تو نے راہ دکھائی ہے
(Mufti Muhammad Fayaz Qasmi, India)
ارے دانش تم یہاں! واہ تم جیسے
لڑکے بھی جانوروں کے میلے میں گھوما کرتے ہیں، تعجب ہے، تم سے تو ایسی امید
نہیں تھی! دانش کا دوست منور بہت ہی تعجب سے پوچھتا ہے۔ دھیرے بولو اور
زبان پر تالا لگا کر بولا کرو، میرے پاپا بھی قریب ہی میں بکرے والے سے
باتیں کر رہے ہیں۔ دانش جواب دیتا ہوا اپنے دوست کو الگ لے جاتا ہے۔
منور! ایک بات بتاؤ، تمھیں ہم لوگوں پر تعجب اور اعتراض کیوں ہوا؟ آخر
تمھارے ابو بھی تو بکرے خریدے ہوں گے؟ اسی طرح ہر مسلمان جس پرقربانی فرض
ہے، وہ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے بکرے یا دوسرے بڑے جانور لیا کرتے ہیں۔
میری سمجھ سے تمھاری یہ شرارتیں ہیں فقط، ہمارا عمل کچھ بھی قابل اعتراض
نہیں۔ دیکھو دانش! اپنی پارسائی میرے سامنے نہ بگھاڑو، تم ہی صرف عبادت
گزار بننے چلے ہو اور ہم صر ف نام کے مسلمان ہیں! ہم نے اپنے گھر والوں
کوبھی تو دیگر عبادتیں کرتے دیکھا ہے؛ مگر یہ نئی چیز تو کبھی دیکھنے کو
نہیں ملی کہ خواہ مخواہ جانوروں کو ذبح کرو، اس کی جانیں لو اور ہم مزہ لے
کر اس کا گوشت کھائیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ منور ایک ہی سانس میں دانش
کو یہ سب کچھ کہہ سناتا ہے۔بات اصل یہ ہے منور کہ تم اور تمھارے گھر والے
اس کی حقیقت، فضیلت اور فرضیت سے ناواقف ہو۔ چوں کہ تم لوگ برادران وطن کے
علاقے میں بسے ہو اور انہی لوگوں سے دوستی نے تمھارے گھر والوں کو قربانی
جیسی اہم فرض کی حقیقت اور اس کی ادائیگی سے محروم رکھا ہے۔
دیکھو دوست! اﷲ پاک اپنے پیارے بندوں کو متعدد طریقے سے آزماتا ہے، کبھی
کسی پریشانی میں ڈال کر، کبھی خوشی دے کر، کبھی مال خرچ کروا کر توکبھی جان
طلب کرکے۔ غرض اﷲ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے کتنی محبت کر
تاہے۔ اس لیے اﷲ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائش میں ڈالا۔ منور،
میرے دوست! تم تو بچپن میں میرے ساتھ پڑھ چکے ہو کہ اﷲ نے حضرت ابراہیم ؑ
کو بڑھاپے میں ایک بیٹا دیا تھا جس کانام اسماعیل تھا؟ ہاں ہاں بولتے جاؤ،
مجھے اتنا جاہل سمجھ رکھا ہے۔ درمیان میں منور بول پڑا۔ ارے بھائی تمھیں
جاہل کون کہتا ہے، ہم لوگ تو اپنے پڑھے ہوئے کو آپس میں دہرارہے ہیں۔
ہاں تو منور! میں یہ کہہ رہا تھا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو بیٹا دینے کے بعد اﷲ
نے آزمایا اور خواب میں واضح کیا کہ تم اس کو میری راہ میں قربان کردو؛
چنانچہ انھوں نے اسماعیل ؑ سے کہا، اسماعیل! تجھے خبر ہے، میں نے خواب میں
دیکھا ہے کہ میں خود تجھے خدا کی راہ میں ذبح کرتا ہوں اور اﷲ کی مرضی بھی
یہی ہے۔ باپ کے کہنے پر بیٹا فوراً تیار ہوجاتا ہے۔ منور! ہم تم جیسے بیٹے
سے اگر باپ ایسا کہہ دے تو بتاؤ ہم کیا کریں گے؟ کیا کریں گے، تیار نہیں
ہوں گے، بھلا خواب کی بات بھی سچ ہوا کرتی ہے۔ منور نے جواب دیا۔ ہاں منور!
لیکن چونکہ ان کے والد نبی تھے اور نبی کا خواب سچا ہوتا ہے، اس لیے حضرت
اسماعیل کا جواب سنو: اباجی! آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کر ڈالیے، مجھے آپ صبر
کرنے والوں میں سے پا ئیں گے۔
دانش دانش! کہاں گئے تم، چلو گھر چلیں۔ دیکھو کتنا خوبصورت بکرا خریدا ہے۔
ماشاء اﷲ بہت پیارا معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو موٹا تازہ بھی ہے۔ چلیے پاپا، میں
اسے چارہ لاکر کھلاؤں گا۔ دانش بکرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے اور گھر
جانے لگتا ہے۔ ہاں منور! کہیں کھو تو نہیں گئے۔ حضرت ابراہیم ؑاپنے اسماعیل
ؑکو اﷲ کے راستے میں قربان کرنے کے لیے میدان منٰی لے جاتے ہیں۔ لیکن جب
ابراہیم ؑنے اپنے رب کی رضاکی خاطر اپنے لاڈلے کو قربان کیا تو رب نے بھی
اس کا خوب بہترین بدلہ عطا فرمایا کہ آناً فاناً جنت سے ایک دنبہ بھیج دیا
اور اسماعیل ؑکی جگہ اس کی گردن پر چھری چلی۔
منور! ہر وہ شخص جواپنے سینے میں دل رکھتاہے، اپنے جگر گوشہ کی معصوم صورت
دیکھ کر اس کا دل بلیوں اچھلتا ہے، ذرا سوچو، اس کی گردن پر چھری چلانا اس
کے لیے کتنا مشکل کام ہے۔ بہت مشکل ہے۔ منور زیر لب بولا۔ لیکن دنیا نے
دیکھا کہ اس مشکل ترین قربانی کو پیش کرنے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
کامیاب ہوگئے اورہر مومن بندہ کے لیے یہ نمونہ چھوڑ گئے کہ اپنے رب کے حکم
اور اس کے نام پر عزیز سے عزیز متاع حیات کو قربان کردینا ہی بندہ کی بندگی
کا طرہ ٔ امتیاز ہے اور اس میں آنا کانی اپنے مالک کے حکم سے سرتابی ہے جو
غضب اور ناراضگی کا سبب ہے۔ واہ دانش! تم نے بڑی کام کی بات بتائی۔ پھر تو
ابھی کے ابھی ابو کو میں بکر ا خریدنے کے لیے کہوں گا۔ پلیز دانش! تم بھی
میرے ساتھ چلونا، ابو تمھاری با ت ضرور مانیں گے۔ ٹھیک ہے چلو۔ منور کے
اصرار پر دانش بھی تیار ہوجاتا ہے۔
نادرہ، حنا، صبا، ارے دیکھو دیکھو، پاپا بازار سے کتنا خوبصورت بکرا لائے
ہیں۔ انور صاحب کے گھر آتے ہی بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میں اکیلے
ہی اسے گھاس کھلاؤں گی، پانی پلاؤں گی، یہ میرا بکراہے، ہے ناپاپا؟ صبا
چھوٹی بیٹی ضد کرنے لگتی ہے۔ ہاں بٹیا، یہ تمھارا ہی ہے۔ پاپا نے اس کی طرف
داری کی۔
السلام علیکم چچا! خوش رہو بیٹا، بہت دنوں پر آنا ہوا! جی چچا، سب ٹھیک ہے،
آپ کی دعائیں ہیں۔ کہاں تھے منور؟ بہت دیر سے غائب تھے۔ منور میرے ساتھ تھا
چچا! دراصل میرے پاپا نے بازار سے بکرا خریدا ہے نا، اس لیے ہم لوگ بکرا
دیکھ رہے تھے۔ دانش بیچ میں بول پڑا۔ کیوں بھئی کوئی فنکشن ہے کیا یا کسی
خاص کی دعوت ہے؟ نہیں چچا، یہ تو قربانی کا وقت ہے۔ کیا تم لوگ قربانی
قربانی بکتے رہتے ہو، آخر یہ کیا فلسفہ؟ انور صاحب نے جھلا کر پوچھا۔ چچا!
بات یہ ہے کہ ہمارے رب نے دیگر فرائض کی طرح بقرعید میں جانور کی قربانی
کرنے کو بھی فرض کیاہے۔ جولوگ مالدار ہیں ان پر قربانی کرنا واجب ہے۔ اس
میں کوتاہی کرنے سے اﷲ پاک ناراض ہوتے ہیں، بندہ گنہ گار ہوتا ہے۔ قربانی
کرنے سے اﷲ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ بندوں کے اندر راہِ خدامیں جان دینے کا
جذبہ پیدا ہوتاہے۔ جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اﷲ پاک کے یہاں
قبول ہوجاتا ہے۔ جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی قربانی کرنے والے کو ملے
گی۔ وہ اس جانور پرسوار ہوکر کل قیامت کے دن آرام سے جنت میں چلا جائے گا۔
شکر ہے اﷲ کا۔ جزاک اﷲ بیٹا! تم نے میری عقل کھول دی۔ میں اتنے دنوں سے
گمراہی میں تھا، اﷲ معاف فرمائے۔ میں ابھی کے ابھی بکر اخریدہی لاتا ہوں۔
مگر دانش! بات یہ ہے کہ قربانی کے بعد اس کا اتناسارا گوشت کا ہوگا کیا؟
گھر میں تو تین ہی آدمی ہیں :منور کی امی، منور اور میں۔ چچا جی! یہی تو
بات ہے دین اسلام میں ہر پریشانی کا حل موجود ہے۔ قربانی کے گوشت کو تین
حصوں میں تقسیم کرنا شریعت نے مستحب قرار دیاہے۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک
دوست واحباب اور رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غریب ومسکین کے لیے۔ اوہو،
اب سمجھا۔
عید قرباں کی صبح دانش کے گھر کے بچے سویرے بیدار ہوگئے۔ غسل وغیرہ سے فارغ
ہوکر دانش نئے کپڑے پہن کر منور کے یہاں جاتا ہے۔ آؤ دانش! امی یہ دیکھو
دانش آیا ہے۔ السلام علیکم چچی جان۔ وعلیکم السلام بیٹا، خوش رہو۔ امی جلدی
ناشتہ لگاؤ۔ آؤ دانش بیٹھو۔ منور اسے ناشتہ کو کہتا ہے۔ ایسا ہے منور،
ناشتہ چھوڑو، ابھی عید گاہ چلو، نماز سے واپس آکر ہم لوگ قربانی کے گوشت سے
ہی ناشتہ کریں گے۔ دانش نے جواب دیا۔ تو کیا ہم لوگ بھوکے ہی عید گاہ
جائیں؟ منور تعجب سے پوچھتا ہے۔ ہاں بہتر اور افضل یہی ہے کہ بغیر کھائے
عید گاہ جائیں۔ دانش بڑی دانشمندانہ جواب دیتا ہے۔ بالآخر سب لوگ نماز پڑھ
کر گھر واپس آتے ہیں۔
پاپا! اپنے بکر ے کی قربانی سب سے پہلے کریں۔ ٹھیک ہے۔ ادھر منور کے یہاں
بھی قربانی کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ منور کے ابو نے کہا: منور! تم خود ہی
ذبح کرو، میرا ہاتھ صحیح سے کام نہیں کرتا۔ ابومیں! مجھے تو قربانی کرنا
نہیں آتا، دعا بھی یاد نہیں۔ ایسا کر تے ہیں کہ دانش کے پاپا کو بلا لاتے
ہیں۔ منور نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا۔
ہاں تو آپ کا مکمل نا م کیا ہوا؟ دانش کے پاپانے منور کے ابو سے پوچھا۔ ہاں
بھائی، میرا پورا نام حبیب الرحمن ہے۔ لیکن ایک منٹ، قربانی میرے نام سے
نہیں، منور کی والدہ کے نام سے ہوگی۔ آپ کے نام سے نہیں، کیوں؟ گھرکے مالک
آپ ہیں، روپیہ پیسہ آپ کے پاس ہے، قربانی آپ پر واجب ہے۔ کیا آپ کی بیوی
بھی مالدار ہے؟ دانش کے پاپانے پوچھا۔ ارے اس بے چاری کے پاس کہاں سے مال
آیا، اس لیے تو کہتا ہوں کہ پہلے اس غریب کے نام سے کرادوں، پھر آئندہ اپنے
نام سے کراؤں گا۔ حبیب صاحب نے جواب دیا۔ دیکھو بھائی۔ منور کی والدہ
مالدار ہوتی تو اس پر واجب ہوتی۔ مالدار تو آپ ہیں، پہلے آپ اپنا فرض ادا
کیجیے تاکہ ذمہ داری ختم ہوجائے۔ ہاں اگر گنجائش ہے تو جایئے ایک اور بکرا
خریدکر اس کے نام سے بھی قربان کرکے ثواب حاصل کیجیے۔
ہاں ابو! سونو کے ابو کے پاس ایک بکرا ہے وہ آپ لے لیجیے۔ منور اپنے والد
کو بکر اخریدنے کا مشورہ دیتاہے۔ ارے بے وقوف! وہ،وہ بکرا تو عیب دار ہے۔
اس کے بچپن سے کوئی سینگھ نہیں نکلی۔ کسی نے نہیں خریدا تو میں لے لوں؟
حبیب صاحب آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ دانش کے پاپا بول پڑے۔ دراصل اس جانور کی
قربانی درست ہے۔ جس جانور کے سینگھ پیدائشی اگے ہی نہ ہوں یا ٹوٹ گئی ہوں
یا کھول اتر گئے ہوں وہ عیب دا رنہیں کہلاتے۔ شریعت نے اس کے قربانی کی
اجازت دی ہے۔ اس لیے آپ اسے شوق سے خرید کر قربانی کرسکتے ہیں ۔
بہت بہت شکریہ بھائی! آپ لوگوں نے ہمیں تاریکی سے نکال کر صحیح راہ دکھائی۔
ارے اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ تو ہمارا فرض تھا۔ خیر ہم چلتے ہیں۔
خداحافظ۔ |
|