رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
(عابد محمود عزام, karachi)
پیارے ملک کے حالات دیکھ کر کسی
بھی درد دل رکھنے والے پاکستانی کی آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں اور
دل غمزدہ ہوئے بغیر۔ مصائب و آفات یوں پے در پے آپڑتی ہیں، جیسے تسبیح
ٹوٹنے کے بعد دانے ایک کے بعد دوسرا گرے۔ ہم مصائب جھیلنے کے عادی سے ہوگئے
اور آفت و مصیبت کو اس سے بڑی آفت آنے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں۔ اب تو حالت
یہ ہے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ملک میں مصائب و آفات کا ایک تسلسل ہے۔ بدامنی و دہشتگردی کا عفریت تو
مستقل منہ کھولے قوم کے لیے خوف طاری کیے ہوئے ہے، لیکن اس کے ساتھ کبھی
تھر میں سیکڑوں بچے بھوک و پیاس سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور
کبھی وزیرستان سے لاکھوں شہری بے یارو مددگار ملک میں رلتے ہیں، کبھی اسلام
آباد میں دھرنے قوم کے اعصاب شل کیے دیتے ہیں اور کبھی ملک میں آنے والا
سیلاب تباہی و بربادی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔ ان حالات میں ہر نئی
آنے والی مصیبت کی وجہ سے پہلے والی مصیبت ذہن سے محو ہو جاتی ہے، حالانکہ
پہلی مصیبت بھی کوئی چھوٹی نہیں ہوتی۔ اب ملک میں آنے والی نئی آفت سیلاب
کی وجہ سے جس قدر تباہی ہوئی ہے، اس کا اندازا لگانا بھی مشکل ہے۔ سیلاب سے
لگ بھگ18لاکھ ایکڑ رقبہ سیلابی پانی کی زد میں آیا اور تقریباً سوا 2 لاکھ
ایکڑ رقبے پر مشتمل فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 3 سو سے زاید افراد جاںبحق اور
25لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ ہزاروں مکانات ملیامیٹ ہو چکے ہیں۔ سیلاب کے باعث
پنجاب کے 12اضلاع کو پانی نے اپنی لپیٹ میں لیا اور اب یہ سیلاب سندھ میں
تباہی مچانے میں مشغول ہے۔ اس طرح تین ہزار سے زاید دیہات سیلاب کی لپیٹ
میں آچکے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کا آنا تو تکلیف دہ ہے ہی، زیادہ افسوس
ناک و تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا ہے، لیکن اس
کے مضمرات سے بچنے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ 2010 میں سیلاب نے
پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی، سیلاب میں متاثر ہو نے والوں
کی تعداد 2004 کے سونامی، 2005 کے زلزلے اور 2010 کے ہیٹی کے زلزلے سے
زیادہ تھی۔2010 سے 2014 تک تین ہزار جانیں سیلا ب کی نذر ہو چکی ہیں اور
قومی معیشت کو اندازاً 20 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان میں
75فیصد بارشیں جون تا ستمبر میں ہو تی ہیں، ہماری زمین کا 60 فیصد حصہ
سیلاب کی زد میں ہے، ہمارے ہاں ہر سال اگست اور ستمبر کے مہینے میں سیلاب
کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین تباہ ہوجانے، سینکڑوں لوگوں کے جاں بحق ہوجانے،
ہزاروں مویشیوں کے ڈوب جانے اور قوم کی ساری جمع پونجی سیلاب میں بہہ جانے
کے باوجود ہمارے حکمران چند روز کے لیے سیلابی پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں
بنواتے ہیں، لیکن کوئی مستقل حل تلاشنے کی کوشش نہیں کرتے۔
یہ بات حکمرانوں کو بھی معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال گرمیوں میں ہمالیہ کی
برف پگھلتی ہے، مون سون کی وجہ سے پانی میں اضافہ ہوتا ہے، پہاڑوں سے چشموں
کا پانی دریاؤں کی طرف بہنے لگتا ہے، بھارت میں ہونے والی بارشوں کا پانی
بھی ہمارے دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، ہماچل پردیش کی بارشوں اور پہاڑوں
کا پانی بھی پاکستان کی طرف بہتا ہے، ہر سال مون سون کے موسم میں بھارت کے
ڈیم بھر جاتے ہیں تو ان کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں اور وہ پانی کا رخ ہماری
طرف کر دیا جاتا ہے، کشمیر اور مشرقی پنجاب میں ہونے والی بارشوں کا بوجھ
بھی پاکستانی دریاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے، ہم ان سیلابوں،بارشوں اور
پانیوں کے رحم و کرم پر ہیں، ہم ہر سال سینکڑوں جانیں ،ہزاروں مویشی اور
لاکھوں ایکڑ اراضی کھو دیتے ہیں، لیکن ان سب طوفانوں اور مصیبتوں کی پیشگی
اطلاعات کے باوجود کبھی اس کے مطابق پالیسیاں نہیں بنائی گئیں، یوں معلوم
ہوتا ہے کہ حکمران سال کے دس مہینے سیلاب کا انتظار کرتے ہیں اور سیلاب آنے
پر تباہی و بربادی کا رونا روتے ہیں، لیکن کچھ کرتے نہیں، حالانکہ اگر اپنے
تئیں پیشگی انتظامات کر لیے جائیں تو رونا نہ پڑے۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ
آفات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے، اگرچہ اس قدرتی عمل کو ختم کرنا اور اس کا
مقابلہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، لیکن انسانی عقل کو استعمال میں لاتے
ہوئے اس کے نقصانات سے تو بچا جاسکتا ہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔
1910 میں فرانس میں سیلاب آیا، فرانس کی حکومت نے اس کے لیے لائحہ عمل طے
کیا اور سیلاب کے قدرتی راستے میں آنے والی ساری زمینوں کو سیلاب کا حصہ
بنا دیا، اس کے بعد فرانس میں کبھی سیلاب نہیں آیا۔ اسی طرح جاپان چاروں
طرف سے پانیوں میں گھرا ہوا ایک جزیرہ ہے۔ جاپانیوں نے اپنے مسائل کاکھلی
آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ایسا رہن سہن اور ایسی روش اختیار کی کہ اب ان کے
لیے یہ قدرتی آفات ایک معمول کے کام کے طور پرظاہر ہوتی ہیں۔ وہ اپنی حد تک
ان کے نقصانات سے بچاؤ کر لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ یورپ میں بھی بڑے بڑے
سیلاب آتے ہیں، لیکن وہاں نقصانات نہ ہونے کے برابر یا کم از کم ہم سے تو
بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران صرف سیلاب کے دنوں میں ہیلی کاپٹروں میں
دورے کرنے کی بجائے سیلاب سے نمٹنے کے لانگ ٹرم منصوبے بنانے اور ان مسائل
کا کو ئی مستقل حل نکالنے کے لیے جاپان سے بھی تعاون حاصل کرسکتے ہیں اور
فرانس کی حکمتوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں، لیکن یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچنے سے فرصت ملے تب ہی کچھ اور سوچیں۔
یہ بات بھی بار بار دہرائی جاچکی ہے کہ پاکستان ڈیمز تعمیر کرکے ان دکھوں
سے نجات پاسکتا ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر ڈیمز، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے
جاتے تو آج سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے، ممکن ہے اس کی نوبت نہ آتی۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے بعد منگلااور تربیلا بند بنانے کے سوا کوئی بڑا
ڈیم تعمیر نہ کرسکا، جبکہ چین کی طرح پنجاب اور سندھ میں چھوٹے چھوٹے ڈیم
تعمیر کرلیے جاتے تو بارش کا پانی اور بھارت کی طرف سے آنے والے سیلابی
پانی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکتا تھا۔ حالانکہ بھارت نے
سندھ طاس معاہدے کو پس پشت ڈال کر سیکڑوں ڈیمز تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے
کی وسیع پیمانے پر صلاحیت حاصل کرلی ہے، لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔ جب سیلاب
آتا ہے، اس وقت تو ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے، لیکن سیلاب اترنے کے کچھ
عرصے بعد ملک میں پانی کی قلت کی آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر حکومت
سیلاب کے اس پانی کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دے تو یہ زحمت کی بجائے رحمت
بن سکتا ہے اور نہ صرف سیلاب کے مضمرات سے بچا جاسکتا ہے، بلکہ پانی محفوظ
کر کے سارا سال ملک سے پانی کی قلت کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حکومت
اگر ملک کو واقعی ترقی دینے کی خواہاں ہے تو اسے سیلاب کے مضمرات پر قابو
پانے پر توجہ دینا ہو گی۔ |
|