ہاں ،تم صحیح کہہ رہے ہو!
(Muhammad Zahir Noor Ul bashar, Karachi)
یہ 18 ستمبر کی صبح تھی، حسبِ
معمول صبح اپنے معمولات میں مصروف تھا، تازہ ترین خبروں سے اَپ ڈیٹ ہوا،پھر
اخبارات و مضامین کے مطالعے سے فارغہو کراپنے اسائنمنٹ تیار کرنے بیٹھا
تھا، ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ موبائل کے وائبریشن نے اپنی طرف متوجہ
کیا،میسج آیا ہوا تھا، کھول کے پڑھا تو ایک دم چونک اٹھا، لکھا تھا کہ
جامعہ کراچی کے استاد ڈاکٹر شکیل اوج قاتلانہ حملے میں شدید زخمی،کچھ سمجھ
نہیں آیا کہ ہو کیا گیا ہے؟ جیسے ہی چینل لگایا تو سلائڈ چل رہی تھی کہ
ڈاکٹر شکیل اوج پہ قاتلانہ حملہ اور آغاخان منتقل، ابھی اس سکتے کے عالم
میں تھا کہتھوڑی دیر بعد اچانک یہ خبر بم بن کر گری کہ عالمِ اسلام کے
ممتاز محقق ڈاکٹر شکیل اوج اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس خبر کے ساتھ ساتھ
یہ خبر سکتے کے عالم میں لے گئی کہحملے کے وقت ان کے ساتھ استادِ محترم
ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب بھی تھے،یہ خبر مجھ سمیت ان کے ہزاروں شاگردوں کے
لیے ایک ناگہانی آفت کی مانند تھی،ایک تانتا سا بندھ گیا تھا فون کالوں کا،
ایک دوسری یونیورسٹی کے طالب علم کا فون آیا ، پوچھا:’’سنا ہے ڈاکٹر شکیل
کے ساتھ تمھارے استاد بھی تھے؟“ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا،
دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا، گلا خشک سا ہوگیا تھا، زبان تیزی سے حرکت
کررہی تھی کہ اے اللہ ! ڈاکٹر صاحب کو سلامت رکھنا!
ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا!
لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ تھوڑی ہی دیر میں یہ اطلاع ملی کہ ڈاکٹر
طاہر مسعود صاحب بالکل صحیح سلامت ہیں،دل کے کہیں اندر یک گونہ طاھنیت اور
سکون کا احساس ہوا کہ اللہ نے استاد ِ محترم کا سایہ ہمارے سروں میں قائم
رکھا مگر ڈاکٹر شکیل اوج کی شہادت کی خبر سے حواس باختگی کی سی کیفیت
تھی،ادھر ادھر فون کالیں کیں،تمام تر معلومات لے کر فورا ہی باہر نکل
آیا،امی کی دوائیاں لاکر گھر میں پکڑوائیں اور گاڑی لے کر فورا ہی
یونیورسٹی کی جانب دوڑ پڑا، وہاں پہنچ کر سب سے پہلے استاد محترم ڈ اکٹر
یاسر رضوی صاحب سے ملاقات کرنا چاہی، مگر نہ ہوسکی، جب اسٹاف کالونی میں
ڈاکٹر شکیل کے گھر پہنچا تو وہاں افسردگی اپنی چادر پھیلائے اور اداسی اپنے
بال بکھیرے ہوئے تھی، ہر آنکھ اشکبار، ہر شخص شخص غمزدہ، اداس اور کھویا
کھویا سا،پیشانی پہ شکنیں تھیں، ڈاکٹر خالد عراقی کو دیکھا، آنکھیں سرخ
تھیں اور بال بکھرے ہوئے! ہر شخص کی کیفیت دوسرے سے مختلف نہ تھی، کیونکہ
آج ایک انسان اس دنیا سے رخصت نہیں ہوا تھا، آج معاشرے کو سوچ و فکر کی جلا
بخشنے والا،عاجزی و انکساری کے اوصاف سے متصف صاحب ِ علم ، اخلاق و شائستگی
کا دامن کبھی نہ چھوڑنے والااور انسانوں کے دلوں اور دماغوں کے بند دریچوں
کو وا کردینے والا انسان رخصت ہوچلا تھا، ڈاکٹر شکیل ایک استاد ، رہنما اور
مصلح تو تھے ہی لیکن اس بوسیدہ عہد کی کوکھ سے ملت کے مقدر کے ایسے ستارے
صدیوں میں بھی خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔
دن بھر وہاں رہا،آتے جاتے ان کے دوستوں، دانشوروں اورشاگردوں کا ایک
لامتناہی سلسلہ تھا ،ہر شخص سوگ کی کیفیت میں،کسی سوچ و فکر میں غلطاں
تھا،کسی کے کچھ سمجھ نہیں آنا تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟
پروفیسر سلیم مغل کہ رہے تھے کہ حرماں نصیب دہشت گردوں نے اپنی آخرت تو
برباد کی ہی،مگر انہوں کسی عام پروفیسر، کسی عام ڈاکٹر اور کسی حافظ و عالم
انسان کو ہم سے نہیں چھینا بلکہ ڈاکٹریٹ آف لٹریچر کی ڈگری کے حامل برصغیر
کے تیسرے جوہرِ نایاب سے ہم کو جدا کردیا ہے،اسی طرح جنازے کی نماز
میںکراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر سے گپ شپ ہوئی تو کہنے
لگے ” نہ جانے کیا ہوگیا ہے، ابھی چند ہی دنوں میں ہم دو استادوں سے محروم
ہوگے۔“وہ مفتی مسعود بیگ کا بھی حوالہ دے رہے تھے،جو کہ انہی کی طرح ایک
صاحب ِ علم انسان تھے اور اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ کر آتے ہوئے اندھیر نگری
چوپٹ راج کے ہوکے رہ گئے تھے۔
ابھی کچھ دیر قبل وفاقی اردو یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئر
مین ڈاکٹر توصیف احمد خان سےان کے آفس میں ملاقات ہوئی،ان کا کہنا تھا کہ
ڈاکٹر شکیل لبرل اور روشن خیال تھے ،ان سے اختلافات کرنے والے بھی بہت
تھے،مگر یہ کوئی ایسا ایشو نہیں کہ یہ ان کی جان کے درپے ہوجائیں،انہوں نے
اپناخیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو بہت بڑی گیم لگتی ہے، اسنیپ شوٹرز نے
جس طریقے سے واردات کی،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پسِ پردہ کوئی
چھوٹی موٹی حکمت ِ عملی کارفرما نہیں۔
ملک کے طول و عرض میں ہر چہرے ، ہر پیشانی اور ہر لب پہ ایک ہی سوال رقصاں
ہے کہ ڈاکٹر شکیل کا آخر جرم ہی کیا تھا،اٹکل پچو کے گھوڑے دوڑائے جارہے
ہیں ،ہزار مونہوں کی ہزار باتیں سامنے آرہی ہیں، مگر سمجھ میں نہیں آرہا
کیا کہوں ؟کسے موردِ الزام ٹھہراوں؟دل چاہ رہا ہے کہ گریباں چاک کروں یا
بال نوچوں ،مگر کچھ سجھا ئی نہیں دے رہا۔۔۔ ہر طرف وحشت سی پھیلی ہوئی ہے،
ایک چراغ اور بجھا،تاریکی اور بڑھی!
ڈاکٹر صاحب کے ہزاوں چاہنے والے تھے اور ان سے اختلاف کرنے والے بھی
سینکڑوں ہونگے، لیکن میرا دل کہتا ہے وہاختلاف کرنے والے آج بھی ڈاکٹر صاحب
کی شرافت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کو سلام پیش کررہے ہونگے،
کیونکہ ڈاکٹر شکیل کا کوئی ایسا جرم نہین تھا کہ ان سے جینے کا حق چھین لیا
جاتا،وہ تو روشنی پھیلانے والے، شعور و آگہی بانٹےشو الے اور محبتوں کے
درکھولنے والے تھے،ان سے کسی کی کوئی دشمنی کیونکر ہوسکتی ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ میری ڈاکٹر شکیل اوج سےاتنی خاص رفاقت نہیں رہیہےمگرآج ایسا
لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو، ان سے ملاقاتیں زیادہ نہیں
رہیں،مگر جب بھی ملے، تپاک کے ساتھ مسکراکر اور اپنائیت اور رسانیت سے ملے
،ان کے مقالے تو بہت دیکھے رسائل و جرائد میں، ان کے بارے میں سنا بھی بہت
اور پڑھا بھی بہت کچھ،مگر ان سے پہلی ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی،اس
سیمینار میں ان کا محاضرہ اتنا شاندار تھا کہ ان کی من موہنی شخصیت دل کے
کسی نہانے خانے میں جاگزیں ہوگئی تھی،گرویدہ ہوگیاتھا اس شخص کے علم کا،اس
بندے کے شستہ لہجے اور شائستہ طرزِ تکلم کا مداح ہوچکاتھا ، دل میں اک آرزو
نے جنم لیاتھا کہ ان سے تفصیلی ملاقات کی جائے،سوچتا رہا کہ کسی دن ان کے
آفس جا کرعلم کے اس سمندرکی صحبت سے فیضیاب ہونے ضرور جائوں گا،بعدمیں
یونیورسٹی میں ہی آمنا سامنا ہوتارہا اور آخری دفعہپریس کلب میںتمغہء
امتیاز پانے والے جامعہ کراچی کے اساتذہ کےاعزاز میں منائی گئی شام میںان
کا دیدار ہواتھا۔
کراچی پریس کلب میں منائی گئی اس خوبصورت شام،میں اپنے ایک کلاس میٹ کو
ڈاکٹر شکیل کے علمی مرتبے کے بارے میں بتا ہی رہا تھا کہ وہ میرے بالکل پاس
سے گزرے،اپنی تعریفات انہوں سن لی تھیں، جاتے جاتے دو قدم آگے نکل گئے تھے
،اچانک مڑ کر دیکھا،میں تھوڑا کسمسایا،مجھے دیکھ کر مسکرائے اور آگے نکل
گئے، جیسے وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ ہاں ! تم صحیح کہہ رہے ہو!
میں اب تک ان کا مجھے دیکھ کر مسکراتا چہرہ ہرگز نہیں بھولا۔
آج ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں نہیں رہے،وہ اپنی محبت ہمارے دلوں میں ڈال کے
ہمیں افسردہ چھوڑ کر چلے گئے ،مجھے یقین ہے ،ان کا مسکراتا چہرہ اب بھی جنت
میں مسکرا رہا ہوگا،یقین کیجیے! مجھے ابھی بھی ایسا لگ رہا کہ جیسے وہ کہیں
دور سے میری یہ بات سن کر مجھےمسکراکے دیکھ رہے ہوں اور جیسے کہہ رہے ہوں
کہ ہاں ! تم صحیح کہہ رہے ہو ! |
|