موجودہ صدی میڈیا کے
عروج اور اثر و رسوخ کی صدی ہے۔ چند سطروں کی خبریا چند منٹوں کا نیوز پیکج
رائی کو پہاڑ بنانے اور پہاڑ کو رائی دکھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ زمینی
حقائق چاہے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہو لوگ آج کل وہی دیکھتے، سوچتے اور
سمجھتے ہیں، جو انہیں میڈیا دکھاتا ہے۔
ملک دشمن قوتیں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کو ایک ناکام ملک،
دنیا کے لیے خطرناک اور ہرطرح کی شورش و جرائم کا گڑھ ثابت کرنے کے لیے
ایڑھی چوٹی کا روز لگا رہی ہیں۔ اس کام کے لیے پاکستانی میڈیا کو جزوی طور
پر جبکہ عالمی میڈیا کو کلی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوئی پرانی مثال
یا زیادہ دور کی بات نہیں کروں گا۔ ملک میں آنے والا حالیہ تباہ کن سیلاب
اور متاثرین وزیرستان کی نقل مکانی، پاکستان کے لیے یہ دونوں گھڑیاں مشکل
ترین ایام میں سے ایک ہے۔ مصیبت کے ان لمحات میں میڈیا رپورٹس سے آپ کو
اندازہ ہوا ہوگا کہ کون لوگ ان مصیبت زدہ افراد کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور کس
نے ان کے لیے کی جانے والی بے لوث خدمات کو غلط رنگ دے کر خدمت گاروں کے
لیے مشکلات پیدا کیں۔ ماضی میں بھی ایسے ہی پروپیگنڈے کے باعث پاکستان کی
متعدد فلاحی تنظمیوں پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ دراصل یہ عناصر
متاثرین کو ملنے والی امداد اور دلجوئی سے محروم کر کے ریاست مخالفانہ یورش
کو مزید ہوا دینا چاہتے ہیں۔
جماعۃ الدعوۃ، پاکستان کی چند بڑی دینی و فلاحی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔
زلزلہ ہو یا سیلاب! مشکل میں پھنسے لوگوں کی یہ بھرپور مدد کرتی ہے۔ ماشکیل
اور آواران کے زلزلے کو لے لیجئے۔ 2013ء میں شدید زلزلے نے بلوچستان کے دو
اضلاع آواران اور ماشکیل کو بری طرح متاثرکیا، یہ وہ علاقے ہیں جہاں ریاستی
اداروں کا پہنچنا بھی مشکل تھا۔ لیکن یہ دینی رفاہی ادارے وہاں بھی پہنچے
اور انھوں نے وہاں متاثرین کی مدد بھی کی۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کے
ہزاروں لوگوں نے ملک میں لگی ہوئی بدامنی کی آگ کو بجھانے کے لیے اور
قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنا گھربار
چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی کی، مشکلات کو برداشت کیا۔ فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن، الخدمت او ر دیگر دینی رفاہی جماعتیں ایک بار پھر ان
لوگوں کو دلاسہ دینے کے لیے میدان میں آئیں اور رمضان المبارک سے لے کر عید
تک ان بے گھر لوگوں کی دل کھول کر مدد کی۔ لیکن اشتہارات نہ دینے والی
جماعتیں ہونے کے باعث پاکستانی میڈیا میں ریلیف کی ان سرگرمیوں کو جگہ نہ
مل سکی۔ جبکہ انٹرنیشنل میڈیا نے دینی جماعتوں کی خدمات اور قربانیوں کے
اعتراف کے بجائے ان کے حوالے سے ایسی منفی رپورٹس چلائیں، جیسے وہ کوئی بہت
ہی بڑا جرم اور گناہ کر رہی ہوں۔
پاکستان میں حقوق انسانی اور غرباء و مساکین کے لیے درد دل رکھنے والی بے
شمار این جی اوز ہیں۔ لیکن یہ این جی اوز آپ کو یا تو ویب سائٹس پر نظرآئیں
گی یا ائیرکنڈیشنڈ ہالوں میں سیمینار کرتے ہوئے یا کسی ٹی وی کی اسکرین پر
لوگوں کی مشکلات پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے نظر آئیں گی۔ یہ کسی آفت زدہ
لوگوں کی مدد کرتے ہوئے، انہیں مشکلات سے نکالتی ہوئی نظر نہیں آئیں گی۔
جبکہ ان کے مقابلے میں جو لوگ میدان عمل میں مصیبت زدہ افراد کے ساتھ کھڑے
ہوتے ہیں ان کی بے لوث خدمات پر سوالیہ نشان اٹھائے جاتے ہیں۔ لوگوں کے
ذہنوں کے پراگندہ کیا جاتا ہے۔ حالیہ سیلاب میں بھی فلاح انسانیت فاونڈیشن
کے رضاکاروں کے ایسے مناظر منظر عام پر آئیں ہے کہ ان کے پاس وسائل نہیں
ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ٹائروں میں استعمال ہونے والی ٹیوبوں کی کشتیاں بنا
کر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ کشتی تو دور کی بات اگر
رضاکار کو چپو بھی نہیں ملا تو وہ اپنے ہاتھوں کو ہی چپو بنا کر سیلاب میں
پھنسے لوگوں تک کھانا پہنچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اخبارات میں ان
تصاویراور ٹی وی کی اسکرینوں پر ایسے متعدد مناظر دیکھ کر آپ اس بات کا
اعتراف کریں گے کہ یہ حقیقت میں خدمت اور رضاکارانہ سرگرمیوں کی ایک مثالی
تاریخ رقم ہو رہی ہے۔
خدمت سے سرشار ان رضاکاروں کے پاس جہاں ریسکیو کا سامان موجود ہے، وہاں
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موٹر بوٹ سروس شروع کر کے فوری طور پر لوگوں کو
سیلاب کے خطرے سے محفوظ مقاما ت پر پہنچایا۔ ریسکیو ٹیموں نے سیلابی پانی
میں پھنسے افرادکے علاوہ ان کے اموال اور جانوروں کو بھی کشتیوں کے ذریعے
دوسری جگہ منتقل کیا۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان کے چیئرمین حافظ
عبدالروف اورجماعۃ الدعوۃ پاکستان کے امیر حافظ محمد سعید خود کیچڑ اور
پانی میں چل کر لوگوں کی مدد اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے متاثرہ
علاقوں میں پہنچے۔ اب تک لوگوں کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے جا رہے ہیں جبکہ
بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو تیار کھانا دیا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ
چاہیے کہ میڈیا اس طرح کی رپورٹس دے کہ باقی اہل پاکستان بھی میدان میں
آئیں اور اسی جذبے کے ساتھ آفت زدہ لوگوں کی مدد کریں۔ بعض صحافیوں اور
اینکرز نے اپنے لائیو پروگرامات میں بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جماعۃ
الدعوۃ کے رضاکار وہ کام کر رہے ہیں جو کوئی دوسرا نہیں کر پا رہا ۔ لیکن
ایسی مثبت رپورٹس آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔نیوز چینلز پر دھرنوں اور سیاست
کی رسہ کشی کا لا متناہی اقساط پر مبنی چلنے والے طویل ترین ڈرامے نے
پاکستان کے موجودہ حقیقی مسائل کو پس منظر میں ڈال دیا ہے۔
پاکستانی میڈیا اس وقت اپنی ساری توجہ اسلام آباد پر مرکوز کیے ہوئے ہے
جبکہ انٹرنیشنل میڈیاآج بھی اپنا منفی کردار اور دہرے معیار کی واضح عکاسی
کر رہا ہے۔ 4اگست کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ویب سائٹ پر نشر
ہونے والی رپورٹ میں اسلام آباد سے ارم عباسی کی رپورٹ میں شمالی وزیرستان
کے متاثرہ خاندانوں کے لیے رفاہی سرگرمیاں سرانجام دینے والی ایک فلاحی
جماعت کی خدمات کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ حالیہ سیلاب
کے دوران بھی8ستمبر کو بی بی سی کی ایک رپورٹر سارا دن ایک رفاہی ادارے کی
کشتی میں بیٹھ کر سیلاب کی کوریج کرتی رہی، لیکن وہ اپنی رپورٹ میں اس کی
خدمات تو دور کی بات اس کا نام تک لینا گورا نہیں کرتی بلکہ صرف اتنا کہنے
پر اکتفا کرتی ہے کہ کچھ دینی جماعتیں بھی اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب
متاثرین کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔ اسی طرح کی رپورٹس جرمنی کا ریڈیو اور اس
کی ویب سائٹ ڈاوچے ویلے (ڈی ،ڈبلیو) بھی دے رہا ہے۔ یہی صورتحال الجزیرہ کی
ہے۔عالمی اداروں کی رپورٹس کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے یہ
باریش لوگ کو سیلاب متاثرہ علاقوں میں راشن کے تھیلے نہیں بلکہ باردو کی
بوریاں تقسیم کر رہے ہوں۔
عالمی نشریاتی اداروں کی جانب سے صحافت جیسے مقدس شعبے میں اتنی بدیانتی
اور جانب داری دیکھ کر میں دل برداشتہ ہو کر سوچ رہا ہوں کہ آخر کب تک
میڈیا میں بھیڑ کا لبادہ اوڑھے بھیڑیے محب وطن لوگوں کو پاکستان دشمن بناتے
رہیں گے؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے اندر دوست کو دشمن
اور دشمن کو دوست بنا کر پیش کرنے کا منافقانہ طرز عمل آخر کب چھوڑیں گے؟
وہ دن کب آئے جاگے جب سی این این، بی بی سی، روئیٹر، جیسے ذرائع ابلاغ کے
عالمی ادارے پاکستان کی دینی جماعتوں کے رفاہی کاموں کو تعصب کی آنکھ سے
دیکھنے کے بجائے ، عیسائی مشنری اداروں کے کاموں کی طرح کھلے دل سے تسلیم
کرتے ہوئے ان کی تائید و تعریف کریں گی۔ کیا پاکستان کا کوئی صحافتی ادارہ
اس ملک کا حقیقی چہرہ بھی کبھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے سنجیدہ اور
مخلصانہ کوشش کرے گا۔کیا ملکی ذرائع ابلاغ کبھی اس مہم پر کام کریں گے کہ
پاکستان کی رفاہی جماعتوں کے متعلق جو عالمی تاثر ہے اس کو تبدیل کیا جائے۔
میڈیا ہر دور میں ایک اہم ریاستی ستون رہا ہے۔ پاکستان میں میڈیا بہت زیادہ
ترقی یافتہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام ٹی و چینلز،اخبارات
اور ریڈیوقدرتی آفات میں خدمات پیش کرنے والے اداروں کے کاموں کو نمایاں
طور پر پیش کریں۔ یقینا میڈیا کی جانب سے آفات میں کام کی مثبت اور نمایاں
کوریج کے باعث زیادہ سے زیادہ لوگ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے آگے بڑھیں
گے۔ اہل پاکستان کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ،اپنی مدد آپ کے تحت
بحالی و تعمیر کے مراحل مکمل کر کے دنیا میں اخوت و بے لوث خدمت کی نئی
مثالیں رقم کر سکتے ہیں
٭……٭……٭ |