وطن عزیز پاکستان میں مشکل ترین
حالات،ایک طرف دشمنان پاکستان کے خلاف ضرب عضب جاری ہے تو دوسری طرف پنجاب
سیلاب کی لپیٹ میں ہے،ہر طرف تباہی ہو رہی ہے،تیسری جانب دو جماعتیں ایک
ماہ سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھی ہیں،اور 245کی وجہ سے اسلام
آباد ریڈ زون میں سرکاری پانچ عمارتوں کی حفاظت پاک فوج کے ذمہ ہے،افواج
پاکستان کے بہادر نوجوان جن پر پوری قوم کو فخر اور ناز ہے ،جب بھی وطن
عزیز پر کوئی مشکل وقت آیا تو انہوں نے قربانیاں دیں ،شہادتیں پیش
کیں،دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاکستان کا مستقبل محفوظ کیا ۔کراچی
ایئر پورٹ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جو اﷲ
تعالیٰ کے فضل سے کامیابی کی جانب گامزن ہے،افواج پاکستان دہشت گردوں کے
خاتمے کے لئے پر عزم ہیں ،اسی آپریشن کے دوران ہی تحریک انصاف اور عوام
تحریک نے چودہ اگست کو لانگ مارچ کی کال دی اور شدید ترین رکاوٹوں کے
باوجود اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس جا پہنچے ،ایک ماہ گزر گیا حکومت استعفیٰ
کا مطالبہ نہیں مان رہی اور کپتان و علامہ اس بات پر بضد ہیں کہ ہم نے
استعفیٰ لینا ہے اس سے کم پر بات ختم نہیں ہو گی،ان دھرنوں میں جب وزیراعظم
ہاؤ س کی جانب جانے کی کال دی گئی تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے
عمران خان اور طاہرالقادری سے ملاقات کی ،اس ملاقات کے بعد دھرنے والے جہاں
تھے وہیں رک گئے،خان صاحب واپس ڈی چوک پہنچ گئے ۔اس دوران افواج پاکستان کے
حوالہ سے شدید پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ان دھرنوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے
حالانکہ آرمی چیف راحیل شریف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ہم جمہوریت کو مضبوط
کریں گے ۔اس کے باوجود مختلف افواہیں پھیلائی گئیں ،افواج پاکستان کے حوالہ
سے مفروضوں پر مبنی خبریں ،تجزیئے نشر کئے گئے جس پر پاک فوج کے ترجمان آئی
ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کو میدان میں آنا
پڑا اور انہوں نے ان ساری افواہوں ،مفروضوں کی سختی سے تردید کی اور ضرب
عضب کے حوالہ سے بھی مکمل بریفنگ دی ۔میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ
موجودہ سیاسی بحران سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ فوج کے اندر اختلافات کی
خبریں جھوٹی ہیں، فوج آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کمان میں متحد ہے۔ ملک
کے مفاد میں فوج نے سیاسی بحران کے دوران سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔
اس بحران کے حوالہ سے کوئی سکرپٹ کارفرما ہونے یا سکرپٹ رائٹر والی باتوں
کا سن کر افسوس ہوا ہے۔ فوج متعدد مواقع پر جمہوریت اور آئیں کیلئے اپنی
حمایت کا اعادہ کر چکی ہے۔ فوج میں اختلافات کی خبروں کے حوالے سے انہوں نے
کہا کہ فوج کا اپنا سسٹم ہے، اس میں تمام لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے
ہیں تاہم فیصلہ آرمی چیف کا ہی ہوتا ہے۔ دھرنے سیاسی مسئلہ ہے اور اسے
سیاسی جماعتوں کو ہی حل کرنا چاہئے۔ ملک میں کچھ ہوتا ہے تو فوج کو عوام ہی
کی طرح تشویش ہوتی ہے، فوج کہتی ہے کہ سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر طے کیا
جائے، ہمیں اس سے باہر رکھا جائے، فوج آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے
تسلسل پر یقین رکھتی ہے فوج میں پروموشن، ٹرانسفرز اور ریٹائرمنٹ معمول کا
عمل ہے۔ انہوں نے پانچ کور کمانڈروں کی جانب سے الگ رائے دینے کی خبر کو
مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی رائے الگ ہو سکتی ہے لیکن جب ’’وہ‘‘ فیصلہ
کر لیتے ہیں تو پوری فوج اس کے مطابق چلتی ہے۔ ریڈ زون میں فوج کو صرف پانچ
عمارتوں کی حفاظت کی ذمے داری دی گئی تھی، ان پانچ عمارتوں میں پی ٹی وی
شامل نہیں تھا۔ ہر بات کی وضاحت ضروری ہے۔ فوج کو اگر کچھ کہنا ہوتا ہے تو
وہ اپنے ترجمان کے ذریعے کہہ دیتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے
حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے، آخری دہشت گرد کے
خاتمے تک یہ آپریشن جاری رہے گا۔ اگر شہری علاقوں میں بھی جانا پڑا تو
جائیں گے۔ حافظ گل بہادر کے بارے میں علم نہیں ہے۔آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ
ہم آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ان
کیلئے دروازے کھلے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ افغانستان کے
ساتھ ہمیشہ فضل اﷲ کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے جب تک وہ مارا نہیں جاتا یا
پاکستان کے حوالے نہیں کر دیا جاتا یہ معاملہ اٹھایا جاتا رہے گا۔آئی ڈی
پیز کا بندوبست فوج کی ذمہ داری نہیں لیکن فوج یہ کام بھی کر رہی ہے۔ قریباً
2200 سے زائد انٹیلی جنس آپریشن کئے جا چکے ہیں جن میں 45 خطرناک دہشت گرد
مارے جا چکے ہیں، تقریباً 134 کے قریب دہشت گرد گرفتار ہو چکے ہیں۔ اب تک
1000 دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ ملالہ یوسف زئی اور اس کی ساتھی بچیوں ،
کائنات اور شازیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے پورے گروہ کو شناخت اور گرفتار
کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم ریذیڈنسی زیارت پر حملہ کرنے والے تمام
لوگ پکڑے گئے ہیں۔ کوئٹہ ائر پورٹ اور خالد ایوی ایشن بیس کے تمام دہشت گرد
مارے جا چکے ہیں۔ رائے ونڈ، لاہور اور نیول ڈاک یارڈ، کراچی پر حملے میں
ملوث دہشت گرد بھی گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ ملالہ اور دیگر دو بچیوں ، شازیہ
اور کائنات، پر حملہ کرنے والا گروہ شوریٰ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس
میں کل دس دہشت گرد تھے۔ اس کا تعلق کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے تھا۔ شوریٰ
نامی اس گروہ کا سرغنہ ظفر اقبال تھا جس کی سوات میں فرنیچر کی دکان تھی۔
شوریٰ سے تعلق رکھنے والے دس کے دس دہشت گرد مالاکنڈ کے مقامی ہیں۔ تحقیقات
کے دوران ان دہشت گردوں نے انکشاف کیا کہ اس حملے کا منصوبہ ملا فضل اﷲ نے
بنایا جب کہ اس پر عمل درآمد، شوریٰ گروپ کی ذمہ داری تھی۔ دوران تفتیش، اس
گروہ نے نومبر 2012 میں سوات کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چوکیدار
عبدالرشید کو قتل کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ مزید یہ انکشاف بھی ہوا کہ اگر
یہ گروہ پکڑا نہ جاتا تو انہیں ملا فضل اﷲ کی فراہم کردہ لسٹ کے مطابق مزید
بائیس اہم افراد کو نشانہ بنانا تھا۔ تمام ملزموں کو انسداد دہشت گردی کی
عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں ان پہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ
چلایا جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں میر علی اور دتہ خیل سمیت کئی علاقے
دہشت گردوں سے کلیئر ہوچکے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا کمانڈ
اینڈ کنٹرول سسٹم توڑ دیا گیا ہے۔ ملک و معیشت کو یرغمال بنانے والے سیاسی
بحران میں فوج کی غیر جانبداری اور جمہوریت سے کمٹمنٹ قابل تعریف ہے۔موجودہ
فوجی قیادت سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف ہے اور اسلام آباد میں
مظاہرین کی بلاواسطہ یا بلواسطہ مدد نہیں کر رہی مگر بعض سیاسی یتیم اپنے
مفادات کے لئے اسے بدنام کر رہے ہیں۔قابل اعتراض تقریروں، بیانات اور
تجزیوں نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کو ایک بار پھر وضاحت پر مجبور کر
دیا جو ہماری بدقسمتی ہے۔ انکی وضاحت سے جہاں افواہوں نے دم توڑا وہیں اپنے
لئے گڑھا کھودنے والے سیاستدانوں کی آبرومندانہ واپسی کا راستہ بھی بند ہو
گیا۔ مداخلت کی دعوت کے باوجود آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چند دن پہلے
بھی جمہوریت کو ترقی کا واحد راستہ قرار دیتے ہوئے اس سے اپنی وابستگی ظاہر
کی مگر سیاستدان اپنے مفادات کے لئے فوج کو بحران میں گھسیٹ کر اپنے
کارکنوں اور پوری قوم کو گمراہ کرتے رہے جس نے عدم استحکام کو ہوا دی۔فوج
ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ایک ذمہ دار ادارہ
ہے جو سیاسی بحران میں حصہ دار ہے نہ فریق، یہ قومی ادارہ اس وقت ملکی بقاء
کی جنگ اور سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہے۔ایسے موقع پراس کی توجہ
بانٹنے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ غیر ضروری طاقت
استعمال کئے بغیر مظاہرین کو موجودہ پوزیشن سے دھکیل دیا جائے اور قانون
ہاتھ میں لینے والے تمام عناصر کو گرفتار کر کے کاروائی کی جائے۔بحران
سیاستدانوں نے پیدا کیا وہی اسے حل بھی کریں۔ |