یہ دل اور دماغ کی جنگ ہے

ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہو گیا ان کے ایک چار سال کا بیٹا تھا انھوں نے دوسری شادی کر لی کچھ دنوں بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ بیٹا تمھاری پہلے والی امی اچھی تھیں یا یہ والی امی اچھی ہیں ۔بچے نے کچھ سوچ کر جواب دیا پہلے والی امی جھوٹی تھیں اور یہ والی امی سچی ہیں باپ حیران ہوا پوچھا یہ کیسے بچے نے کہا پہلے والی امی کے دور میں میں جب کوئی شرارت کرتا تھا تو وہ کہتی تھیں آج تمہیں کھانا نہیں ملے گا ایسے ہی بھوکے سونا پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے خاموشی سے کھانا کھلا دیتی تھیں بلکہ کبھی میں سو بھی جاتا تھا تو مجھے اٹھا کر کھانا کھلاتی تھیں یہ والی امی جب کہتیں ہیں کہ آج تمہیں کھانا نہیں ملے گا تو نہیں ملتا اور میں ایسے ہی سو جاتا ہوں اس لیے یہ والی امی سچی ہیں اور پہلے والی جھوٹی تھیں ۔اس وقت اسلام آباد میں بیس کروڑ عوام کی دو مائیں آمنے سامنے ہیں ایک طرف بیس کروڑ کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے اور دوسری طرف اس بیس کروڑ عوام کے دکھ درد کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی دھرنیاں ہیں ۔اس وقت صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ہماری پارلیمنٹ ایک سچی ماں کا رول ادا کر رہی ہے کہ وہ قوم کو کچھ دیے بغیر سلا دینا چاہتی ہے۔دھرنیوں کی صورتحال میں ہم علامہ طاہر القادری کے دھرنے پر کچھ نہیں کہنا چاہتے ان کے مطالبات روحانیت، سیاست ، علمیت اور قابلیت کا معیار اتنا بلند ہے کہ ہم میں سے کسی کو نظر ہی نہیں آتا۔بات تو دراصل عمران خان کی ہے جن کے مطالبات سیاسی ہیں ویسے تو ان پر بہت تنقیدیں ہو رہی ہیں کہ انھوں نے ضد اختیار کرلی ہے وہ کنٹینر میں نہیں بلکہ اپنی انا کے خول میں بند ہو گئے ہیں لیکن کل اتفاقاَکئی دنوں بعد ان کی تقریر سننے کا موقع ملا تو پھر ایسا لگا کہ یہی دل کی آواز ہے وہ بلوچستان کے جے یو آئی کے سینیٹر کی کامیابی کی داستان سنا رہے تھے ،ویسے تو اب دھرنے میں شرکاء کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے لیکن اب مسئلہ تعداد سے زیادہ مستقبل قریب میں ہونے والی تبدیلی کا ہے آج تو جاوید ہاشمی نے بھی کہہ دیا ہے کہ نوازشریف استعفا تو نہیں دیں گے لیکن ان کو جانا ہو گا دوسری طرف اگر آپ پارلیمنٹ کی تقاریر سنیں تو وہ بھی دماغ کو اپیل کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور اگر دھرنوں کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ یہی عوام کے دل کی آواز ہے عمران خان کے دھرنے میں شرکاء کبھی کم ہوتے ہیں تو کبھی زیادہ لیکن عمران کا دعویٰ ہے کہ یہ بیس کروڑ عوام کی صدائیں ہیں ۔دیکھئے ایک انسان کے جسم کا وزن ایک من کا ہو سکتا ہے لیکن اس کے دل کا وزن مشکل سے ایک پاؤ کا ہو گا لیکن یہی دل پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے اگر دل بند ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن اگر دماغ بند ہو جائے تو کچھ دیر کے لیے دماغ ماؤف ہو جاتا ہے اس سے آگے بات بڑھے تو وہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے لیکن مرتا نہیں ہے ۔پارلیمنٹ اگر دماغ کا رول ادا کررہی ہے تو اسے دل کی بات کو بھی سمجھنا ہو گا ہمارا اصل مسئلہ دیانت دارانہ انتخاب کا ہے جو آج تک بدقسمتی سے نہیں ہو سکے ۔اگر نواز شریف صاحب انتخابات میں اصلاحات کا اعلان کر کے مڈ ٹرم انتخابات کی تاریخ دے دیں تو اس سے حالات میں کچھ بہتری آسکتی ہے ۔طویل ترین دھرنے ویسے تو اپنی افادیت کھو رہے ہیں لیکن خود ان کی طوالت ان کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہے اور اس نے حکمرانوں پر پریشر ڈالا ہوا ہے یہ الگ بات ہے کہ آج کل وزیر اعظم سمیت تمام وزراء نے اپنے آپ کو سیلاب زدگان کے ریلیف کے کاموں میں مصروف کر لیا ہے تا کہ ان کے ذہنوں کو بھی دھرنوں کے دباؤ سے کچھ ریلیف مل جائے آج کل میڈیا بھی تقسیم ہو چکا ہے اگر عمران خان جنگ اور جیو کے خلاف یہ بات کرتے ہیں اور یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے پچھلے انتخابات میں نواز شریف کا ساتھ دیا تو دوسری طرف اخبار جنگ بھی عمران خان کے خلاف ڈھونڈ ڈھونڈ کے خبریں لا رہا ہے اور اپنے تجزیوں اور تبصروں میں عمران خان کے خلاف باتین کی جاتی ہیں ۔آج کل اخبارات میں خبریں کم اور خواہشات کی عکاسی زیادہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔بہر حال دھرنے والوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ اپنے استعفے والے دباؤ کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ کی انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں کوئی تحریری معاہدہ کرلیں تا کہ اس میں اگر کوئی آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے تو اس پر بھی آسانی سے عمل ہو جائے قوم کو بھی کوئی جزوی خوشخبری مل جائے گی۔جہاں تک 2013کے انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ہے اس پر عدلیہ کے جیوڈیشل کونسل کے ذریعے فیصلہ حاصل کیا جائے اگر اس الیکشن میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر وزیر اعظم کو استعفا دے دینا چاہیے اور اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کا اعلان کر دیا جائے بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن موجودہ پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی تو راستہ اختیار کرن پڑے گا۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.