودولت کی خود پڑتال کرتا ہے۔

اولاد کی تربیت اور پرورش جس طرح ہر غریب آدمی کا مسئلہ ہوتا ہے ایسے ہی امیر شخص کا بھی ہوتا ہے اور کسی حد تک غریب آدمی سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ غریب آدمی اپنی اولاد کو بہت کچھ سمجھا سکتا ہے جبکہ امیر شخص اولاد کے آگے بڑی حد تک بے بس ہوتا ہے۔وہ ان کے مواقع محدود نہیں کر سکتا، سختی بھی اکثر اس کے مزاج سے دور رہتی ہے، اولاد بھی اکثر منہ زور ہوتی ہے۔گھر کا ماحول بھی مرضی کرنے اور دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ایسے ماحول میں اولاد خود سر ہو ہی جاتی ہے،اور خود سر کو سمجھانا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔لہٰذا اولاد کا مسئلہ بھی امیر شخص کے مسائل کی فہرست میں اپنی جگہ بنا تا ہے۔

بیماریاں بھی آج کل صاف ستھرا ماحول تلاش کرتی ہیں۔ صاف شفاف گھروں میں بیماریاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور پھر کوئی غریب گھر ان کو پسند نہیں آتا۔ بلڈ پریشر، شوگر،ہارٹ پرابلم،اینگزائٹی،وغیرہ وغیرہ۔امیر آدمی ڈاکٹروں کے کلینکس پے جاتا اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وہ ڈاکٹر کو گھر بلا لیتا ہے۔فیملی ڈاکٹر پر بھی بہت اعتماد کیا جاتا ہے۔ فیملی ڈاکٹر بہت ہی سوچ سمجھ اور دیکھ بھال کر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ اس کے ہاتھ میں فیملی کی صحت ہوتی ہے۔غریب آدمی کو ڈاکٹر رکھنے کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔امیر شخص کے لئے فیملی ڈاکٹر رکھنا ایسے ہی ہے کیسے ماضی میں بادشاہوں کے درباروں میں حکیم رکھے جاتے تھے۔الغرض فیملی ڈاکٹر بھی امیر شخص کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔

امیر شخص دور اندیش ہوتا ہے اس لئے اس کی نظر زیادہ استعمال سے جلد کمزور ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان نظروں پر کوئی سنہری سا چشمہ لگنا جو کہ بہت مہنگا ہو یا مہنگا لگتا ہو بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ویسے بھی چشمہ لگنے سے انسان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔امیر شخص بھی خود اعتماد ہوتا ہے۔لیکن اسے چشمے کے مہنگے ہونے کا مسئلہ ہوتا ہے۔چشمے کو صاف ستھرا رکھنا تو ہر چشمہ پوش کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن امیر شخص کا کچھ زیادہ ہوتا ہے۔پھر ایک سے زیادہ چشمے رکھنا بھی ضروری ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف چشمے لگائے جائیں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ پائے کہ اتنے امیر ہو کر بھی بس ایک ہی چشمے پر گذارا کرتے ہو۔

خوبصورتی ایسی عالمی خوبی اور خامی ہے کہ اس سے متعلق دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ہر انسان خوبصورتی پسند کرتا ہے اور خوبصورت بننا چاہتا ہے۔اگر خرید سکتا ہو تو خرید بھی لیتا ہے۔امیر شخص سے زیادہ خوبصورتی کا پرستار کون ہو سکتا ہے۔اور جب ایسی کاسمیٹکس دستیا ب ہوں جو رنگ گورا اورپیارا بنا سکتی ہوں تو ان کا استعمال نہ کرنا بھی تو قیامت ہے۔امیر خوبصورتی میں بھی تو امیر ہی ہونا چاہئے۔اس لئے سماجی اور شخصی تسکین کے لئے از حد ضروری ہے کہ امیر شخص قیمتی کاسمیٹکس کا استعمال برابر کرے تا کہ خوبصورتی بر ابر بڑھتی رہے۔

دوستی انسانی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے۔ اس کے بغیر رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔چند ایسے لوگ جو کہ ہم سر ہوں، بے تکلف ہوں اور خیر خواہ بھی ہوں کا ہونا ایسے ہی ضروری ہے جیسے انسانی وجود کے عناصرِ اربع میں سے کسی ایک کا ہونا۔غریب آدمی بھی دوست رکھتا ہے اور امیر شخص بھی۔ امیر کے دوست اکثر امیر ہوتے ہیں اور غریب کے غریب۔لیکن امیر شخص کو جیسے چٹ پٹے کھانے کھانے کا چسکا پڑ جاتا ہے ایسے ہی اسے اپنی واہ واہ سننے کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔برابر درجے کے امیر دوست اس کی ہاں میں ناں بھی ملا سکتے ہیں جبکہ اسے اپنی ہاں میں ہاں سننے کی خواہش غریب شخص سے کئی گناہ زیادہ ہوتی ہے،اس لئے اس کا مسئلہ ہے کہ ایسے غریب لیکن تھوڑے سے امیر دوست ہونے چاہئیں جو اس کی واہ واہ بھی کریں اور اس کے ساتھ بے تکلفی بھی ہو۔

امیر لوگ گھر کی صفائی ستھرائی بذاتِ خود نہیں فرماتے بلکہ تھوڑے سے کام کے لئے بھی نوکر یا نوکرانی کی خدمات پر اکتفا کرتے ہیں۔گھر میں کام کے لئے نوکرانی زیادہ مناسب ہے۔اور نوکرانی بھی ایسی کو کام کرنے والی ہونے کے ساتھ ساتھ خواتیں کی جھاڑ جھپاڑ بھی سہہ سکتی ہو۔ امیروں کو ایک سمت کا غصہ دوسری طرف نکالنے کی عادت غریبوں سے زیادہ ہوتی ہے۔اس لئے نوکرانی ایسی ہو جو کام کرنے یا نہ کرنے پر ہر وقت جھڑکیں سننے پر رضامند نظر آئے اورکل نہ آنے کی دھمکی بھی نہ دیتی ہو۔ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی نوکرانی ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہے اور اتنی بڑی مشکل ایک امیر شخص اپنے سر پر ہر وقت اٹھائے پھرتا ہے۔

امیر لوگ اکثر ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں ہر طرف امیر لوگ ہوتے ہیں ایسی جگہوں پر امیر شخص کے جذبات کی اتنی اچھی تسکین نہیں ہوتی۔اسے ایسی جگہ رہنا چاہئے جہاں آس پاس قدرے کم امیر لوگ رہتے ہوں تا کہ ان میں بات بن سکے۔پرانی کہاوت ہے اندھوں میں کانا راجا۔ ایسے لوگ تعریف بھی کریں گے، اور ماتحت بھی رہیں گے اور ایسی جگہ رہنے کا لطف ایک ریاست کی سرپرستی کرنے جیسا آئے گا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب مثالی خیالات ہیں حقیقت اکثر اس کے برعکس نکلتی ہے۔ لہٰذا امیر انسان کو یہ مسئلہ حل کرنے کا ٹارگٹ بھی زندگی کی طرف سے ملتا ہے کس کے متعلق غریب کو کبھی کوئی خیال بھی نہیں آیا ہوتا۔
قدرت نے انسان کو جو امتیازات عطا فرمائے ہیں ان میں سے ایک لباس بھی ہے۔ تمام مخلوق کو قدرت نے خود لباس پہنا کر پیدا کیا جسے وہ جاندار کبھی بدل نہیں سکتے،لیکن انسان ایسی مخلوق ہے جس کا لباس اس کی اپنی پسندناپسند پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اور انسان بھی فطرت کا کرشمہ ہے کہ اسے کوئی ایک لباس مطمئن ہی نہیں کرتا۔ نت نئے ڈیزائنوں کے کپڑے اور نئے فیشن کی سلائی اس کی سماجی مجبوری ہے، غریب شخص اس مجبوری کو معاشی مجبوری کے تہہ خانے میں چھپا دیتا ہے لیکن امیر شخص ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔دوسروں پر بالواسطہ رعب جمانے کے لئے یہ بات اشدضروری ہے کہ امیر شخص زمیں کا اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا ہونے سے پہلے پہلے تین چار بار لباس بدل چکا ہو کیونکہ ایک بار لباس کی تبدیلی ایک دن میں تو ایک عام سا ملازم بھی کر ہی لیتا ہے تو امیر آدمی کے لئے یہ بات بہت رسوا کن ہے کہ وہ بھی چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بات لباس کی تبدیلی سے گذرے۔لہٰذا ایک دن میں تین ،چار بار لباس تبدیل کرنا امیر آدمی کا سماجی اور ذاتی مسئلہ ہے۔

انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں،ان کو جتنا سر چڑھاؤ چڑھ جاتی ہیں اور جتنا دباؤ دب بھی جاتی ہیں۔ غریب کی مجبوریاں اسے خواہشات کو دبانے یا کچلنے کا مشورہ دیتی ہیں جبکہ امیر شخص کی امارت اسے ان کو جلد ازجلد پورا کرنے پر ابھارتی ہے۔ انسان جو کام کر ہی نہیں سکتا اس پر صبر اور شکر اپنانا کوئی معرکہ نہیں لیکن جو کام کرنا اس کے بس میں ہو اس سے باز رہنا قطعًا آسان نہیں ہے۔ بس یہی مسئلہ ہے جس کا امیر شخص شکار رہتا ہے اور دیکھنے والے بلا وجہ جیلس ہوتے رہتے ہیں۔ اب ہر نئے سیزن میں گھر میں کوئی نئی چیز نہ آئے تو دولت کا ڈھیر لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ مچلتی خواہشات کی تکمیل نہ کرنا اپنی جان پر ظلم کرنے کے ذمرے میں آتا ہے۔ امیر شخص یہ ظلم بھلا کیوں کر کرے گا۔ لہٰذا ہر نئے سیزن میں گھر میں ناولٹی کا لانا امیر شخص کا موسمی مسئلہ ہے جس کا عام طور ہر ایک متوسط سطح کا آدمی شکار نہیں ہوتا۔

انسان کی سماجی امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھا چکا ہو۔ان ہوٹلوں سے متعلق وہ گاہے گاہے گفتگو بھی کرتا رہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بہت بھولا بھالا ہے یا اسے پتہ نہیں کہ دنیا کہاں بستی ہے۔ جیسے ہمارے ملک میں شہر لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لہٰذا لاہور دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لاہور دیکھنے کا مطلب اینٹیں یا بتیاں دیکھنا نہیں اندازِ زندگی دیکھنا ہے،جسے ہوٹلوں میں جائے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس طرح امیر شخص کے مسائل میں بڑے ہوٹلوں میں ضیافتیں کرنا یا کروانا بھی شامل ہے۔

اپنے ملک کی حد تک تو بہت سے لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔ دوردراز کا سفر بھی کرآتے ہیں، اس لئے اصل برتری تو کسی مشہور ترقی یافتہ ملک کی سیر کرنے سے حاصل ہو گی۔پڑھے لکھے امیر لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ غیر ملکی دورے ساری زندگی کام آنے والی دولت ہیں، یہ ایسے موتی ہیں جو کبھی پرانے نہیں ہوتے۔ ایک بار بیرونِ ملک کا دورہ کر لینے کے بعد جتنی مرضی کہانیاں گھڑی جا سکتی ہیں۔ کئی ایک واقعات کا تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ کوئی گواہ نہیں ہوتا اس لئے کسی کی پرواہ بھی نہیں ہوتی، کسی چیز سے متعلق کچھ بھی کہا جا سکتاہے۔ بس خیا ل رہے کہ عالمی سچائیاں متاثر نہ ہوں مثلاً لندن انگلینڈ کی بجائے کہیں فرانس میں نہ پہنچ جائے۔

اولاد کو مہنگے مہنگے اداروں میں تعلیم دلواناامیر آدمی کا عام مسئلہ ہے۔ عام سرکاری ادارے تو غریبوں کیلئے ہوتے ہیں اس لئے امیروں کو وہاں نہیں جانا چاہئے۔اور وہ جاتے بھی نہیں۔پرائیویٹ ادارے معیاری ہوتے ہیں اس لئے امیروں کو ادھر ہی جانا چاہئے۔بس فیس کافی زیادہ ہوتی ہے، پھر کیا ہے، سٹیٹس تو بنتا ہے ناں۔ویسے بھی امیر شخص کی نفسیات میں غریب شخص سے علیحدگی ایک عام فیکٹر ہے۔امیر اور غریب کی دوستی بھی ایسے ہے جیسے پہاڑی کی چوٹی کسی کھائی سے دوستی کی بات کرے۔اپنے جیسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا عقل مندی، سکونِ قلب اور روشن مستقبل کی بات ہے۔ اس لئے امیر شخص کو اپنے بچے مہنگے اداروں میں بھیجنے کا فریضہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔یا دوسرے الفاظ میں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

برِصغیر پاک و ہند میں اولاد کی شادی والدین کے لئے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھی جاتی ہے۔جو والدین اس فریضہ میں سرخ رو ہو جائیں وہ خود اور دوسرے لوگ ان کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔یہاں ملنا بھی مشکل ہے اور بچھڑنا بھی۔دونوں صورتوں میں معاشرہ مختلف شکلوں میں درمیان میں آجاتا ہے۔اولاد کی شادیوں کا مسئلہ ہر والدین کو ہے لیکن امیر والدین کو زیادہ ہے وہ اس لئے کہ غریبوں کا انتخاب اتنا مشکل نہیں ہوتا،اور یہ کہ غریبوں کی اکثریت ہوتی ہے۔یہ دونوں باتیں ان کے حق میں جاتی ہیں۔ لیکن امیروں کا انتخاب بہت نایاب یا نادر ہوتا ہے اور ان کی اکثریت بھی نہیں ہوتی، لہٰذا ان کے لئے شادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

نئے ماڈلز کی تلاش اور ان پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے ایک امیر شخص کے لئے۔ لفظ امیر کا ایک معنی آگے آگے چلنے والا بھی ہوتا ہے۔ اگر امیر شخص نے اپنے آپ کو حقیقی امیر ثابت کرنا ہے تو اسے نئے ماڈلز سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے۔ نئی چیزیں سب سے پہلے اس کے پاس ہی آنی چا ہئیں۔ نئی چیزوں کا گھر میں ہونا با ہوش ہونے والی بات ہے اور پرانی چیزیں چاہے مہنگی ہوں پرانی ہوتی ہیں۔دنیا کی مارکیٹ میں نئی چیزیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔اور اس دنیاوی حقیقت سے امیر شخص ہمیشہ واقف رہتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اسے یہ مسئلہ رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی نئی چیز مارکیٹ میں وارد ہو اسے پرانی چیز کباڑ خانے میں پھینک کر یا اونے پونے میں بیچ کر نئی چیز خرید لینی چاہئیں۔

امیر شخص برابر درجے کا خوش نصیب اور برابر درجے کا بد نصیب ہوتا ہے: اسے کھانے، پینے پہننے وغیرہ کے لئے تو خالص اور بہترین چیزیں مل جاتی ہیں لیکن خالص جذبات نہیں ملتے۔وہ مادی طور پر خوش حال لیکن دلی طور پر بد حال ہوتا ہے۔یعنی ایک مسئلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا مسئلہ جنم لے لیتا ہے۔خلوص خریدی جانے والی جنس نہیں ہے اور یہ بات امیر شخص بہت اچھی طرح جانتا یہ کیونکہ وہ خریدنے کی کوشش کر چکا ہوتا ہے۔جذبات کی تسکین کے بغیرزندگی کوئی زندگی ہے۔لیکن امیر شخص کو اکثرو بیشتر ایسی ہی زندگی جینا پڑتی ہے۔

امیر شخص کی جسمانی حالت بچپن ہی سے کمزور رہ جاتی ہے کیونکہ وہ جسمانی محنت، مشقت کا عادی نہیں بن پاتا۔وہ دھوپ چھاؤں میں کم ہی پھرتا ہے اور سورج کی روشی نے ملنے والی وٹامن ڈی سے محروم رہتے رہتے اس کی ہڈی مضبوط نہیں ہو پاتی۔وہ اکثر جسمانی کمزوری کی شکائت بھی کرتا ہے لیکن اسے دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔وہ جسمانی صحت سے اتنا کبھی بھی لطف اندوز نہیں ہو پاتا جتنا کہ ایک غریب شخص ہو تا ہے۔ دھوپ میں کام کرتا ہوا صحت مند مزدور، اے سی کی ٹھنڈک میں بیٹھے مالک سے جسمانی طور پر زیادہ لطف پاتا ہے۔امیر گورا اور نازک ہو کر کالے مگر مضبوط غریب سے جسمانی طور پر خوش حال نہیں ہوتا۔یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

چاہے کوئی مانے یا نہ مانے نظر لگنا ایک حقیقت ہے۔ جانتا وہ ہے جسے لگتی ہے یا جس کی لگتی ہے۔امیر شخص لوگوں کی نظر میں اکثر رہتا ہے اس لئے اسے اکثر نظر لگتی ہے۔غریب کو کوئی دیکھتا ہی نہیں اسے نظر کس کی لگنی ہے۔امیر کو اکثر غریبوں کی نظر لگتی ہے کیونکہ وہی اسے نظربھر کر دیکھتے ہیں یا دیکھتے ہی رہتے ہیں۔اس نظر کے لگنے کے نتیجے میں وہ یا تو علیل ہو جاتا ہے، یا کاروبار میں گراوٹ آتی چلی جاتی ہے، یا اغوا ہو جاتا ہے، یا ڈکیتی کا شکار ہو جاتا ہے،یا لین دین میں دھوکہ ہو جاتا ہے۔الغرض کچھ نہ کچھ ہو ضرور جاتا ہے۔

الغرض امیر شخص ان گنت مسائل کا شکار رہتا ہے لیکن وہ سرِ عام اس کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ ہر بات کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ویسے اندر کی بات ہے کہ امیر تو ہم بھی ہونا چاہتے ہیں۔ اور امیروں کے مسائل اس لئے عوام الناس کے سامنے رکھے ہیں تا کہ زیادہ لوگ امیر ہونے کی خواہش اور کوشش نہ کریں تا کہ ہمیں ا میر ہونے میں زیادہ کمپیٹیشن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔امیر تو ہر کوئی ہونا چاہتا ہے لہٰذا آپ بھی چاہتے ہوں گے ۔یہ آپ کا حق ہے۔ ہم نے تو اپنا فریضہ سر انجام دے دیا ،اس کا انجام چاہے جو مرضی ہو۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 285233 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More