مریخ تک رسائی حاصل کرنے والا ہندوستان دنیا کا اب چوتھا
ملک بن گیا ہے ۔اور پہلی کوشش میں کامیابی کا سہرا حاصل کرنے والا دنیاکا
پہلا ۔ایشا میں یہ اعزاز صرف ہندوستان کو حاصل ہے کسی اور کو نہیں ۔چین اور
جاپان جیسے ایشا کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی یہ کامیابی اب تک مل ہیں مل
سکی ہے ۔سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستانی سائنس دانوں نے یہ عظیم
کارنامہ انجام دیے کریقینی طورپر ساری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ ہندوستانی
مارس مشن سیٹیلائٹ کامیابی کے ساتھ مریخ میں قائم ہو گیا۔ یہ کہنے کی بات
نہیں ہے کہ یہ کافی مشکل عمل تھا،دنیا کے وہ ممالک جن کو اپنی سائنسی تکنیک
و تحقیق پر ناز ہے وہ بھی پہلی مرتبہ میں ایسی کامیابی حاصل نہیں کرپائے
تھے۔ مریخ میں چین نے 2011میں اپنا سیارہ یونگا بھیجا تھا جس پر ایک خطیر
رقم خرچ ہوئی تھی ۔اپنے مقصد کے حصول کے لئے چینی سائنسدانوں نے اپنی تمام
تر صلاحیتوں کو مذکورہ سیارے کی تیاری میں صرف کردیا تھا لیکن یہ مشن ناکام
ثابت ہوگیا۔ اس سے قبل جاپانی مشن ایندھن کے مسئلے کی وجہ سے ناکام ہو گیا
تھا۔ امریکہ سات مرتبہ کی کوشش میں کامیاب ہوا تھا۔ روس بھی متعدد کوششوں
کے بعد کامیابی حاصل کرپایاتھا۔ کل ملا کر مریخ کی طرف 51مشن روانہ کئے گئے
جن میں سے صرف 21کو ہی کامیابی نصیب ہوئی۔ منگل مشن اس اعتبار سے بھی
کامیاب رہا کہ وہ پہلی کوشش میں منزل مقصود حاصل کرنے والا دنیا کا پہلا
خلائی سیارہ قرار دیا گیا۔ اس سیارے میں پانچ طرح کے آلات لگائے گئے ہیں ۔
ان میں سے ایک سینسر،ایک کلر کیمرہ، ایک تھرمل امیجنگ اسپیکٹرو میٹر شامل
ہے۔سینسر سرخ سیارے پر زندگی کے امکانات اور اشاروں میں میتھین یا مارش گیس
کا پتہ لگائے گا۔ کلر کیمرہ اور تھرمل امیجنگ اسپیکٹرو میٹر سرخ سیارے کی
سطح کا اور اس میں موجود خزائن کا مشاہدہ کرکے اعداد و شمار یکجا کرے گا۔
آربیٹر اپنے آلات کے ساتھ کم سے کم چھ ماہ تک مدار میں محو سفر رہے گا اور
ا س میں نصب کئے گئے آلات، اعداد و شمار وغیرہ زمین پر بھیجتا رہے گا۔
مریخ کے مطالعے اور وہاں سے اعدا د و شمار یکجا کرنے کیلئے 7امریکی خلائی
سیارے کام کررہے ہیں۔ سائنسی مطالعے اور حصولیابیاں کسی بھی ملک کی ہوں وہ
مستقبل کے تجربات میں سب کیلئے کار آمد ہوتی ہیں۔ جس طرح امریکہ کے ناسا کی
حصولیابیوں نے دنیا بھر کی خلائی تحقیق کو آگے بڑھانے میں معاون بنی ہے ،
اسی طرح اسرو کی کامیابی بھی صرف ہندوستان کیلئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا
کیلئے فائدہ مند رہے گی۔ دنیا بھر کے سائنسداں ہندوستانی خلائی سائنس کی
تحقیق سے فائدہ اٹھائیں گے اور اپنے خلائی سیاروں کی تیاری کے وقت اسرو کی
طرف ضرور رخ کریں گے۔
کچھ شعبوں میں دوسرے ممالک سے مدد لینے کے باوجود ہندوستان کا خلائی مشن
کافی حد تک اپنے ملک میں تیار کئے گئے آلات اور دوسرے ممالک کے مقابل کافی
کفایتی رہا ہے۔ اس مہم کی ایک بڑی خاصیت ہے کہ امریکہ اور روس نے جہاں اپنے
مریخ مہمات کیلئے کافی طاقتور اور مہنگے راکٹوں کا استعمال کیا وہیں
ہندوستان کے اس مشن پر محض ساڑھے چار سو کروڑ روپے کا صرفہ آیا ہے۔
ہندوستانی سائنسدانوں کے سامنے اس مشن کیلئے جتنے بھی وسائل تھے اس میں
انہوں نے سب سے بہتر اور کفایتی متبادل کے ساتھ اپنے تجربات میں کامیابی کی
نئی تاریخ رقم کی ہے۔
اس مہم میں کامیابی حاصل ہوجانے کے بعد اسپیس سائنس کی دنیا میں ہندوستان
کو ایک نیا مقام حاصل ہوگیا ہے ۔اب ہندوستان کو غیر ملکی سیٹلائٹ کے آرڈر
ملنے کی پوری امید ہے۔ اس طرح خلائی مشن کو بروئے کار لاتے ہوئے اب
ہندوستان اسپیس بزنس میں بھی نئی چھلانگ لگا سکتا ہے ۔
تکنیک کی دوڑ میں دنیا میں سب سے اول صف میں رہنے والے چین اور جاپان اس
کوشش میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور روس خود بھی اپنی بارہا کوششوں
کے بعد بھی اس مہم کو سر کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے اور اس طرح اب تک مریخ
کے راز جاننے کیلئے اب تک کی دوتہائی مہم ناکام ثابت ہوئی ہے لیکن ہندوستان
کے عزم و حوصلے کو سلام کہ وہ سبھی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دم پر
اسے منزل مقصود تک پہنچانے میں کامیابی سے ہم کنار ہوگیا ہے ۔جس کے لئے
تقریباً 200سائنسدانوں کی ایک ٹیم چوبیس گھنٹے اس مہم کو کامیاب بنانے میں
مصروف عمل تھی ۔
اسرو کے چیئر مین کے رادھا کرشن اور ان کی پوری ٹیم نے آج ہرہندوستانی کا
سرفخر سے اونچا کردیا ہے ۔سائنس اور ٹیکنا لوجی کی دنیا میں یہ عظیم
کارنامہ انجام دے کر انہوں نے ہر شہری کو احساس کمتری کے خول سے باہر نکا ل
دیا ہے ۔آج یہ بھی ثابت ہوگیا ہے ہندوستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے
ساتھ کھڑا ہے۔ مریخ اور چاند تک رسائی حاصل کرنے والا صرف یورپ نہیں ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی پر کسی کی جاگیر نہیں ہے ۔دنیا کے کئی سائنسی اداروں
میں خدمات دینے والے زیادہ تر ہندوستانی ہیں ۔یہاں کے چیدہ اور چنیدہ لوگ
دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے کام کررہے ہیں ۔طب کی دنیا میں ہندوستان کو سب
زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
اسرو کے چیئرمین کے رادھا کرشنن اور ان کی ٹیم کی اس عظیم کامیابی کو ہم سر
آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ قابل فخر کارنامہ انجام دینے پر ہم انہیں مبارکباد
پیش کرتے ہیں ۔ |