سیلاب کی تباہ کاریاں....عوام کی معاشی و سماجی مشکلات میں اضافہ
(عابد محمود عزام, karachi)
پنجاب اور سندھ میں تباہی
کی داستانیں رقم کرنے کے بعد سیلابی ریلے کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ سیلابی ریلے
پنجاب اور سندھ میں گھر، دیہات، فصلوں، مال مویشی اور زندگیوں کا خراج لے
کر بحیرہ عرب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ گڈو بیراج میں پانی کا بہاؤ اس وقت
نارمل ہے، جہاں پانی کی آمد ایک لاکھ 95 ہزار 937، جبکہ اخراج ایک لاکھ 73
ہزار 503 کیوسک ہے۔ سکھر بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب ہے، جہاں پانی کی
آمد 2 لاکھ 55 ہزار 660 اور پانی کا اخراج دو لاکھ 3 ہزار 600 کیوسک ریکارڈ
کیا گیا۔ گھوٹکی سمیت کچے کے علاقے میں سیلاب متاثرین اب ایک نئی امید اور
آس کے ساتھ اجڑے آشیانوں کو پھر سے بسانے لوٹ آئے ہیں۔ مظفرگڑھ، ملتان اور
علی پور سمیت جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں بھی سیلابی پانی بتدریج کم
ہو رہا ہے، تاہم متاثرین کی مشکلات ابھی تک برقرار ہیں۔ اکثر متاثرہ علاقوں
میں لوگوں نے زندگی کو پھر سے ٹریک پر لانے کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں،
کوئی اپنی مدد آپ کے تحت سر چھپانے کا ٹھکانہ کر رہا ہے، کو ئی برباد کھیتی
آباد کرنے کی فکر میں ہے، بہت سے ایسے بھی ہیں جو ابھی تک امداد کی راہ تک
رہے ہیں۔ جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد کو کشتیوں میں محفوظ مقامات پر لے جایا
جارہا ہے، کیونکہ سیلابی پانی گھروں میں ٹھہرنے کی وجہ سے مکانوں میں
خطرناک دراڑیں پڑ گئی ہیں، وہ گھر اب رہنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ سیلاب زدہ
افراد اونچے مقامات پر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ شدید حبس
اور رات کو مچھروں کی وجہ سے چھوٹے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے
جارہے ہیں، سیلابی پانی ٹھہرنے کی وجہ سے لوگوں میں جلدی بیماریوں کے ساتھ
ساتھ اور بھی کئی وبائی امراض پھیلتے جارہے ہیں۔ سندھ میں دریا سے ملحقہ
کچے کے علاقوں میں پانی داخل ہونے سے کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مبصرین کے مطابق سیلاب تو ملک میں تباہی کی تاریخ رقم کر کے گزر چلا ہے،
لیکن اس کے ملک پر مرتب ہونے والے مضر اثرات انتہائی بھیانک ہیں۔ گزشتہ
دنوں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سیلاب کو ملکی معیشت کے لیے خطرناک قرار دیا
تھا اور تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں زرعی معیشت کے
لیے زبردست چیلنج بن گئی ہیں، سیاسی بحران کے بعد زرعی پیداوار میں اہمیت
کے حامل علاقوں میں بدترین سیلاب کے منفی اثرات ملک کی مجموعی معاشی
صورتحال اور اسٹاک ایکس چینجز میں درج کمپنیوں کی مالیاتی کارکردگی پر بھی
مرتب ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے اہم زرعی فصلوں کی
پیداوار کے ساتھ پیداواری شعبوں کی سرگرمیاں بھی متاثر ہونے کے خدشات لاحق
ہوگئے ہیں، جبکہ شعبہ خدمات میں ٹرانسپورٹیشن سیکٹر کی کارکردگی بھی متاثر
ہوگی، جس کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور مصنوعات کی
قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے ملک میں افراط زر کی شرح میں اضافہ
ہو سکتا ہے۔ شعبہ خدمات کا ملک کے جی ڈی پی میں 58 فیصد حصہ ہے۔ موجودہ
حالات کے تناظر میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رواں مالی سال اقتصادی شرح
نمو4.5 فیصد کے ابتدائی اندازوں سے کم ہو کر 4.2 فیصد رہنے کا اندیشہ ہے،
جبکہ ملک میں افراط زر کی شرح 7.5 سے 8 فیصد کے درمیان رہ سکتی ہے۔ سیلاب
سے ملک میں تقریباً 15 لاکھ ایکڑ ارازعی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ہیں۔
سیلاب کے باعث پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع میں کاشت کی جانے والی نقد
آور فصلوں یعنی چاول، کپاس اور گنے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاحال سیلاب سے
ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، لیکن کسانوں کی ایک نمائندہ
تنظیم ایگری فورم پاکستان کے سربراہ ابراہیم مغل کے مطابق لاکھوں ایکڑ پر
کھڑی گنے، چاول اور کپاس کی فصلوں کے علاوہ سبزیوں اور چارے کے کھیت بھی
سیلابی ریلے کی زد میں آئے، جب کہ ہزاروں مویشی بھی اس کا شکار ہوئے۔ چونکہ
کپاس سے تیار کردہ مصنوعات اور چاول بڑے پیمانے پر برآمد بھی کیے جاتے ہیں،
لہٰذا سیلاب سے ان فصلوں کو پہنچنے والے نقصان سے پاکستان کو تجارتی خسارے
کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ساڑھے 16 ارب ڈالر کی کپاس اور اس کی
مصنوعات کی برآمدات ہوتی ہیں، لہٰذا بڑھنے کی بجائے ان کے کم ہونے کا
اندیشہ ہے، جبکہ ہمارا چاول دو ارب ڈالر کا برآمد ہوتا ہے، اس دفعہ 10 لاکھ
ٹن چاول بھی نہیں ملے گا اور 10 سے 15 ہزار مویشیوں کا بھی نقصان ہوا ہے،
تیسری بڑی برآمدات چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی ہوتی ہیں اور وہاں اس قدر
پریشانی ہے کہ وہ برآمدات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ فصلوں کی تباہی سے زرعی
شعبے کو 260 ارب روپے تک کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ کاشتکار تنظیموں کے
اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے کپاس، چاول، گنا، سبزیوں، پھلوں
اور چارے کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔
ذرائع کے مطابق ملک میں سیلاب سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، جس
کے باعث مہنگائی میں 100 فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ یہ ہی صورتحال برقرار رہی
تو تمام اشیاءمڈل کلاس لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوجائیںگی۔ ملک میں تباہ
کن سیلاب نے تمام زرعی فصلوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، جس سے زرعی شعبہ
کی گروتھ میں45 فیصد تک کمی پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم صوبوں کی جانب سے
نقصانات کے حتمی تخمینہ جات سامنے آنے کے بعد زرعی ترقی کے اہداف ریوائز
کیے جائیں گے۔ سیلاب کے باعث زرعی فصلوں کو نقصان پہنچنے سے سبزی اور پھلوں
کی کمی کے باعث ان کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچنے کے خدشات ہیں۔ ذرائع کے
مطابق سیلاب کی وجہ سے تباہ کاریوں سے میکرو اکنامک اہداف پر نظر ثانی کے
ساتھ ملک میں مہنگائی میں100 فیصد تک اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں،
حکومت نے جاری مالی سال کے دوران افراط زر کی شرح کا ہدف 7 فیصد مقرر کیا
ہے، تاہم جتنا معیشت کو نقصان ہوچکا ہے، اس کے بعد افراط زر کی شرح 14 فیصد
کی بلند ترین سطح تک پہنچنے کا امکان ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق جاری مالی
سال کے بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں
نے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے اور آئندہ
دنوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاریاں کی جا رہی
ہیں۔ سیلاب کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی متاثر ہونے کے باعث ملک بھر
میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں سیلاب کے نام پر
آڑھتیوں اور دکانداروں نے اندھیر مچاتے ہوئے سبزیاں و پھل دوگنا مہنگے کر
دیے ہیں، انتظامیہ کا پورے ملک میں کوئی وجود نہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے سستے بازار مہنگائی میں عام مارکیٹوں سے آگے نکل گئے۔ سستے بازاروں
میں دکانداروں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ سیلاب کی وجہ سے جہاں ایک جانب
سبزیوں کو نقصان پہنچا، وہیں دوسری جانب راستے بند ہونے کی وجہ سے سپلائی
متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق سیلاب کے باعث 5 ارب روپے کے ٹیکسسز وصول نہیں
کیے جا سکیں گے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد رواں سال کے ریونیو ٹارگٹ میں
تبدیلی پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ آبیانہ اور زرعی انکم ٹیکس کے علاوہ
تمام ٹیکسز مقررہ اہداف کے مطابق وصول کیے جائیں گے۔ بورڈ آف ریونیو کی
جانب سے سیلاب سے قبل رواں سال کا ٹارگٹ 41ارب، 26کروڑ 60لاکھ روپے رکھا
گیا، جس میں تبدیلی کے حوالے سے جلد سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوائی جائے
گی، جس کی منظوری کے بعد نئے اہداف رکھے جائیں گے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے
باعث کسانوں کو آبیانہ، زرعی انکم ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے
سیلاب سے قبل رکھے اہداف کے مطابق ریکوری ناممکن ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق
سیلاب کے باعث تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہوا ہے۔ پنجاب میں سیلاب کی وجہ
سے 21لاکھ سے زاید بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی ہے۔ پنجاب کے11اضلاع
میں1954اسکول اور51سے زاید کالجزمتاثر ہوئے ہیں،ان اسکولز و کالجز کی بحالی
کے لیے سرکار کو 7ارب 80کروڑ روپے سے زاید درکارہوں گے۔ جبکہ محکمہ تعلیم
کے مطابق پنجاب مےں سیلاب کے باعث 824 تعلیمی ادارے بند ہو گئے ہیں۔ بچوں
کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچانے کے لےے تدریسی عمل قریبی اسکولوں مےں
منتقل کر دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کا کہنا ہے کہ طالب
علموں کو تمام تر سہولتیں مہیا کی جائیں گی اور متاثرہ تعلیمی اداروں کی
بحالی کا کام 3 ماہ مےں مکمل کرلیا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق ملک میں
حکومتوں کی جانب سے شدید بارشوں یا سیلاب سے انسانی جانوں اور املاک کے
نقصان کو کم کرنے کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے، بلکہ اس کے برعکس وہ
اربوں روپے ریسکیو اور امداد کے اقدامات پر اسی وقت خرچ کرتی ہیں، جب لوگ
بری طرح قدرتی آفات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اگر حکومت پہلے سے ہی سیلاب کے
نقصانات سے بچنے کے انتظامات کرے تو کافی حد تک سیلاب کے نقصانات سے بچا
جاسکتا ہے۔ جس میں سب سے اہم مزید ڈیمز کی تعمیر ہے، نئے ڈیمز بنا کر پانی
کو محفوظ کر کے سارا سال استعمال کیا جاسکتا ہے۔ |
|