محکمہ تعلیم اور صحت میں کرپشن عروج پر……وزیر اعلی کیلئے چیلنج

میں سب کو ٹھیک کرو نگا ۔ تمام ملازمین خود کو درست کرلیں۔ یہ بڑا پرانا تکیہ کلام ہے جناب خادم اعلی پنجاب شہباشریف کا۔ اس بات کو انہوں نے عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی مصلحت ،کوئی مجبوری ،کوئی سفارش آڑے آگئی یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں کے گھپلے کرنے والے محکمہ صحت اور تعلیم کے افسران اور ذمہ داران دندناتے پھر رہے ہیں۔ بجائے ندامت کے ان سے سر مزید تن گئے ہیں گردنوں میں سر یہ وہ بھی اتفاق فاؤنڈری کا نظر آنے لگا ہے۔ قارئین ہمارے ملک میں دو بنیادی محکمے تعلیم اور صحت پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک زبوں حالی کا شکار ہیں۔ یہ وہ محکمے ہیں جو کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا کلیدی کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیت ہے یہ دونوں محکمے ہمیشہ سے حکومتی ارباب کی لاپرواہی ، غفلت اور افسران کی کرپشن کا شکار رہے ہیں جن کی ہزاروں مثالیں ہمارے ارد گرد موجودہیں۔ میں یہاں پرچند ایک کوڈ کرونگا جس کا مقصدیہ ہے کہ وزیراعلی پنجاب جو کہ سب کو ٹھیک کرنے کے دعوایداراور کرپشن کو ختم کرنے کاسہرا سجانے کے خواہش مند ہیں ان کو یہ باور کرانامقصود ہے کہ اگر سب کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر مصلحتوں، مجبوریوں اورسفارشوں کو بالائے طاق رکھو کر کام کرنا ہوگا۔

ساہیوال میں حال ہی میں ڈسڑکٹ ٹیچنگ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 3کروڑ لاکھ 83ہزار 410روپے کی کرپشن منظر عام پر آچکی ہے۔ اس سے پہلے بھی اس ہسپتال میں فرنیچر اور دوسری اشیائے کی خریداری میں گھپلے ثابت ہوئے لیکن مرتکب افراد کے خلاف سوائے انکوائری کے کوئی کاروائی عمل نہیں لائی تھی وہاڑی میں ڈاکٹروں اور عملہ کی غفلت اور آکسیجن کی غیرموجودگی کی بناپر7بچوں کی ہلاکت ہو جاتی ہے ۔ جوکہ عملے اور ڈاکٹروں کی نااہلی اور غفلت کا واضح ثبوت ہے لیکن کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ہے ۔ کمیٹیوں اور انکوائریوں کے چکر میں الجھاکر معاملات کو اتنا پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے کہ کسی پر فرد جرم عائد کرنا نا مکمن ہو جاتی ہے۔کیس کھوہ کھاتے اور آفسران صاف بچ نکلتے ہیں اور بالفرض کسی کو نامزد کرنا مجبوری بن جائے تو پھر نائب قاصد چپڑاسی وارڈ بوائے وغیرہ کو بلی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے اﷲ اﷲ خیرسلی۔

لودھراں ہسپتال میں جناب وزیر اعلی خود مشاہدہ کرتے ہیں ۔ انکوائری کا حکم صادر فرماتے ہیں ۔ انکوائری چلتی ہے ڈاکٹرزبھی گرفتار ہوتے ہیں پھر ڈاکٹروں کو بچانے کیلئے پیٹی بھائی "میدان جہاد ‘‘میں اترتے ہیں احتجاج ہوتے ہیں ہڑتال ہوتی ہے ۔ ڈاکٹرز رہا ہو جاتے ہیں انکوائری پیٹی بھائیوں کو سونپ دی جاتی ہیں اورمعاملہ ٹا ئیں ٹا ئیں فش۔ کہروڑ پکا میں حکومت پنجاب کو جانب سے طلبا و طالبات کومفت دی جانی والی درس کتب کے ٹرک کو ردی کے بھاؤ بیچ دیا جاتا ہے میڈیا کی نشاندہی پر چھاپہ لگتا ہے اور پھر چپڑاسی کو چند روز کیلئے معطل کر دیا جاتا ہے حالانکہ ڈپٹی ڈی ای او ایجوکیشن مبینہ طور پر ملوث ہوتا ہے۔

ایک اورانتہائی دلچسپ اور افسوسناک واقعہ کہ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج کہروڑپکامیں پروفیسر طیب اقبال پرنسپل کالج ہذا 80لاکھ روپے کی خریداری میں تقریبا 20لاکھ روپے کی خرد برد کرتے ہیں میڈیااسے منظرعام پر لاتا ہے انکوائری سٹینڈ ہو جاتی ہے محکمہ تعلیم والے روایتی اندازاپناتے ہوئے موصوف کو بے گناہ قرار دے دیتے ہیں اس پر سول سو سائٹی، میڈیا اور این جی اوز شور مچاتی ہیں ۔معاملہ انٹی کرپشن میں چلا جاتا ہے مک مکا کیلئے بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے کچھ جگہوں پر معاملات طے ہو جاتے ہیں لیکن انکوائری آفسیر مہر خالد اسسٹنٹ ڈائریکٹرانٹی کرپشن پروفیسر طیب اقبال کو گناہگار ڈکلیر کرتے ہیں اور طیب اقبال کو کہا جاتا ہے کہ وہ خرد برد کی رقم خزانہ سرکار میں جمع کرائے ۔بار بار کی یاد دہانی کے باوجود موصوف ٹس سے مس نہیں ہوتا تو مہر خالد اپنی رپورٹ میں اس کے خلاف اندراج مقدمہ کی شفارش کرتا ہے اور منظوری کیلئے ڈائریکٹرانٹی کرپشن لاہور کو بھیج دی جاتی ہے جہا ں سے وہ فائل پیسوں کے وزن تلے ایسے دبتی ہے کہ تا حال نہیں نکلتی۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے پرنسپل موصوف کی دیدہ دلیری مزید بڑھ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ستمبر 2014میں ہونے والے سی ٹی آئیزs CTIکی بھرتی میں گھپلے اور بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں ۔انٹرویو کے نمبروں والے خانے خالی چھوڑ دیئے جاتے ہیں بعد میں ٹمپرنگ کرکے اپنی مرضی کے امیدوار بھرتی کرنا مقصود تھا۔ڈپٹی ڈائریکٹرکالجزریکارڈ کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔انکوائری شروع ہے تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پرنسپل موصوف حسب سابقہ بدنیتی کی بنا پر یہ کام کیا ۔ ۔

یہ تمام معلومات شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ وہ محکمہ جات ہیں جو ایک تو معمار قوم پیدا کرتے ہیں یعنی سکولز و کالجز اور اساتذہ ،دوسرا محکمہ صحت جو کہ مسیحائے قوم ہیں ہسپتال اور ڈاکٹرز۔ اب دونوں ہی محکمے کرپشن کی غلاظت میں لتھڑ چکے ہیں وزیراعلی شہباز شریف ان کا قبلہ درست کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ایک ایسی ایماندار اور غیرجانبدار ٹیم تشکیل دینا ہوگی جو کہ صرف اور صرف میرٹ پر کام کرے اور ترجیحی بنیادوں پر کام کرے کمیٹیاں اور کمیشن بنانے سے،انکوائریز held کرانے سے آج تک کبھی بھی مسائل حل ہوئے ہیں نا ہونگے۔یہ کام وہ مخصوص ٹیم ہی کرے کیونکہ یہ آپ کا کام نہیں ہے کہ ہرجگہ آپ ہی موجود ہوں۔یہ جو لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے اہلکار کسی مرض کاعلاج ہیں۔بہرحال اگر آپ چاہتے ہیں کہ کرپشن اور کرپٹ مافیا کا قلع قمع ہوجائے تو پھر یہ معاملات آپ کے لئے ٹرائل ہیں۔ پہلے ان معاملات کو جو کہ بالکل واضح اور اوپن ہیں کو پایہ تکمیل کو پہنچائیں اور نشان عبرت بنائیں۔ دیکھئے گا کہ کس طرح اس کا اثر ہوتا ہے عمل شرط اول ہے۔
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193312 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More