آخری گولی

 تحریر : حامد مشہود
وہ كل پانچ افراد تھے، تین مرد اور دو عورتیں۔ شام كے وقت ساحلِ سمندر كے ایك ویران گوشے میں، پتھروں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان كے دائیں طرف سمندر كی منہ زور لہریں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں اور بائیں طرف ایك اونچی چٹان سر اٹھائے كھڑی تھی، جو كسی پہاڑی كا باقی ماندہ حصہ تھی۔ چند قدم دور چار پانچ گاڑیاں كھڑی تھیں اس گروپ كے چیف كا نام تھا شفقت اگرچہ شفقت نام كی كوئی چیز اس كے چہرے پر دكھائی نہ دیتی تھی۔ وہ ایك ہٹا كٹا شخص تھا، چٹان كی طرح مضبوط اور پتھر كی طرح پتھریلا۔ چیف نے اچانك پہلو بدلا اور بولا :
"خواتین و حضرات آپ سب ملك كی خفیہ تنظیم كے اركان ہیں۔ آپ كی مناسب كاركردگی كو مدِنظر ركھ كر آپ كو ایك خفیہ مشن سونپا گیا۔ آپ میری ہدایات كے مطابق اپنا كام احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے مگر پھر ہم میں سے كسی نے ایك "كارنامہ" بھی سر انجام دے دیا، خفیہ سی ڈی كے چند منتخب حصے دشمن كے ہاتھوں فروخت كردیے گئے۔"

چیف پھر اچانك خاموش ہو گیا وہ گرم نظروں سے ایك ایك كا چہرہ پڑھ رہا تھا، ہر ایك كو بری طرح گھور رہا تھا، بات ہی ایسی تھی، ملك سے غداری اور تنظیم سے بے وفائی۔ چیف نے سرد ہوا سے بچائو كے لیے عمدہ اونی مفلر لے ركھا تھا۔ اس نے اپنا چرمی تھیلا كھول كراس میں سے ایك سیاہ بڑا پستول نكالا۔اس ماحول میں اس كی كرخت آواز پھرگونجی:
"غداری كی سزا موت ہوتی ہے، آپ سب جانتے ہیں كہ خفیہ ادارے غدار كو موت كے گھاٹ اتار كر دوسرے برے افراد كے لیے عبرت كا نمونہ پیش كرتے ہیں۔ كیا كسی كو اس بات پر اعتراض تو نہیں كہ غدار كومارا نہ جائے؟"
"نو چیف"چند ملی جلی آوازوں نے سر جھكا دیا۔
"گڈ تو گویا آپ سب اس تنظیم كے اچھے كاركن ہیں۔" چیف نے اپنی جیب میں سے تین گولیاں نكال كر پستول كو كھولا اور اس كے چیمبر میں وہ گولیاں ڈال دیں ۔ پھر پستول كی نال ہوا میں بلند كی اور ٹریگر دبا دیا۔چیف نے دو گولیاں فضا میں چلا كر ضائع كر دیں۔ اب آخری گولی باقی تھی۔
"غدار كی قسمت كا فیصلہ اب یہ آخری گولی كرے گی۔" چیف نے زبان كھولی تو سب كے چہروں پر ایك رنگ آ كر گزرگیا۔ غدار كی نامزدگی كے بغیر ہر ایك شخص اپنے آپ كو مجرم اور غدار سمجھ رہا تھا كہ كہیں غداری كا اس پركوئی الزام تو نہیں لگ گیا۔
چیف نے پستول دوبارہ كھول كر اس كا چیمبر گھما دیا اور پھرا چانك پستول بند كر دیا۔ اس نے سب كو ترچھی نگاہ سے دیكھ كر كہا۔ "معزز خواتین و حضرات آپ سب شریف، ایمان دار اور پارسا افراد ہیں۔ آپ ملك كی اس خفیہ تنظیم كے ساتھ بھی مخلص ہیں۔ میں كسی بھی فرد پر غداری كا الزام لگا كر اس پر كیچڑ اچھالنا نہیں چاہتا۔ كیوں كہ یہ بات بہت بڑا "گناہ" ہے كہ كسی پر بہتان باندھا جائے، لہٰذا میں اس آخری گولی كا ہی فیصلہ تسلیم كروں گا دیكھئے، یہ گولی كیا فیصلہ كرتی ہے۔ میں اس عمل كا آغاز خود سے كرتا ہوں۔ میری آپ سب كے لیے دلی دعا ہے كہ آخری گولی صرف غدار كا ہی كام تمام كرے۔ مجھے اس طریقے پر بھروسا ہے۔ میں چند سال قبل بھی آخری گولی كی مدد سے غدار كو سزا دے چكا ہوں بلكہ قسمت غدار كو خود ہی ڈھونڈ لیتی ہے۔"
چیف نے پستول كی نالی اپنی كنپٹی پر ركھی، آنكھیں بند كیں اور پستول كی لبلبی دبا دی
"كلك۔"
اس نے آنكھیں كھول كر خدا كا شكر ادا كیا اور پستول شاد صاحب كے حوالے كیا۔ شاد صاحب نے گہرا سانس لیا اور پستول كی نالی اپنے سر پر ركھ كر پستول چلا دیا
" كلك۔"
شاد صاحب جی كر مراٹھے تھے۔ انہوں نے تھكی ہوئی مسكراہٹ كے ساتھ پستول عبدالقیوم صاحب كے حوالے كر دیا۔ عبدالقیوم صاحب چار بچوں كے باپ تھے انہوں نے زیرِ لب خدا سے دعا كی۔ ساری دنیا ان كے سامنے پل بھر میں سمٹ آئی۔ وہ غدار تو نہیں تھے مگر اس آخری گولی كا بھلا كیا بھروسا۔ انہوں نے خالقِ كائنات كو پكار كر پستول كی نالی اپنے ماتھے پر ركھی اور اس كی لبلبی دبا دی۔
" كلك۔"
وہ بچ گئے تھے۔ انہوں نے دل ہی دل میں شكرانے كے نفل ادا كرنے كا تہیہ كر لیا۔
پستول اب شمسہ كے ہاتھ میں تھا۔ شمسہ سخت گیر عورت دكھائی پڑتی تھی۔ عمر چالیس سال، تین بیٹوں كی ماں اور ایك بوڑھی بیمار ماں كی واحد خبر گیر۔ اس نے پستول تھام كر قدرے اكھڑے ہوئے لہجے میں كہا: "چیف میں غدار نہیں ہوں ، آپ میرا ریكارڈ چیك كر لیں اور كوئی ثبوت مل جائے تو مجھے الٹا لٹكا كر میری چمڑی اتار دیں، پھر مجھے بھوكے كتوں كے آگے ڈال دیں۔"
"نہیں، آپ تو بہت اچھی ہیں۔" چیف نے طنز كیا۔
"تو پھر؟"
"پھر فیصلہ آخری گولی كا ہو گا، جو اس پستول كے چیمبر میں گھوم رہی ہے۔"
"چیف میرے تین چھوٹے چھوٹے بیٹے ہیں جو رات كے كھانے پر میرا انتظار كر رہے ہوں گے اور میری بوڑھی ماں میرا حد درجہ شریف خاوند۔"
"اوہ آپ مجھے رلانے والی باتیں نہ كریں۔" چیف كی آواز بھی رندھ گئی۔ وہ اگرچہ ادكاری كر رہا تھا مگر كامیاب اداكاری كر رہا تھا۔
چیف كے بے لچك رویے اور بے لحاظ نظروں نے شمسہ كو بتا دیا كہ اس كا فیصلہ اٹل ہے۔ تب اس نے لرزتے ہاتھ سے پستول بلند لیا۔ پستول كی نالی اپنے سر پر ركھ لی اور كلمہ توحید كا ورد كرتے ہوئے لبلبی دبا دی۔
آواز صرف "كلك" كی ابھری
چیف نے اسے نئی زندگی كی مبارك باد دی، جو اس نے شكریہ كے ساتھ قبول كی۔
پستول اب مس كرن كے پاس تھا۔ كرن تیس سالہ لڑكی تھی۔ اس كے چہرے پر حد درجہ معصومیت كا غلبہ تھا۔ چیف نے اسے نظر بھر كر دیكھا۔ آخری گولی اس پستول میں جہاں كہیں بھی تھی، گھوم گھام كر پستول كے نالی كے عین سامنے یا بالكل قریب آچكی تھی۔ پستول چار بار چلایا جا چكا تھا اور اب خطرہ نوے فیصد سے بھی بڑھ چكا تھا، آر یا پار والا معاملہ تھا۔
"گولی چلائیں مس كرن" چیف نے اسے حكم دیا۔
تب پستول كرن كی گود میں پڑا تھا۔ اس نے شش و پنج میں مبتلا ہو كر پستول تھام لیا۔ اس نے ذرا ٹھہر كر كہا: "اندھی گولی كا فیصلہ اندھا ہوگا، میں نے كیا كیا ہے چیف كہ مجھے بھری جوانی میں موت كی گھاٹی میں دھكیلا جا رہا ہے۔"
چیف نے سخت لہجہ اختیار كیا: "اس پستول میں چھ گولیوں كی جگہ ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں كہ وہ آخری گولی اب نالی كے سامنے پہنچ چكی ہو۔ معاملہ اگرچہ بہت خطرناك تھا مگر میں وعدہ كرتا ہوں كہ آپ كے بعد میں پستول كو اپنی كنپٹی پر ركھ كر چلائوں گا اگر ایسا وقت یا تو"چیف نے ان سب كو دیكھ كر كہا۔ "میں خود كو سب سے پہلے سزاوار سمجھتا ہوں، اس لیے اس عمل كا آغاز میں نے خود سے كیا تھا اور انجام بھی وقت پڑنے پر خود ہی پر كروں گا مس كرن بے دھڑك گولی چلائیں اگر یہ غدارِ وطن نہ ہوئیں توان كی زندگی خواب نہیں ہو گی۔"
خوف زدہ كرن خاموش بیٹھی رہی۔
"مس كرن گولی چلائیں، اپنے چیف كا حكم ٹالنا بھی جرم ہے۔"
پھر كرن نے اچانك ہاتھ سیدھا كیا اور گولی چلا دی۔ فضا دھماكے سے گونج اٹھی تھی۔ چٹان پر بیٹھے ہوئے آبی پرندے اور سمندری بگلے اڑ گئے تھے۔ چیف چیخ كر پتھر پر سے نیچے گرا تھا اور اس نے اپنا سینہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام ركھا تھا۔ وہ كراہتے ہوئے ریت پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ۔ كرن ماہر نشانہ انداز تھی وہ كئی بار نشانہ اندازی كے مقابلوں میں انعام حاصل كر چكی تھی۔ اس نے اپنے فن كا مظاہرہ چیف كے عین دل پر كیا تھا۔ چیف كا حكم نہیں ٹالا تھا۔گولی تو چلائی تھی مگر اپنے سر پر نہیں، چیف كے سینے پر كرن نے وہ پستول پھینك كر اپنے لباس میں سے ایك مائوزر نكال كر باقی ماندہ افراد پر تان لیا تھا تاكہ كوئی اسے روك نہ سكے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ رہی تھی تاكہ چند قدم دور جا كر اپنی گاڑی میں سوار ہوسكے۔ اس نے گھوم كر اپنی گاڑی كی طرف دیكھا اور یہی لمحہ قیامت بن گیا اچانك اسے كسی نے فضا میں گیند كی طرح اچھال دیا۔ وہ منہ كے بل زمین پر گری تو مائوزر بھی اس كے ہاتھ سے نكل گیا ۔ اس كو شاد صاحب نے اپنے شكنجے میں قابو كر لیا۔ اس پر حیرت كا پہاڑ ٹوٹ پڑا كہ خاك میں غلطاں چیف پتھر پر پائوں دھرے كھڑا تھا اور اس كے لبوں پر زہریلی مسكراہٹ تھی۔چیف كے ہاتھ میں ایك چھوٹا پستول تھا جو اس نے یقینا اپنے اونی مفلرمیں سے نكالا تھا وہ آخری گولی سے بچ نكلا تھا۔
چیف نے كہا: "مجھے تجھ پر پہلے ہی یقین كی حد تك شك تھا۔ میری خفیہ اطلاع كے مطابق تو نے ہیروں والے زیورات خریدے ہیں اور دنیا كے ایك مہنگے شہر میں بنگلہ بھی۔ كرن بی بی وہ آخری گولی، پٹاخا گولی تھی۔ میں اتنا بے وقوف نہیں تھا كہ غدار تلاش كرنے كے لیے اندھی گولی كی مدد لیتا۔ میں نے جب چیمبر كو گھمایا تو بند كرتے وقت میں نے پستول كا چیمبر اپنے ہاتھ كے انگوٹھے كی مدد سے یوں روكا تھا كہ پٹاخا گولی پانچویں خانے میں تھی۔ میں نے تم لوگوں پر نفسیاتی حربہ استعمال كیا تھا اور یوں غدار لڑكی پكڑی گئی۔"
كرن جب تم مائوزر تھام كر قدم قدم، الٹے پائوں پیچھے ہٹ رہی تھی تو میری طرف تیرا دھیان نہیں تھا اور جب تم نے گاڑی كی طرف پلٹ كر مجھے ایك لمحہ دیا تو میں نے تجھے اٹھا كر فضا میں اچھال دیا، شاید تیرے علم میں نہ ہو كہ میں ایك ماہرِ نفسیات ہوں اور ننجا ماسٹر بھی۔"

بعد ازاں كرن كومزید تفتیش كے لیے تنظیم كے زیر زمین نہاں خانے میں بھیج دیا گیا۔
Aslam Raza Ghouri
About the Author: Aslam Raza Ghouri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.