دین و دنیا
خدا کے علم سے مغرور مت ہو جا (کیونکہ)خدا دیر سے پکڑتا ہے تو اسکی گرفت
بہت سخت ہوتی ہے-
میں بڑی سادگی کی زندگی گزارنے پر ربِ کائنات کا شکر بجا لاتا ہوں، جس نے
عادتوں کو صبر میں ڈھالنے کا گر بھی سکھا دیا۔ آؤ آپکے اور میرے سامنے ہونے
والے چند حقائق پر چسکا خوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ویسے تو موسم نہیں
کیونکہ پانی ہی پانی ہر طرف اورحضرتِ انسان بھی اپنی بے بسی پر پانی پانی
ہو رہا ہے یہی تو وقت ہے جب ہمیں سبق دینے اور سیکھنے کیطرف نئی نسل کولانا
ہے نہ کہ بے خوف ہونا وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے آنے والے عذابوں سے جسمیں زلزلوں
اور بارشوں کاذکر موجود ہے ۔ یار و! کمال ہی ہو گیا، جب چھوٹی سی چسکا خور
بچی جسکو ہم نے خود ہی چسکے خور بنایا۔ اگلے وقتوں میں(صدی پہلے نہیں ابھی
میں زندہ ہوں) سکول جاتے ہوئے ایک آنہ دیا جاتا اور دو پیسے واپس لانے پر
بڑی شیخی بگاڑتے تھے امی جان کے سامنے اور وہ بھی شام کو والد صاحب کی
آمدپراپنے لاڈلے کی بچت کردہ دو پیسے کو اتنا لمبا قصہ بنا کے سنایا جاتا
کہ ابا جی کو کہنا پڑتا میرے سلیپر تو دیکھو کدھر ہیں اور کچھ کھانا بھی
ملیگا یا نہیں ؟۔ رات کا کھانا پینا ختم کر کے سونے سے قبل دیگر بہن
بھائیوں کو بھی امی جان بڑی خوش دلی سے لاڈلے کی وہی دو پیسے کی بچت بڑی ہی
نئی کہانی کے روپ میں سنا رہی ہوتیں تو بھائی جان( اﷲ انکی مغفرت فرماوئے )کو
تنگی آتی بس کرو امی تیر مار کے آج آ گیا لاڈلا جیسا کہ بہن بھائیوں میں
ہوتا آ رہا ہے۔ اب کیا تھا ہم کو تو وہ لاڈلے کا خطاب اور دو پیسے کی بچت
کا چسکا سا پڑ گیا ،ہر روز اسی طرح نہ سہی مگر جب آنہ دو آنے ملتے تو بچت
کا چسکا غالب آجاتا۔ مگر آج یہ پوتی کا چسکا دیکھ کر بڑا ہی غصہ آتا ہے
لیکن اپنے ہی بلڈ پریشر کو بڑھا دیا جاتا ہے،جب وہ کہتی ہے آنکل چارلی (چپس
نما چیز)لے دو اور سارا گھر رو رو کر پڑوسنوں کو بھی مداخلت کی دعوت دی
ڈالتی ہے پھر کیا وہ بھی صفِ والدین سے نکل کر بچی کی ہی طرفداری کر ہوتی
ہیں۔اپنے گھر کا احوال بھی یہی بتا رہی ہوتی ہیں دیکھو ناں اسکو کتنے گندے
دانے نکل آئے،پیٹ خراب ہو گیا کچھ کھاتی پیتی نہیں ہر ویلے ابو،چاچے،دادا
دادی اور آنے والے مہمانوں کیطرف نظر رکھتی ہے کہ کدھر سے پیسے ملیں تو وہ
گئی محلے کی دکان پر، دوڑ اوے کدھرے ڈنگراں تلے نہ آ جائی۔ اس وقت بلڈ
پریشر بڑھانے کے سوا بچتا ہی کچھ نہیں۔ یارو ! تسی آپے ہی دسو کوئی جھوٹ
بولیا؟ نہ بھئی نہ ۔
یہ بھی اپنی نسل کا عجوبہ چسکا ہے جسے موبائل کہتے ہیں اب دیکھو ساٹھ ستر
سال والا بھی وہی اٹھائے اور دو سال کا بچہ بھی اپنی نانو، دادو سے سارے دن
میں آن رکھ کر خواہ ایک بار ہی کہے نانو یا دادو!قاضی سبحانی صاحب نے کیا
خوب کہا تھا لفظ ہی بگاڑ دِتے نے(ماموں میں دو بار ما ں موں آتا ہے) اس
ایجاد نے بھی نئی نسل کو پڑھنے سے ہٹانے،جھوٹ بولنے اورفضول خرچی کا خو
گربنانے میں کردار ادا کیا۔اور دیگر خرابیوں کاذکر ہی نہیں کرتا چلو یہ تو
میں لکھ ہی عقلمندوں کے لیئے رہا ہوں جو اشاروں سے ہی بات کو پا لیتے ہیں،
دیکھو ناں میڈیا نے کتنی ترقی کر لی ابھی بات آپ نے کہی ہی نہیں تو میڈیا
دکھا رہا ہوتا ہے یہ ہو گیا وہ ہو گیا چلو چنگا ہی ہے اشرافیہ کی راز
داریوں میں عام انسان بھی راز داں بن رہے ہیں۔ہر روز نت نئی حضرتِ انسان کے
لیئے آسانیوں کیساتھ ساتھ دشواریوں کی بھی قوتِ برداشت پیدا کیجارہی ہے۔اے
وی چنگی گل اے اسمبلی وچ ہون والی تقرار ہوؤے یا دھواں دھار چنگھاڑ ہوؤے
اساں تے صرف ٹیلی ویثرن پروگرام دی ریٹنگ بڑھانی اے ویکھی جاؤ تے نالے ہسی
جاؤ گزشتہ تین ہفتوں سے مجھے بھی چسکا لگ گیا سر بھی درد کر رہا ہے مگر
چسکا چسکا ہی ہوتا ہے معلوم ہو گیا ہو گا آپکوخوب چلایا موبائل تے نالے ٹی
وی اور انٹر نیٹ چسکا جو تھا میڈیا کا،اک توں اک ود۔ نہ میرے پیاریو ! اب
وقت آ گیا ہے کہ بحیثت قوم ہنسنے کیساتھ ذرا حاضر دماغی سے بھی کام لینا ہو
گا۔میڈیا کیا دکھا رہا ہے کیمرے کی آنکھ کیا دکھا رہی ہے سب کچھ دکھاؤ مگر
صاحب ایمان بھی بناؤ دنیا کی اندھی تقلید سے قوم کو غفلت میں نہ لے
جاؤ۔بارشیں اور زلزلے انسان کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ ابھی تھوڑا وقت ہے
سنبھل جاؤ اس سے زیادہ بھی اﷲ کی قدرت میں ہے،صرف ہمیں پتہ نہیں کب؟ لیکن
کیوں نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس آذان کی آواز آتی ہے۔آپ یہ بھی سوچ رہے
ہونگے اوپر لکھا گیا صرف بچوں کے لیئے لیکن اے ساریاں گلاں(باتیں) بڑوں کی
ہیں۔سمجھدار ہو گئے آپ بھی!
میں گنہگار تھا۔خطا کار تھا، ہر سزا کا میں صائم سزادار تھا
میری بخشش کا بس یہ بہانا بنا، نعت خوانوں میں شمار آ گیا |